نگران آرہے ہیں…طارق بٹ
مارکیٹ میں بہت سے نام نگران وزیراعظم کے لئے گردش کر رہے ہیں۔ حسب معمول تحریک انصاف نے سب جماعتوں پر سبقت لے کر اپنے نام ظاہر کر دیئے ہیں مگر اس نے ان میں سے کسی ایک کا بھی ذکر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سے نہیں کیا جو ایک سے زیادہ بار شاہ محمود قریشی سے اس بارے میں مشورے کے لئے مل چکے ہیں۔ اسی طرح اس جماعت نے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے لئے بھی 3نام مارکیٹ میں دیئے ہیں۔ ان میں سے ایک کے ساتھ ہماری بات ہوئی جن کا کہنا تھاکہ انہوں نے اس ’’افواہ‘‘ کے بارے میں اخبار میں ہی پڑھا ہے اور اس جماعت نے یہ زحمت بھی گوارہ نہیں کی کہ ان سے مشورہ ہی کر لیتی۔ ان کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ شاید یہ عہدہ قبول نہ کریں۔ مزیدار بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کیئر ٹیکر وزیراعظم اور پنجاب کے عبوری وزیراعلیٰ کے لئے تو نام تجویز کر دیئے ہیں مگر اس نے اس صوبے یعنی خیبر پختونخوا جس میں اس کی حکومت ہے کے لئے نگران وزیراعلیٰ کا کوئی نام ابھی تک نہیں دیا۔اسی طرح کسی جماعت نے بھی ابھی تک سندھ اور بلوچستان کے لئے نگران وزرائے اعلیٰ کے لئے کوئی نام تجویز نہیں کئے۔یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ن لیگ نے نہ تو عبوری وزیراعظم کا کوئی نام ابھی تک دیا ہے اور نہ ہی پنجاب کے کیئر ٹیکر وزیراعلیٰ کے لئے۔ آئین کے تحت وزیراعظم شاہد خاقان
عباسی اور ایوان زیریں میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے نگران وزیراعظم نامزد کرنا ہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں میں موجودہ وزرائے اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈروں نے عبوری وزرائے اعلیٰ چننے ہیں۔ آئین کے مطابق ان کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے کسی قسم کا کوئی مشورہ کریں مگر پھر بھی خورشید شاہ دوسری اپوزیشن جماعتوں خصوصاً تحریک انصاف سے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ کیئر ٹیکر وزیراعظم کی نامزدگی کے بارے میں اسے بھی ’’آن بورڈ ‘‘ لیں۔ کوئی کچھ بھی کہے اور کوئی بھی طریقہ کار اپنا لیں عبوری وزیراعظم دراصل ن لیگ کی طرف سے معزول وزیراعظم نوازشریف اور پیپلزپارٹی کی طرف سے سابق صدر آصف علی زرداری نے ہی سلیکٹ کرنا ہے کیونکہ وزیراعظم عباسی اور خورشید شاہ صرف وہی بات سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے جو ان کے اصل لیڈر کہیں گے۔اگر موجودہ وزیراعظم اور وزائے اعلیٰ نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ پر متفق ہو جاتے ہیں تو یہ بڑی قابل تحسین بات ہو گی جس سے ثابت ہو گا کہ سیاستدان اس طرح کے مسائل کو خود ہی حل کر لیتے ہیں اور اپنے اختیارات کسی غیر منتخب ادارے جیسے الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں نہیں دیتے۔اگر وہ اتفاق رائے نہ کر سکیں تو ان کے تجویز کردہ نام متعلقہ پارلیمانی کمیٹیوں کو چلے جائیں گے جن میں حکومت اور اپوزیشن کی برابر کی نمائندگی ہے۔ اگر یہ کمیٹیاں بھی عبوری وزیراعظم اور ورزائے اعلیٰ چننے میں ناکام رہیں تو پھر یہ نام الیکشن کمیشن کو چلے جائیں گے اور جو بھی وہ فیصلہ کرے گا وہ حتمی ہو گا۔ الیکشن کمیشن اپنی طرف سے کسی نام کا اضافہ اس لسٹ میں کرنے کا مجاز نہیں ہے جو کہ پارلیمانی کمیٹیاں اسے بھجوائیں گی۔
