منتخب کردہ کالم

نواز شریف کے بعد عمران خان بھی؟ .. ابراہیم راجا

نواز شریف کے بعد عمران خان بھی؟ .. ابراہیم راجا

تیس برس اور تین لیڈرز، ٹوٹ کر جنہیں عوام نے چاہا۔ ایک کو ہم نے کھو دیا، انجام ہمارے سامنے ہے، زرداری صاحب کی صورت۔ اب نواز شریف کو گھر بھیجنے کی تیاری ہے؟ صرف انہیں یا اگلے مرحلے میں عمران خان کو بھی؟ رخصتی کا یہ کھیل قدرتی ہے یا پُتلیاں نچانے والوں کا؟ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
دھرتیاں سدا بانجھ نہیں رہتیں، سو فیصد درست، لیڈرز مگر عشروں بعد ہی پیدا ہوتے ہیں، عوامی لیڈرز، جن کی خامیاں نہیں، صرف خوبیاں نظر آتی ہیں، ان کے چاہنے والوں کو۔ تاریخ کے اوراق میں زندہ ہے، یاد رکھنے والوں کو بھی یاد ہو گا، اکتیس برس پہلے کا وہ منظر، لاہور میں ایک انسانی سمندر تھا اور بھٹو کی بیٹی، زخم جھیلتی جلا وطنی کے بعد جو لوٹی تھی۔ 1988 میں تاریخ کا ایک باب ختم، دوسرا شروع ہوا۔ وقت بدلا، پرانا کھیل مگر جاری رہا، نئے کھلاڑیوں کے ساتھ۔ 1988 سے 1999 تک بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتیں، غیر فطری موت مرتی رہیں، ان پر سکیورٹی رسک اور کرپشن کے الزامات لگے، وقت مگر ثابت کر چکا کہ اصل کھیل کیا تھا۔ اس کھیل کی ہدایت کار اگرچہ کچھ اور قوتیں تھیں، یہ بھی مگر سچ ہے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھی مہروں کے طور پر استعمال ہوئے، ایک دوسرے کے خلاف۔ دونوں کی حکومتیں برطرف ہوئیں، دونوں پھر اقتدار میں آ گئے۔ ایک حقیقت اس سے واضح ہو گئی، ایک فیصلہ ڈرائنگ رومز میں ہوتا ہے، ان قوتوں کا جو خود کو فیصلہ ساز اور عقلِ کُل سمجھتی ہیں، ایک فیصلہ مگر عوام کا ہوتا ہے، حتمی اور تاریخ میں زندہ رہنے والا فیصلہ۔ سیاست میں نواز شریف اور بینظیر کا کردار ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا، پرویز مشرف دھڑلے سے یہ کہا کرتے، اپنے دورِ آمریت میں۔ ایک بات مگر وہ بھول گئے، عوامی لیڈرز کا سیاسی وجود بڑا سخت جان ہوتا ہے، غیر فطری طور پر وہ کبھی نہیں مرتا، ہاں مستقل غلطیوں سے قدرتی طور پر وہ تحلیل ہو سکتا ہے، اس میں بھی چند برس نہیں، کئی عشرے لگ جاتے ہیں۔ پوچھنے والے یہ بھی پوچھتے ہیں، سیاست میں اب مشرف صاحب کا اپنا کیا کردار ہے؟ عوام میں وہ کتنے مقبول ہیں، اس کا اندازہ انہیں چار برس پہلے ہو چکا، خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے کراچی وہ پہنچے تھے، پاکستان کو سیاسی طور پر فتح کرنے، سوشل میڈیا پر چالیس لاکھ فینز کا انہیں زعم تھا، چار سو بھی مگر ان کا استقبال کرنے نہ پہنچے۔
عوامی لیڈرز اثاثہ ہوتے ہیں، ملک اور عوام کا، وہی مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کو متحد رکھ سکتے ہیں، ایک قوم کے طور پر۔ بے نظیر دو ہزار سات میں قتل کر دی گئیں، نتیجہ کیا نکلا؟ نفرت کی لہر۔ اس کے بعد زرداری صاحب قوم پر مسلط ہو گئے۔ کتنی بے رحمی اور بے دردی سے پھر مُلک لوٹا گیا، سیکڑوں مرتبہ یہ داستان لکھی اور پڑھی جا چکی۔ پیپلز پارٹی جو وفاق کی علامت سمجھتی جاتی، اندرون سندھ تک سُکڑ گئی، زرداری صاحب کے کرشموں کی بدولت۔ بی بی اگر زندہ ہوتیں، تب بھی یہی سب کچھ ہوتا؟ حکمران اور عوامی رہنما قانون سے بالاتر نہیں، ان کے احتساب سے کون انکار کر سکتا ہے؟ اس احتساب کے مگر مخصوص اہداف نہیں ہونے چاہییں۔ وزیر اعظم نواز شریف رتی بھر رعایت کے مستحق نہیں، اگر ان پر کرپشن ثابت ہو جائے تو۔ ایک معاملے کی لیکن پوری تسلی کے ساتھ چھان بین ضروری ہے، کسی پراسرار اور غیر ضروری عجلت کے بغیر، کیا یہ عوامی پیسہ یا قومی خزانے کی لوٹ مار کا مقدمہ ہے؟ یا عشروں پرانے ذاتی کاروبار کے لین دین کا؟ وہ لین دین جس کی مبینہ طور پر کچھ
