منتخب کردہ کالم

نواز شریف کوئی ’’سقراط‘‘ تھوڑا ہے ، کالم سہیل وڑائچ

نواز شریف کوئی ’’سقراط‘‘ تھوڑا ہے ، کالم سہیل وڑائچ

کہاں نواز شریف اور کہاں سقراط۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ یونان کا رہائشی جہاں غلطیوں سے سبق سیکھا جاتا ہے اور یہ تضادستان کا باشندہ جہاں وہی غلطیاں بار بار دہرائی جاتی ہیں اور کوئی بھی ان سے سبق نہیں سیکھتا۔ وہ فلاسفر و استاد اور یہ سیاست دان و بزنس مین۔ سقراط پر الزام کہ وہ ریاست کے خدائوں کو تسلیم نہیں کرتا اور نوجوانوں کے ذہن خراب کرتا ہے اور یہ بوڑھی سیاست کا نقیب جس میں نوجوان کم کم ہیں۔ سقراط پر اپنے عقائد اور فکر پھیلانے کا الزام اور نواز شریف پر کرپشن کا الزام۔ غرضیکہ دونوں میں کوئی قدر مشترک نظر نہیں آتی۔ البتہ 2500 سال پہلے بھی ریاست نے سقراط کو ملزم ٹھہرایا اور مقدمہ چلایا‘ اور اڑھائی ہزار سال بعد نواز شریف کے خلاف بھی ریاست مقدمہ چلا رہی ہے۔ اس زمانے کے عسکری خان اور عدالت خان سقراط کو زہر کا پیالہ پلانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ کیا اب بھی وہی ہو گا؟
تضادستان کی 70 سالہ تاریخ میں کوئی سقراط نہیں بن سکا۔ منتخب وزیر اعظم پھانسی چڑھے یا اسے نااہل قرار دیا جائے وہ سقراط تھوڑا بن جائے گا؟ ہاں البتہ تضادستان میں بغیر کوئی جنگ جیتے ایک عسکری خان فیلڈ مارشل بن گئے تھے اور دوسرے بھی فیلڈ مارشل کا عہدہ حاصل کرکے اپنی بہادری کی دھاک بٹھانا چاہتے تھے مگر سیاست خان نے انہیں وقت کی مار دے دی۔ فیصلہ اتنا لٹکایا کہ فیصلہ ہونے کا امکان ہی ختم ہو گیا۔ دوسری طرف عدالت خان کا بھی یہی حال ہے۔ ایک نے تو عدالتی مارشل لاء لگا دیا تھا۔ سارے ملک کے بابو خان اس کی عدالت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ اس نے تو عسکری خان کو بھی طلب کرکے اپنی اتھارٹی جتانے کی کوشش کی تھی۔ وہ اتنا طاقتور ہو گیا تھا کہ عسکری خان اور کئی عدالت خانوں کی خواہش کے باوجود اسے نہ نکال سکے۔ پھر سگریٹ نوش عسکری خان نے اس عدالت خان کو بحال کروانے میں نمایاں کردار ادا کیا جسے نکلوانے میں بھی ان کا نمایاں کردار رہا تھا۔ اسی لئے تو یہ تضادستان ہے۔ اب بھی کئی عدالت خان بغیر کوئی آئینی یا عدالتی اصلاحات کئے جسٹس مارشل بننا چاہتے ہیں۔
آئیے تاریخ میں جھانکیں۔ یہ 399 بی سی کے ایک دن کا واقعہ ہے۔ فلاسفر سقراط اپنے ہی شہر ایتھنز کے 500 شہریوں پر مشتمل جیوری میں پیش تھا۔ الزام یہ تھا کہ سقراط ان خدائوں کو نہیں مانتا جن کو ریاست خدا تسلیم کرتی ہے اور یہ بھی کہ یہ نوجوانوں کے ذہن خراب کرتا ہے۔ جیوری نے ان الزامات کو درست جانا اور سقراط کو موت کا حق دار قرار دیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سقراط کا تو ایک ایک لفظ محفوظ ہے‘ اس کے اقوال آج بھی دنیا میں گونج رہے ہیں اور اس کو سزا دینے والی جیوری تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو چکی۔ یہ بے شناخت چہرے اپنے غلط فیصلے کی وجہ سے تاریخ نے مسترد کر دیے اور ان کے نام تک بھی کوئی نہیں جانتا۔ سقراط مقدمہ ہار کر بھی جیت گیا اور اسے سزا سنانے والے جیت کر ہار گئے۔ بھٹو کو پھانسی سنانے والے بھی تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوئے۔ کئی ایک کو مکھیوں اور امتدادِ زمانہ نے ان کی زندگی ہی میں نشانِ عبرت بنا دیا۔ غصے، انتقام اور وقتی جذبات میں کئے گئے فیصلے تاریخ مسترد کر دیا کرتی ہے۔ جے آئی ٹی کو بھی غصے اور انتقام سے نہیں انصاف سے کام لینا ہو گا۔ یہی بہتر طریقہ ہے۔
