نواز شریف کیخلاف فیصلہ … ذوالفقار چیمہ
ریاست اداروں کے استحکام سے مضبوط ہوتی ہے اور ادارے اپنی ساکھ اور اعتبار سے مستحکم ہوتے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ پھر ایک اہم قومی ادارے کی ساکھ پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا اور کُوچہ وبازار میں منفی باتیں ہورہی ہیں۔ فیصلے کے بعد مختلف چینلوں پر ماہرینِ قانون کے تبصرے غور سے سنے۔ حکومت مخالف کئی سینئر وکلاء، سپریم کورٹ بار کے موجودہ اور چار سابق صدور سے پوچھا گیا توتمام نے فیصلے پر اعتراضات، تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا۔
ایکسپریس ٹریبیون اور ڈان جیسے غیر جانبدار اخبارات نے اداریوں میں تحریر کیا ہے کہ شور بہت تھا مگرفیصلے میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کا ذکر نہیں ہے، منتخب وزیرِاعظم کی سزا کی بنیاد کمزور ہے اس لیے ریویو پٹیشن کی سماعت کے لیے فل کورٹ کی تشکیل ہونی چاہیے۔ راقم نے خود اعلیٰ عدالتوں سے ریٹائر ہونے والے کئی انتہائی قابل جج صاحبان سے پوچھا تو انھوں نے نااہلی کی گراونڈ کو Flimsy (ہلکا اور بودا) قرار دیا۔ ماہرین اس پر حیران ہیں کہ فاضل عدالت نے Receivableکو اثاثہ کیسے قرار دے دیا، اثاثہ تو وہی ہوتا ہے جو Receive ہوچکا ہو۔
افسوس اس بات پر بھی ہے کہ راقم جو خود پوری سروس کے دوران کرپشن کے خلاف جنگ کرتا رہاہے، اسے بھی اس فیصلے پر تحفظات کااظہار کرنا پڑرہا ہے۔ کاش ایسا ہوتا کہ راقم فیصلے کی کھل کر تعریف کرسکتا لیکن یہ تب ہوتا جب ’’ انصاف کرنے‘‘ کے سارے مراحل میںکچھ غیر معمولی اور مشکوک چیزیں نظر نہ آتیں، جب سزا کرپشن کی بنیاد پر دی جاتی، جب ایک شخص کے علاوہ دوسرے کئی گنا بڑے (مصدقہ طور پر لوٹ مارکرنے والے) ملزموں کے خلاف بھی مقدمات چل رہے ہوتے اور انھیں سزا دلانے میں بھی ایسے ہی جوش وخروش کا مظاہرہ کیا جاتا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پاناما لیکس کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج بھی آف شور کمپنی کے مالک ہیں،آخر وہاں اتنے جوش و خروش کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا گیا؟ مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف سلوک روا رکھا جائے تو فیصلے مشکوک ہوجاتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے کئی فیصلوں میںبھی62/63پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے تو اس کے بعد وزیراعظم کو سزا دینے کے لیے 62/63ہی کا سہارا کیوں لیاگیا؟
اس بات پر بھی تشویش ہے کہ فیصلہ عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے کو مضبوط نہیں متنازعہ بنادیگا۔ وہ اینکر اور تجزیہ نگار جو بغیر کسی مقدمے اور شہادت کے مسلم لیگ کے قائد کو تختہء دار پر لے جانے کے خواہشمند رہتے تھے وہ بھی نااہلی کی گراؤنڈ دیکھ کر جھینپ گئے اور انھیں بھی فیصلے کی تحسین اور دفاع میں مشکل پیش آتی رہی جب انھوں نے دیکھا کہ کہانی پاناما سے شروع ہوکر اقامہ پر ختم ہوگئی ہے اور کوئی سینئر ماہرِ قانون فیصلے کی تعریف و توصیف کرنے پر آمادہ نہیں تو انھیں آئین و قانون کے عظیم پاسبان جناب جنرل پرویز مشرّف سے رجوع کرنا پڑا۔