رسیدیں اب دستیاب نہیں؟ یا محض تضاد بیانی کا؟ اگر اعلیٰ ترین قانونی اور اخلاقی معیار اپنا لیا جائے، پھر تضاد بیانی پر بھی نااہلی ہو سکتی ہے، یہاں مگر ایک سوال اور بھی ہے، اس اعلیٰ اخلاقی و قانونی معیارکے تحت کوئی ایک لیڈر بھی بچ سکتا ہے؟ بے نظیر گڑھی خدا بخش کی خاک میں خاک ہو چکیں، دس برس گزر گئے، قوم اب تک ان کی شہادت کا کفارہ ادا کر رہی ہے، کیا اب نواز شریف کو سیاسی موت سے ہمکنار کرنے کی تیاری ہے؟ پھر اسی اعلیٰ اخلاقی معیار کو جواز بنا کر عمران خان کو بھی؟
عمران خان کی اپنی کہانی ہے، سیاست کے ریگستان میں پندرہ برس ایڑیاں انہوں نے رگڑیں، پھر دو ہزار گیارہ میں وہ مقبول عوامی رہنما کے طور پر ابھرے۔ سیاسی غلطیاں انہوں نے بہت کیں، ایک پراسرار دھرنے کا داغ بھی ان کے دامن پر ہے، عوام میں مگر وہ اب بھی خاصے مقبول ہیں۔ کسی غیر آئینی کھیل کا حصہ نہیں بننا، بے نظیر اور نواز شریف نے وقت سے یہ سیکھا۔ کیا عمران خان بھی اب یہ سبق سیکھنے کو تیار ہیں؟ تیس برس میں ہمیں صرف تین عوامی لیڈر ملے، بے نظیر، نواز شریف اور عمران خان۔ ایک اصلی قبر میں جا سوئی، دو سیاسی قبریں اب اور تیار ہو رہی ہیں؟ بظاہر یہ معاملہ ”دو سیاست دان لیکن قبر ایک‘‘ جیسا نہیں لگتا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نواز شریف اگر نااہل ہوئے، عمران خان کی نااہلی کے لیے بھی پھر ”صدائیں‘‘ بلند ہوں گی، یعنی دو سیاسی قبریں، دو سیاست دان۔ عوامی لیڈروں کا احتساب ضرور ہو مگر یہ کوئی کھیل نہیں، گڑے مردے اکھاڑنے کا کھیل، پورے سیاسی نظام کو غیر آئینی گڑھے میں دفنانے کے لیے۔ عمران خان اگر پارٹی سے نکل جائیں تو بچتا کیا ہے؟ جہانگیر ترین، علیم خان، شاہ محمود، اعظم سواتی اور نذر گوندل؟ نواز شریف کے بغیر بھی مسلم لیگ ن کچھ نہیں، وہی پارٹی کو متحد رکھ سکتے ہیں اور اصل ووٹ بینک بھی انہی کا ہے۔ کیا اس پورے بحران کو کسی خاص انجام کی طرف بڑھایا جا سکتا ہے؟ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے حصے بخرے کرکے؟ پیپلز پارٹی تو پہلے ہی دفن ہو چکی، شہید بی بی کے ساتھ۔ زرداری صاحب کے کسی جنتر منتر سے اب پارٹی زندہ نہیں ہو سکتی، ہاں بلاول ایسا کر سکتے تھے، زرداری مگر خوف کا شکار ہیں۔
نواز شریف اور عمران خان کا ”پیچیدہ‘‘ احتساب ایک طرف، ایک زمینی حقیقت مگر اس کے برعکس بھی ہے، الزامات کا انبار اپنی جگہ، قومی سطح پر لیکن ان دونوں کے سوا کوئی اور مقبول لیڈر بھی ہے؟ کیا صرف یہ دیکھنا ہی کافی ہے کہ کتنے لوگ نواز شریف کے خلاف ہیں اور کتنے عمران خان کے خلاف؟ یا یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کتنے لوگ اب بھی نواز شریف کے حامی ہیں اور عمران خان کے بھی؟ گزشتہ چار سال میں بڑے سیاسی اتار چڑھاو آئے، ایک رجحان مگر بظاہر منفی لیکن اصل میں بہت مثبت تھا، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلے کا رجحان، صرف سیاسی میدان میں نہیں، عملی طور پر کارکردگی دکھانے میں بھی۔ اگلا الیکشن اگر وقت پر ہوا تو کون جیتے گا؟ صاف ظاہر ہے کہ نواز لیگ یا تحریک انصاف۔ ان میں ایک جماعت حکومت میں ہو گی، ایک سب سے بڑی اپوزیشن۔ یعنی دونوں میں پھر مقابلے کی فضا بنی رہے گی۔ مقابلے کی یہ فضا اگر آئینی حدود میں رہے، تبھی ملک آگے بڑھتے ہیں، جمہوریت اور معیشت بھی۔ سیاست کا فیصلہ کسی صورت تھرڈ امپائر کے پاس نہیں جانا چاہیے، اُس کی انگلی اگر کھڑی ہو جائے، کوئی ایک نہیں پھر تمام سیاسی کھلاڑی آوٹ ہو جاتے ہیں۔