کچھ عرض نواز شریف اور سیاست خانوں سے بھی ہے کہ آپ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنے اور بچوں کے بیرون ملک اثاثے واپس لا کر ایک نئی مثال قائم کیوں نہیں کرتے؟ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو اخلاقی برتری حاصل ہو گی۔ یہی کام آصف زرداری کو بھی کرنا چاہئے۔ اگر آپ ساری دولت پاکستان نہیں لاتے تو آپ پاکستان میں اقتدار میں کیوں آنا چاہتے ہیں؟ اخلاقی سوال یہ ہے کہ جس ملک پر آپ کو اعتبار نہیں آپ اپنا سرمایہ یہاں نہیں رکھتے تو تضادستان کے باقی شہری کیوں اپنا سرمایہ پاکستان لائیں گے؟
سیاست خان ہر وقت بحران میں رہتا ہے۔ اس کی سیاسی سماجی‘ اور معاشی وجوہات ہیں۔ سول ملٹری توازن ایک بڑا مسئلہ ہے مگر اصل بات یہ ہے ان باتوں سے قطع نظر مالی الزامات لگنا‘ سیاست خان کے شایانِ شان نہیں بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ پورے ملک اور عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا۔ میری ذاتی رائے یہی ہے کہ سقراط بننا ہے تو مالی الزامات سے چھٹکارا حاصل کریں‘ اثاثے واپس لائیں۔ پھر اخلاقی سیاست کی بات ہو سکتی ہے ورنہ نہیں؟ سیاست خان سے یہ بھی گزارش ہے کہ پیشی کو ”پاور شو‘‘ نہ بنایا جائے۔ چند جذباتی نعرے یا کوئی ایک شرارت‘ سیاست کے ریکارڈ کو خراب کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم کو اپنے بیٹوں کی طرح اکیلے ہی جے آئی ٹی میں جانا چاہیے۔ برصغیر میں تاریخ لکھنے والا دمودر ہو یا وارث شاہ اس کا ہیرو رانجھا اور ہیروئین ہیر ہوتی ہے جسے ظالم ریاست اور معاشرہ ولن کیدو کی شکل میں مظلوم بنا دیتا ہے۔ تضادستان میں لوگ طاقت کا ساتھ دیتے ہیں مگر ہمدردی مظلوم کے ساتھ رکھتے ہیں۔ اس نظریے کو ذہن میں رکھتے ہوئے عدالت اور عسکری خانوں کو چاہیے کہ ایک نیا بھٹو نہ بنائیں۔ یہاں کوئی سقراط کا درجہ تو نہیں پا سکتا مگر سیاسی شہادت بہت آسان ہے۔ انصاف کا کڑا ہونا ضروری نہیں انصاف کا شفاف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جہاں انصاف انتقام لگے وہاں اس کا ردعمل ہوتا ہے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ جو بھی آئے پاکستانی سیاست میں اہم ترین موڑ آنے والا ہے۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی سیاسی پنجہ آزمائی انتہا کو چھو رہی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اگلے دس سال میں ان دونوں کی سیاست تنگ گلی میں داخل ہو جائے گی۔ نواز شریف اور عمران خان دونوں کے لیے 2018ء کے بعد کوئی الیکشن لڑنا اپنی بزرگی کی وجہ سے مشکل ہوتا جائے گا‘ یوں آنے والے پاکستان کو ابھی سے نئی قیادت پر نظر رکھنی ہو گی۔ وہ قیادت کیا آج کل ہی کی قیادت میں سے ہو گی یا کوئی نیا چہرہ ابھرے گا۔ ابھی ایک دو سال پہلے سیاسی اور پارلیمانی تحقیق کے ایک ادارے نے ان 25 پارلیمانی اور جمہوری رہنمائوں کی فہرست مرتب کی جو مستقبل کی سیاست کے بڑے نام ہو سکتے ہیں۔ ان کے کوائف اور ان کی خوبیاں خامیاں بھی جمع کی گئیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا اس کی پیش گوئی فی الحال ممکن نہیں۔
جے آئی ٹی اور پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ سیاست خان‘ عسکری خان اور عدالت خان تینوں کے لئے اہم ہے۔ نواز شریف سقراط تو نہیں مگر علم نہیں انہیں کون ایسا بنانا چاہتا ہے۔ دوسری طرف کوئی حادثہ یا بڑا سیاسی واقعہ ہوتا ہے تو عمران خان کو اپنی گود میں پڑے تاج کو اپنے سر پر رکھنے کے لئے احتیاط سے چلنا ہو گا‘ انہیں حادثے سوٹ نہیں کرتے۔ انہیں امن اور سکون سے الیکشن لڑنے کی ضرورت ہے۔
کچھ عرض نواز شریف اور سیاست خانوں سے بھی ہے کہ آپ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنے اور بچوں کے بیرون ملک اثاثے واپس لا کر ایک نئی مثال قائم کیوں نہیں کرتے؟ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو اخلاقی برتری حاصل ہو گی۔ یہی کام آصف زرداری کو بھی کرنا چاہئے۔ اگر آپ ساری دولت پاکستان نہیں لاتے تو آپ پاکستان میں اقتدار میں کیوں آنا چاہتے ہیں؟