منتخب کردہ کالم

نواز شریف کی وطن واپسی اور گیم پلان۔۔۔ مزمل سہروردی

نواز شریف کی وطن واپسی … اور گیم پلان
ابھی تک خبر یہ ہے نواز شریف وطن واپس آرہے ہیں۔اگر آنا ملتوی نہ ہوا تو وہ آرہے ہیں۔ کیونکہ اگر نہ آنا ہوتا تو خبر آتی ہی نہ کہ وہ آرہے ہیں۔ ایک رائے تو یہی تھی کہ اب وہ ملک سے چلے گئے ہیں تو حالات کے بہتر ہونے تک ملک سے باہر ہی رہیں گے۔ ریفرنسز سے بچنے کا ایک طریقہ یہی ہے کہ ملک سے باہر رہا جائے۔ بہرحال ملک کے سیاستدانوں نے قانون میں یہ ترمیم تو کر لی ہوئی ہے کہ کسی کو بھی اس کی غیر موجودگی میں سزا نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح جو بھی ملک سے باہر چلا جاتا ہے اس کے خلاف مقدمات کی سماعت رک جاتی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف بھی اس وقت اسی قانون کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اسی لیے عام رائے یہی تھی کہ نواز شریف بہت بہترین وقت میں ملک سے چلے گئے ہیں۔ اب وہ سزاؤں سے بچ جائیں گے اور ایک مناسب وقت پر ملک میں واپس بھی آجائیں گے۔

لیکن سوال یہ تھا کہ اگرمقدمات سے بچنے کے لیے ہی نواز شریف ملک سے باہر گئے ہیں تو مریم نواز پاکستان میں کیا کر رہی ہیں۔ اس بارے میں رائے یہ تھی کہ وہ باہر جانے کے لیے نہیں مان رہی ہیں۔ وہ جیل جانے کے لیے تیار ہیں۔ وہ سرنڈر کے موڈ میں نہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ مفاہمت کے راستہ کے حق میں نہیں ہیں۔

بہر حال نواز شریف کی وطن واپسی پر جب میں نے ن لیگ کے سنیئر لیڈرپرویز رشید سے سوال کیا تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے کیوں تمھارا خیال تھا کہ اب نہیں آئیں گے۔ میں نے کہا صرف میرا ہی نہیں ایک عمومی رائے ہی یہ تھی کہ اب نہیں آئیں گے۔ بس نکل گئے۔ کہنے لگے کیسی بات کرتے ہو کوئی باپ ایسا ہو سکتا ہے کہ خود نکل جائے اور بیٹی کو مشکل میں چھوڑ جائے۔

آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ وہ خود بچ جائیں گے اور بیٹی کو پھنسا جائیں گے۔ میں نے کہا وہ جانے کے لیے مان نہیں رہی تھیں۔ وہ کہنے لگے یہ شریف خاندان ہے۔ یہاں بچے والدین سے بغاوت نہیں کرتے۔ اگر نواز شریف اشارہ بھی کرتے تو وہ چلی جاتیں۔ نواز شریف نے انھیں ملک سے جانے کے لیے کہا ہی نہیں۔ملک سے جانا نواز شریف کے گیم پلان میں بطور آپشن بھی نہیں۔اگر ملک سے باہر جانا ہی ہوتا تو نا اہلی کا تاج نہیں سجاتے۔ بلکہ استعفیٰ دیکر محفوظ راستہ لے لیتے۔ اگر باہر ہی جانا ہوتا تو جی ٹی روڈ سے لاہور نہ آتے بلکہ جہاز سے لاہور آتے ہیلی کاپٹر پر جاتی عمرہ چلے جاتے۔ اگر باہر جانا ہی آپشن ہوتا تو 120 سے بیگم کلثوم نواز کو امیدوار نہ بناتے ۔ کسی کارکن کو ٹکٹ دیتے وہ بھی جیت جاتا۔ سب کچھ جو ہو رہا ہے اس میں ہماری مرضی بھی شامل ہے۔ اس ضمن میں ساری گفتگو سطحی اور حقائق سے برعکس ہے۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ نواز شریف اب وزیر اعظم بن نہیں سکتے۔ مریم نواز پر بھی ریفرنس آرہے ہیں۔ان کے بھی وزیر اعظم بننے کے امکانات کم ہیں۔ تو پھر گیم پلان کیا ہے۔ سادہ بات تو یہ ہے کہ پھر وہ مزاحمت کی سیاست کے موڈ میں ہیں۔ وہ ملک کے اداروں سے ٹکرانے کے موڈ میں ہیں۔ 120کے انتخابات کا سیاسی درجہ حرارت جان بوجھ کر اس حد تک بڑھایا جا رہا ہے کہ اس کو نواز شریف کو نکالنے والے اداروں کے خلاف ریفرنڈم کی شکل دے دی جائے۔

