منتخب کردہ کالم

نواز شریف بمقابلہ نواز شریف .. ابراہیم راجا

نواز شریف بمقابلہ نواز شریف .. ابراہیم راجا

دوسرو ں سے لڑنا آسان، خود سے لڑنا مشکل ہوتا ہے، نوازشریف کو اس وقت نواز شریف کا ہی سامنا ہے، ایک مفاہمتی نواز شریف ہے اور دوسرا مزاحمتی نواز شریف۔ ایک انسان، دو شخصیتیں۔ دونوں میں آج سے نہیں‘ برسوں سے جنگ جاری ہے۔ کبھی ایک حاوی، کبھی دوسرا بھاری۔ مزاحمتی نواز شریف اکثر غالب آ جاتا ہے لیکن بظاہر غلط وقت، غلط موقع پر، تمام مصلحتوں کو روندتے ہوئے۔ اس وقت مفاہمتی نہیں، مزاحمتی نوازشریف حاوی ہے، اس کی وجوہات بھی ہیں لیکن موقع اور وقت کتنا نازک ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے افلاطون ہونا ضروری نہیں۔
جون دوہزار تیرہ میں نواز شریف حزب اختلاف سے حزب اقتدار میں آئے۔ اپوزیشن کا روپ مزاحمتی ہوتا ہے لیکن حکومت کا مفاہمتی۔ پاکستان میں آئین کی باتیں اور‘ وقت کی مصلحتیں اور ہوتی ہیں۔ یہ بات نواز شریف کو سمجھنا تھی، اُن پر مگر مزاحمتی روپ طاری ہو گیا۔ دسمبر دو ہزار تیرہ میں پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ قائم ہوا، یہیں سے ماحول میں کچھ تنائو پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ آصف زرداری نے خود تو مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا، مصلحت اور مفاہمت سے پانچ سال پورے کئے، نواز شریف کو مگر انہوں نے پہلے سال ہی ورغلانا شروع کر دیا، کھلے عام یہ کہہ کر کہ ”قابو میں آئے بِلے‘‘ کو نہ چھوڑیں۔ اپریل دو ہزارچودہ میں حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا، صورت حال میں ایک کنفیوژن تھی اور بدگمانی بھی۔ اس دوران نواز شریف عیادت کے لیے کراچی کے ہسپتال پہنچ گئے۔ انہی دنوں غلیل اور دلیل سے متعلق پرویز رشید کا بیان جلتی پر تیل کا کام کر گیا، یوں فضا قدرے کشیدہ ہو گئی اورغلط فہمیاں جنم لینے لگیں، کہنے والوں کا یہ کہنا ہے ۔ مئی دو ہزار چودہ میں نواز شریف نریندر مودی کی حلف برداری میں شرکت کیلئے دلی جا پہنچے۔ یہ بھی نہ سوچا کہ سوچنے والے کیا سوچیں گے۔ مودی کے ہاتھ بھارتی مسلمانوں کے قتلِ عام سے رنگے تھے، اپنی انتخابی مہم میں وہ پاکستان کے خلاف بھی زہر اگلتے رہے، نواز شریف نے مگر امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا، بطور منتخب وزیراعظم ان کے پاس اس کا مینڈیٹ بھی تھا۔ پندرہ برس پہلے کا منظر ان کی آنکھوں میں گھوم رہا تھا، بھارت میں انتہا پسند بی جے پی کی حکومت تھی، بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جوا ب میں پاکستان بھی ایٹمی دھماکے کر چکا تھا۔ حساب برابر کرنے کے بعد نوازشریف نے امن کے لیے سفارت کاری کا ڈول ڈالا، فروری انیس سو ننانوے میں بھارتی وزیراعظم واجپائی مینار پاکستان کے سائے تلے کھڑے تھے، بھارت نے پاکستان کا وجود پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر تسلیم کیا، تاریخی ”اعلامیہ لاہور‘‘ پر دستخط ہوئے، بھارت مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے بھی تیار ہو گیا۔ اُس کے بعد ہمارے اندرونی حالات کے باعث کیا ہوا، وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ نواز شریف امن کے لیے اپنی سفارت کاری کی تاریخ دہرانا چاہتے تھے، نریندر مودی مگر اپنی جبلت میں پرتشدد نظریات رکھنے والے انتہا پسند تھے۔ اگست دو ہزار چودہ میں نواز شریف حکومت کے خلاف پہلا دھرنا دیا گیا، دیکھتے ہی دیکھتے معاملات مبینہ منظم دھاندلی کی تحقیقات سے آگے بڑھ گئے، وزیراعظم کے فوری استعفے کا مطالبہ کیا گیا، پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، جوشِ خطابت میں نواز شریف کو وزیراعظم ہائوس سے گھسیٹ کر باہر نکالنے کی باتیں بھی ہوئیں۔ مظاہرین کے وزیراعظم ہائوس پہنچنے تک نوازشریف کا مفاہمتی روپ غالب رہا، معاملات مگر جب سرخ لکیر پار کرنے لگے تو نواز شریف کا مزاحمتی روپ سامنے آ گیا۔ یہ ایک اعصاب شکن مرحلہ تھا، بالآخر مزاحمتی نواز شریف استعفیٰ نہ دے کر سرخرو ہوا، اس شرط پر کہ مفاہمتی نواز شریف دھرنے کو قصۂ ماضی سمجھ کر بھول جائے گا۔ اگلے کچھ عرصے میں مفاہمتی نواز شریف غالب رہا، سانحہ اے پی ایس میں معصوم بچوں کی شہادت کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ سامنے آیا، مفاہمتی نواز شریف نے خود اس کے لیے سیاسی اور آئینی راہ ہموار کی۔ اگست دو ہزار پندرہ میں پہلے دھرنے کی پہلی سالگرہ تھی، اس موقع پر مشاہد اللہ خان کے ایک انٹرویو نے نئی چنگاری بھڑکا دی ۔اس سے پہلے کہ یہ چنگاری کسی بے قابو آگ میں بدلتی، مفاہمتی نواز شریف نے مشاہد اللہ سے استعفیٰ لے لیا۔ اگلے چند ماہ مختلف معاملات پر کبھی مفاہمتی نواز شریف، کبھی مزاحمتی نواز شریف دبتے اور ابھرتے رہے۔ دسمبر دو ہزار پندرہ میں نریندر مودی اچانک لاہور پہنچ گئے۔ نواز شریف نے امن کے لیے مودی کی طرف ہاتھ بڑھایا، مودی نے مگر بعد میں نواز شریف کی سیاسی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ وہ ”گئو رکشا‘‘ یعنی ”گائے کی حفاظت ‘‘ کرنے والے مسلح جتھوں کے غیر اعلانیہ سر پرست بن گئے، مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ریاستی پالیسی بنا لیا، مقبوضہ کشمیر میں بربریت اور سفاکیت کی نئی داستانیں رقم کیں، بلوچستان میں بارود کے بیج بوئے اورسرحدوں پر اشتعال انگیزی مزید بڑھا دی۔ یوں ”مودی کا جو یار ہے، غدار ہے‘‘ کا نعرہ تخلیق کرنے کے لیے سازگار ماحول بن گیا۔ اپریل دو ہزار سولہ میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاناما لیکس کا شور اُٹھا، اس معاملے نے مزاحمتی نواز شریف کو وقتی طور پر بھاری بوجھ تلے دبا دیا۔ اکتوبر دو ہزار سولہ میں ڈان لیکس کا نیا تنازع کھڑا ہو گیا۔ مفاہمتی اور مزاحمتی نواز شریف میں نئی کشمکش شروع ہو گئی۔ عمران خان نومبر میں اسلام آباد لاک ڈائون کا فیصلہ کر چکے تھے، بالآخر مفاہمتی نواز شریف غالب آیا ، دوسرے دھرنے سے چند روز پہلے پرویز رشید کی قربانی دے دی گئی۔ نازک معاملات اور حالات سنبھل گے، پھر مفاہمتی اور مزاحمتی نواز شریف نے مل کر لاک ڈائون کے پرخچے اڑتے دیکھنے کا خوب لطف اٹھایا۔ مفاہمتی اور مزاحمتی نواز شریف دونوں ہی پاناما کا معاملہ عدالت میں آنے پر مطمئن تھے، قسمت کو مگر کچھ اور ہی منظور تھا۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف کے دور میں کئی پیچیدہ معاملات پر حکومت کبھی لڑکھڑاتی کبھی سنبھلتی رہی۔ اس دوران مفاہمتی اور مزاحمتی نواز شریف کے درمیان بھی مسلسل آنکھ مچولی جاری رہی۔ راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو نواز شریف کا مفاہمتی روپ سامنے آیا، شکووں‘ شکایتوں کے باوجود راحیل شریف کو انتہائی احترام اور وقار کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ راحیل شریف کے بعد جنرل قمرجاوید باجوہ سپہ سالار بنے، ان کی شناخت اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتیں رکھنے والے جمہوریت پسند جرنیل کی تھی۔ یہی خوبیاں ان کے انتخاب کا باعث بنیں۔ جنرل باجوہ نے کمان سنبھالتے ہی اپنی تمام تر توجہ ملک کو درپیش سکیورٹی چیلنجز پر مرکوز کر دی۔ دوسری جانب حکومتی وعدے کے مطابق ڈان لیکس کی حتمی رپورٹ آنا تھی، یہ معاملہ پہلے ہی کورکمانڈرز کانفرنس میں زیربحث آ چکا تھا، اس کی رپورٹ کو دبانا ممکن تھا نہ ٹالنا۔ اس معاملے پر مفاہمتی اور مزاحمتی نواز شریف پھر آمنے سامنے آ گئے، مزاحمتی نواز شریف کا خیال تھا کہ پرویز رشید کی رخصتی کے بعد یہ معاملہ ختم ہو جانا چاہیے۔ یوں یہ رپورٹ تاخیر کا شکار ہونا شروع ہوئی اور ایک مرتبہ پھر ماحول خراب ہونا شرو ع ہو گیا۔ اب ایک طرف پاناما کی قانونی مشکلات تھیں، دوسری جانب تنائو بھی۔ اس نازک صورت حال میں مزاحمتی نواز شریف کو پیچھے ہٹنا پڑا، مفاہمتی نواز شریف آگے بڑھا اور طارق فاطمی کو فارغ کر دیا۔ جب حکومتی نوٹیفکیشن سر عام رد ہوا تو مزاحمتی نواز شریف کو پھر جلال آ گیا، چند روز بعد ٹویٹ تو واپس ہو گیا، اپنے پیچھے مگر گہرے نشان چھوڑ گیا۔ پھر مزاحمتی نواز شریف پاناما کی دلدل میں دھنستا چلا گیا، یہاں تک کہ بات نااہلی تک جا پہنچی۔ یوں مزاحمتی نواز شریف مزید بھڑک گیا جبکہ مفاہمتی نواز شریف مکمل طور پر دبک گیا۔ اب معاملات نااہلی سے بڑھ کر کسی اور جانب جا رہے ہیں، مزاحمتی نواز شریف سیاسی طور پر بے یار و مددگار ہے، کچھ رفقا مفاہمتی نواز شریف کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں، مزاحمتی نواز شریف مگر اپنے موقف پر اڑا ہوا ہے۔ اب مفاہمتی نواز شریف ٹھیک ہے یا مزاحمتی نواز شریف، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