جس طرح کا کشیدہ سیاسی ماحول بنا ہوا ہے اس میں مشکل نظر آرہاہے کہ کچھ کیسز میں وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف نگرانوں پر متفق ہو سکیں۔ یقیناً یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ ہر بڑی سیاسی جماعت یہی سمجھتی ہے کہ اگر وہ اپنی مرضی کا نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ لانے میں کامیاب ہو گئی تو آئندہ انتخابات میں اسے عبوری حکومت کی مدد حاصل ہو گی حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے اگر قانون اور آئین کو سامنے رکھا جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے تو نگران حکومتوں کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیںاور اس عبوری دور میں تمام اتھارٹی الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جائے گی۔ کیئر ٹیکر حکومت کا کام صرف اور صرف روز مرہ کے کام نمٹانا ہے اور وہ نہ توکوئی قومی پالیسی بنا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا فیصلہ کر سکتی ہے جس کے اثرات قومی سطح پر ہوں یہی الیکشنز ایکٹ 2017ء کہتا ہے اور عدالت عظمیٰ کا2013ء کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے جس میں نگران حکومت کے اختیارات واضح الفاظ میں بتا دیئے گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ انتخابات میں ان کی جیت یا ہار بیلٹ کی وجہ سے ہونی ہے نہ کہ نگرانوں کی مہربانیوں کی وجہ سے۔ پنجاب میں ن لیگ جس کے وزیراعلیٰ شہبازشریف ہیں اور تحریک انصاف جس کے صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید ہیں نے باہمی صلاح مشورے سے عبوری وزیراعلیٰ نامزد کرنا ہے۔ جس طرح کا ٹکرائو ان دونوں جماعتوں میں موجود ہے یہ ممکن نہیں لگتا کہ یہ کسی بھی نام پر متفق ہو سکیں۔ سندھ میں عبوری وزیراعلیٰ کی نامزدگی پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور ایم کیو ایم پاکستان کے قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے مل کر کرنی ہے۔تاہم ایم کیو ایم جس طرح کے شدید دبائو میں ہے اور جس طرح اس کے ایم پی ایز اسے چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں جارہے ہیں وہ شاید اس قابل نہیں ہے کہ وہ نگران وزیراعلیٰ چننے میں کوئی خاطر خواہ کردارادا کرسکے۔ اس واسطے سے زیادہ کردار پیپلزپارٹی کو حاصل ہوجائے گا۔ بلوچستان میں نئی جنم لینے والے بلوچستان عوامی پارٹی جس سے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کا تعلق ہے اور پختونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے مشورے سے عبوری وزیراعلیٰ کو نامزد کرناہے۔ مشکل لگ رہا ہے کہ یہ دونوں کسی نام پر متفق ہو سکیں گے کیونکہ محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ کو تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں ہیں۔خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کے صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے مل کر نگران وزیراعلیٰ سلیکٹ کرنا ہے یہاں بھی مشکل لگ رہا ہے کہ اتفاق رائے ہو سکے وجہ اس کی یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ آئین اور قانون کے مطابق نگران صرف 60دن کے لئے حکمران ہوں گے۔ ان کی میعاد کو کسی طرح بھی توسیع نہیں دی جاسکتی کیونکہ آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سب جماعتوں کو چاہئے کہ ایسے تمام ’’دانشوروں ‘‘کو اس موقع پر اپنے نزدیک نہ آنے دیں کیونکہ یہ صرف 60دن کے لئے حکمران نہیں رہنا چاہتے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ کوئی نہ کوئی آئینی ، قانونی یا عدالتی موشگافی نکال کر کیئر ٹیکر دور کو دو چار سال کے لئے توسیع دے دی جائے تاکہ وہ اپنی تمام ’’صلاحیتیں ‘‘ دکھا سکیں۔ یہی پاکستان کا المیہ ہے جس میں ایسے لوگ ہر وقت سیاستدانوں اور منتخب نمائندوں کو لعن طعن کرتے رہتے ہیں۔ ان حضرات کو ووٹ کے احترام اور تقدس اور ووٹروں کے فیصلے کا بالکل خیال نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایسے عناصر کی بار بار مذمت کرنی چاہئے اگر وہ جمہوریت کے ساتھ مخلص ہیں۔