منتخب کردہ کالم

نواز لیگ اپنا بُرابھلا خوب سمجھتی ہے،تجریہ: قدرت اللہ چودھری

جہانگیر

نواز لیگ اپنا بُرابھلا خوب سمجھتی ہے،تجریہ: قدرت اللہ چودھری
بہت سے سیاستدانوں کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ آخر نواز شریف کو دوبارہ مسلم لیگ ن کا صدر بننے کی کیا جلدی تھی؟ بعض کا خیال ہے کہ اگر شہباز شریف کو کچھ عرصے کے لئے یہ منصب سونپ دیا جاتا تو اس میں آخر مضائقہ ہی کیا تھا؟ ان کا خیال ہے کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کی رکنیت کا نا اہل قرار دیا، جس کے بعد وہ وزیراعظم کی اہلیت بھی کھو بیٹھے، اب ایک نا اہل شخص کے لئے قانون میں ترمیم کی گئی ہے، حالانکہ مسلم لیگ ن کے پاس شہباز شریف کو صدر بنانے کا آسان راستہ کھلا تھا، اور اگر ایسا ہوجاتا تو وہ سیاست کو ایک نئے رخ پر ڈال دیتے، شیخ رشید احمد کو تو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ نواز شریف آخر اپنے چھوٹے بھائی پر بھی اعتبار کیوں نہیں کرتے حالانکہ یہ بے اعتباری کا نہیں سیاسی حکمت عملی کا معاملہ ہے جونہی نواز شریف کی نا اہلی کا معاملہ سامنے آیا فوری طور پر شہباز شریف کا نام اگلے وزیراعظم کے طور پر لیا جانے لگا، اب ظاہر ہے اگر شہباز شریف نے یہ عہدہ سنبھالنا تھا تو پہلے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کو خیر باد کہنا تھا، پھر وزارت علیا چھوڑنی تھی، اس کے بعد قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنا تھا اور جیت کی صورت میں وزیراعظم بننا تھا۔ یہ تمام مراحل کئی مہینوں پر محیط عمل ہے۔ اس دوران وزیراعظم کا عہدہ خالی تو نہیں رہ سکتا تھا۔ چنانچہ جب وزارت عظمیٰ کا تاج شاہد خاقان عباسی کے سر پر رکھا گیا تو کہا گیا کہ وہ عبوری عرصے کے لئے وزیراعظم ہوں گے اس دوران شہباز شریف الیکشن جیت کر آجائیں گے تو عباسی صاحب مستعفی ہوجائیں گے لیکن بعد میں جب معاملے پر ذرا زیادہ گہرائی کے ساتھ غور کیا گیا تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ پنجاب میں تو بہت سے ارکان پنجاب اسمبلی وزیراعلیٰ بننے کی خواہش پالے بیٹھے ہیں، ان بہت سے لوگوں کو کیسے مطمئن کیا جائیگا، ان میں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی تھے، اگر والد صاحب وفاق میں وزیراعظم ہوتے اور صاحبزادے پنجاب میں وزیراعلیٰ تو آپ کا کیا خیال ہے مخالفین اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے؟ پھر مسلم لیگ ن کا پاور بیس پنجاب ہی ہے، اس وقت بھی اس کی وفاقی حکومت پنجاب کی طاقت کے زور پر قائم ہے اور یہ طاقت مہیا کرنے میں شہباز شریف کا بڑا حصہ ہے، دوسرے لفظوں میں یہ بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ 2008ء کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر 2013ء میں اسے وفاقی حکومت کا اہل سمجھا گیا اس پاور بیس کو اگر کسی ایسی شخصیت کے سپرد کردیا جاتا جو شہباز شریف کی طرح متحرک نہ ہوتی تو پنجاب میں جو کمائی بڑی محنت سے کی گئی تھی اس کے اکارت جانے کا خطرہ تھا۔ اس وقت پنجاب میں بہت سے میگا پراجیکٹس جاری ہیں جن میں توانائی کے منصوبے بھی ہیں اور ایسے ہی منصوبوں کی بنیاد پر نومبر میں لوڈشیڈنگ سے جان چھڑانے کے امکانات ہیں، مسلم لیگ ن کی سیاست کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ یہ سب منصوبے وقت پر مکمل ہوں اور اگلے انتخابات میں ایسی ہی کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی کی امید کی جارہی ہے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں اس کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا۔ شہباز شریف کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے ہی ان کی ’’ترقی‘‘ نہیں ہوپا رہی کیونکہ کہا یہ جارہا ہے کہ اگر وہ ترقی پا کر وفاق میں چلے گئے تو پنجاب میں مشکلات ہوں گی، یہ تو مسلم لیگ ن کے خیر خواہوں کی سوچ ہے البتہ مخالفین تصویر کا دوسرا تاریک رخ دیکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ در اصل نواز شریف چھوٹے بھائی پر اعتماد ہی نہیں کرتے۔ جہاں تک خاندان میں سیاسی امور پر اختلافات کا تعلق ہے بعید نہیں کہ ان کا حیقیقی وجود بھی ہو لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے معمولی اختلافات کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کے اجلاس میں شہباز شریف نے جو تقریر کی اس میں اپنے قائد اور بڑے بھائی کو اگر بعض مشوروں سے بھی نوازا اور نام لئے بغیر بعض لوگوں سے خبردار کیا تو اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ایسے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں جو بھائیوں میں اختلافات بڑھانے کا لئے سرگرم عمل ہوتے ہیں، یہاں بھی ہوں گے، بعض اخبار نویس بھی ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں وہ بھی نہ صرف خاندانی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں بلکہ زیب داستاں کیلئے کچھ مرچ مصالحہ بھی ڈال دیتے ہیں۔ اس لئے اگر شہباز شریف نے خبردار کیا تو اچھا کیا، لیکن بندہ پوچھے یہ شیخ رشید کی شہباز شریف کے لئے محبت کیوں اتنی جاگی ہوئی ہے کہ وہ ضرور مسلم لیگ ن کے صدر ہوجائیں۔ کیا ایسی صورت میں شیخ رشید احمد اپنی مخالفانہ سیاست کو خیر باد کہہ دیں گے، اور حکومت کے جانے کی جو گھڑیاں گنتے رہتے ہیں وہ گننا بند کردیں گے؟ مسلم لیگ ن اگر ایسی سیاست کررہی ہے جو موجودہ حالات میں بعض لوگوں کو خوش نہیں آتی تو مخالفین کے لئے اس میں اطمینان کا کوئی پہلو تو نہیں ہونا چاہئے، مسلم لیگ ن اپنا بُرابھلا خوب سمجھتی ہے، اور اگلے انتخابات میں اس کی کامیابی کے امکانات کو محدود کرنے کیلئے ہی بہت سے اقدامات کئے جارہے ہیں اگر اس کی کامیابی کی اطلاعات نہ ہوتیں تو شاید راستے کی مشکلات بھی اتنی زیادہ نہ ہوتیں یہ اسی لئے تو ہیں کہ کامیابی روشن نظر آتی ہے اس لئے جنہیں شہباز شریف کے صدر مسلم لیگ نہ بننے کا افسوس ہے ان کی پریشانی سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ مسلم لیگ ن نے نواز شریف کو صدر بنا کر 2018ء میں کامیابی کی جانب ایک بڑی جست لگائی ہے، مخالفین کو یہی پریشانی ہے