ایک پارٹی کے نہایت ذہین سربراہ نے پھبتی کسی کہ “پہلے پیسے وصول کرنے پر سزا ملتی تھی، اس بار پیسے وصول نہ کرنے پرسزا دی گئی ہے ” ۔ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والے منتخب وزیرِاعظم کو اپنے بیٹے کی کمپنی سے وہ تنخواہ جو وہ لے سکتے تھے (receivable) مگر انھوں نے نہیں لی اس کا اندراج نہ کرنے پر گھر بھیج دیا گیا ہے۔ عوام کی اکثریّت اسے کیسے قبول کریگی؟
انتخابی قوانین کے مطابق ہر امیدوار پر لازم ہے کہ وہ کاغذاتِ نامزدگی داخل کراتے وقت اپنے اور بیوی بچوں کے تمام اثاثوں کا اندراج کرے۔ اگر وہ سہواً کسی بینک اکاؤنٹ میں تیس ہزار روپے یا ایک موٹر سائیکل کا اندراج نہ کراسکے تو اس کا انتخاب کالعدم قرار دے دیا جائیگا، ایسا قانون بنانے کی وجہ یقیناً یہ ہوگی کہ اسمبلی کا رکن بننے یا پبلک آفس حاصل کرنے کے بعد اس کی پراپرٹی میں اگر اضافہ ہوا ہے تو اس کے ذرایع کے بارے میں اس سے پوچھا جاسکے۔کیا کسی ایک بھی رکنِ اسمبلی سے کسی ادارے نے اثاثوں میں اضافے کے بارے میں کبھی پوچھا ہے؟ ہرگز نہیں، تو پھر اس قانون کی کیا افادیت ہے؟
اثاثے قصداً چھپانا (Willful concealment ) تو جرم ہے مگر سہواً ذکر نہ کرنا کیا اتنا بڑا جرم قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس کے باعث انتخاب کو ہی کالعدم قرار دیکر رکن اسمبلی کو نااہل قرار دے دیا جائے؟ قانونی حلقوں نے اس پر کئی بار تخفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی ایک آدھ اثاثے کا ذکر سہواًرہ جانے پر رکن ِاسمبلی کو نشست سے محروم کرنا مناسب نہیں، اس قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ رکنِ اسمبلی سے کچھ جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے مگر نشست سے محرومی کی سزا زیادتی اور ایک لاکھ کے قریب ووٹروں کے فیصلے کی توہین ہے۔
پانچ رکنی بنچ نے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ میاں نوازشریف اور ان کے فیملی ممبرز کے خلاف ریفرنس نیب کی عدالت میں بھیجے جا رہے ہیں اور وہاں ہونے والے ٹرائیل کو بھی عدالتِ عظمیٰMonitor کریگی۔ اس پر تمام سینئر وکلاء نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر مہذب معاشرے میں تفتیش، پراسیکیوشن اور ٹرائیل کا علیحدہ علیحدہ دائرہ کار ہو تا ہے اور کوئی ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ اگر عدالتِ عظمیٰ کسی ماتحت عدالت (نیب کورٹ) کی کارروائی کو مانیٹر کریگی تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ٹرائیل کورٹ، بڑی عدالت کی خواہش کیمطابق ہی فیصلہ کریگی۔ بڑی عدالت کا ماتحت عدالت میں ہونے والے ٹرائیل کی نگرانی کرنا انصاف کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔
تمام باخبر حلقے اس پر متفق ہیں کہ پاناما یا اقامہ توصرف بہانہ ہے، میاں نوازشریف کی برطرفی کا فیصلہ ہوچکا تھا، سوال یہ ہے نواز شریف کو کس جرم کی سزا دینا مقصود تھی؟ اس سلسلے میں مختلف تجزیہ نگاروں کی آرأ مختلف ہیں۔ زیادہ تر اس بنیادی قضیئے کی جانب نشاندہی کرتے ہیں جو ہمارے ملک میں ابھی طے ہونا باقی ہے یعنی سول ملٹری تعلقات اور ان کی اصل حدود کا تعین۔
کچھ باخبرحضرات کا خیال ہے کہ نواز شریف اپنی مدت پوری کرلیتے، ٹارگٹ کے مطابق انرجی کا مسئلہ حل کرلیتے تو اگلا الیکشن بھی آسانی سے جیت جاتے، چوتھی مرتبہ منتخب ہونے والا طاقتور وزیرِاعظم کچھ اداروں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا، اس لیے اسے کسی نہ کسی طریقے سے اسی سال فارغ کرنا ہی تھا۔