نواز شریف کے وطن سے جانے سے پہلے اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج کے خلاف ریفرنس کی خبریں بھی آرہی تھیں۔ ایسے میں یہ رائے ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی سے تصادم بڑھ جائے گا۔ تصادم کی یہ فضا کسی بھی طرف جا سکتی ہے۔ لیکن نواز شریف نے تصادم کا فائنل فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر نیب کے ریفرنس ان کو ملک سے بھگانے کے لیے بنائے جا رہے تھے تو وہ ملک سے نہیں بھاگ رہے بلکہ ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ جیل جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کی جیل کاٹنے میں کیا حرج ہے۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ جیل کی جیل بھی اور آسانی کی آسانی بھی۔

نواز شریف کی ملک میں پانچ حکومتیں ہیں ۔ مرکز میں ان کا ایک کارکن وزیر اعظم ہے۔پنجاب میں ان کا بھائی وزیر اعلیٰ ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں بھی نواز شریف کے نمایندوں کی حکومت ہے۔ شاید ایسا سوچا جا رہا کہ ایسے میں جیل کیا مشکل ہے۔اگر پانچ حکومتوں کی موجودگی میں لیڈرجیل چلا بھی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر ضمانت بھی ہو جائے گی۔

ایسے میں یہ بھی لگتا ہے کہ نواز شریف نے جی ٹی روڈ کی ریلی اور 120کے ضمنی انتخاب میں اپنے نکالے جانے پر اس قدر جارحانہ موقف لے لیا ہے کہ اب کسی کے لیے انھیں سزا دینا آسان نہیں ہو گا۔ یہ بھی رائے ہے کہ پاناما کے کیس میں نواز شریف کے بطور وزیر اعظم ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ وہ لڑ نہیں سکتے تھے جس کا ان کے مخالفین نے بہت فائدہ اٹھایا۔ اس لیے اب وہ جب ایک عام آدمی اور ایک لیڈر کے طور پر ریفرنسز کا سامنا کریں گے تو وہ اپنا دفاع بہتر طریقہ سے کر سکیں گے۔نیب کی مثال سب کے سامنے ہے نواز شریف بطور وزیر اعظم نہ تو خود اور نہ ہی ان کے بچے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر سکتے تھے ۔ لیکن نیب کے سامنے پیش ہونے پر انکار سے کوئی طوفان نہیں آیا۔ سیاسی طور پر بھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔

اس ضمن میں آصف زرداری کی مثال بھی سب کے سامنے ہے۔ کس طرح انھوں نے اپنے ریفرنس سالوں چلائے۔اور پھر ایک وقت آیا کہ سیاسی طور پر وقت بدل گیا اور وہ سب ریفرنس سے بری ہو گئے۔ یہ درست ہے کہ ریفرنس کو لمبا کرنا آصف زرداری کی پہلے دن سے حکمت عملی تھی۔ نواز شریف بھی اپنے وکلا ء کے ساتھ مل کر یہ کر سکتے ہیں۔ سماعت کے دوران دوبارہ ملک سے باہر جایا جا سکتا ہے۔ درمیان میں حکم امتناعی بھی لیا جا سکتا ہے۔ اور پھر اب تو جے آئی ٹی کے ارکان پر جرح بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے ریفرنس کا سامنا کرنے میں فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔

لیکن بلا شبہ نواز شریف آگ سے کھیل رہے ہیں۔ وہ اداروں سے ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں ان کے بڑے نقصان کا بھی خطرہ ہے۔ وہ مفاہمت کے تمام دروازے بند کر رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی جماعت میں بغاوت ہو سکتی ہے۔ ان کی جماعت کے سنیئر لیڈر اس کے لیے تیار نہیں۔ جو مفاہمت کی بات کر رہے ہیں وہ ان سے اتفاق نہیں کر رہے ہیں۔ وہ واضح لکیر کھینچ رہے ہیں۔ جوبھی مفاہمت کے حامی ہیں ان کے لیے اب کوئی جگہ نہیں۔ وہ اقتدار کی سیاست سے دور جا رہے ہیں۔ان کے سیاسی اہداف میں طاقت کا حصول پہلا آپشن نظر نہیں آرہا۔ وہ تو اپنی موجودہ حکومتوں کو بھی مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ سے ٹکرانے جا رہے ہیں۔ وہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کی نا اہلی سے کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سے سیاستدانوں نے اسٹبلشمنٹ سے ٹکراؤ کے بجائے ملک سے باہر جانے کے آپشن کو استعمال کیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو آصف زرداری سمیت سب نے ہی مختلف مواقع پر باہر جانے کے آپشن کو استعمال کیا ہے۔ نواز شریف کی اب یہ لڑائی دلچسپ بھی
​​
ہے اور فیصلہ کن بھی۔