عالمی امور پر نگاہ رکھنے والے کئی حضرات کا خیال ہے کہ نوازشریف پاکستان کو چین کے بہت زیادہ قریب لے گئے تھے اس پر امریکا ان سے ناخوش اور ناراض تھا۔ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ اسوقت ملک درست سمت اور اکانومی بہتری کیجانب گامزن تھی، ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کی بنیادیں مضبوط ہورہی تھیں جو عالمی طاقتوں کو کسی صورت گوارا نہیں اور وہ ملک میں سیاسی عدمِ استحکام دیکھنا چاہتی ہیں۔ کئی ریٹائرڈ جج صاحبان کچھ منصفین کی ذاتی رنجش کی نشاندہی بھی کرتے ہیں ۔ مگر کچھ دیگر عوامل کا ذکر بھی ضروری ہے۔
دفاع کرنے والی حکومت کی لیگل ٹیم نااہلی کی گراؤنڈ کی طرح کمزور تھی۔ وہ موثّر طور پر دفاع نہیں کرسکی، اسے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ اب بھی ریویو کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک نااہلی کی مدت کا تعلق ہے تو چونکہ نااہلی کاغذاتِ نامزدگی میں کسی آمدنی یا اثاثے کا ذکر نہ کرنے پر ہوئی ہے اس لیے اس سے ممبر کا انتخاب کالعدم قرار دیا جاتا ہے اُس پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی نہیں لگتی۔
کسی بھی رکنِ اسمبلی کے انتخاب لڑنے پر تاحیات پابندی نہیں لگائی گئی، ٹی وی پر نمودار ہونے والے کچھ چہروں کو میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی سے اسقدر بغض ہے کہ نواز شریف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے شعلے اور منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے، وہ لوگ اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے پیش گوئی کررہے ہیں کہ مسلم لیگ کے کافی ممبرپارٹی چھوڑ جائیں گے۔ پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں ممبران نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے، اس سے نظر آتا ہے کہ پارٹی نواز شریف کے ساتھ کھڑی رہیگی۔
عوام میں زیادتی کا تاثر بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ویسے بھی پارٹیاں تب ٹوٹتی ہیں جب کوئی فوجی ڈکٹیٹر ملک پر قبضہ کرلے اور باوردی افسر لوگوں کو بلا بلا کر دھمکیاں دیں کہ سرکاری پارٹی میں شامل ہوجاؤ ورنہ جیل جانے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ مشرّف دور میں اسطرح ہوتا رہا اور قاضی حسین احمد صاحب مرحوم ایسے کئی افسروں کے نام بھی میڈیا کو بتاتے رہے، مگر نہ جانے ان کے خلاف کیوں کاروائی نہ کی گئی۔
ایک پرانا واقعہ یاد آرہا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السّلام کے زمانے میں کچھ لوگ ایک عورت کو بدکاری کے الزام میں پکڑ لائے اور پتھر مارنے لگے۔ پیغمبرِ خدا نے آکر فرمایا ’’ٹھہرو رک جاؤ!۔۔ اس عورت پر پتھر وہ اٹھائے جسکا اپنا دامن صاف ہے‘‘ ٹی وی پر عوامی ریلیوں میں کچھ ایسے کَتبے بھی نظر آئے جن پر لکھا تھا ’’کیاسزا دینے والے 62/63 پر پُورا اترتے ہیں؟‘‘
آخر میں محترم سراج الحق صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ریلیوں کے بجائے عدالتِ عظمیٰ میں جاکر درخواست دیں کہ پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی کے چوٹی کے پانچ پانچ لیڈروں کا احتساب اسطرح کیا جائے جیسا میاں نواز شریف کا کیا گیا ہے تاکہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے اور عدلیہ پر ہونے والے اعتراضات کا خاتمہ ہو۔ نیز آئین کے آرٹیکلز 62اور 63 کا ہر صورت دفاع کیا جانا چاہیے۔
………….
کالم بلال الرشید