نگران حکومت مشاورت سے تشکیل دی جائے !…کنور دلشاد
آئندہ انتخابات کی شفافیت کو برقرار رکھنے کے لئے ملک بھر کے بلدیاتی اداروں کو وقتی طور پر معطل کرنا ملک کے مفاد میں ہے کیونکہ ملک بھر میں 10,994مقامی حکومتیں، 3500سے زائد سر براہان اور مخصوص نشستوں پر ان ڈائریکٹ منتخب نمائندگان متحرک ہیں اور یہ ادارے سیاسی جماعتوں کے اثر میں ہیں لہٰذا انتخابی شیڈول جاری کرتے ہوئے ان کی معطلی کے احکامات جاری کرنا بھی شفاف انتخابات کی طرف اہم قدم ہوگا۔نگران حکومتوں کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے، ماضی میں نگران حکومتوں کی کار کردگی غیر موثر رہی لہٰذا آئین کے آرٹیکل 224میں ترمیم کر کے نگران سیٹ اپ کا تصور حذف کیا جائے،اداروں کو مزید فعال کیا جائے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں مزید اضافہ کر کے اسے نگران حکومت کے مساوی اختیارات تفویض کر دیئے جائیں۔
کاغذات نامزدگی پیش کرنے والے امید واروں کے کاغذات نامزدگی کی منظوری قومی احتساب بیورو، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف بی آر سے مشروط کر دی جائے تاکہ جو امید وار نا دہندگان ہیں یا جن کو بینکوں نے دیوالیہ قرار دیا ہوا ہے ان کو انتخابی عمل سے دور رکھا جائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک غیر جانبدار ادارہ ہے،ہماری تجویز یہ ہے کہ الیکشن کمیشن از سر نو ضابطۂ اخلاق مرتب کرتے ہوئے تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کر ے اور موجودہ ضابطہ ٔاخلاق میں جو ابہام ہے اس کے ازالے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے۔ الیکشن کمیشن نے آئندہ انتخابات کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان سے بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔ آئندہ انتخابات میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہوگا،میڈیا انتخابات میں شفافیت پر گہری نظر رکھے گا۔
31مئی کو موجودہ حکومتوں کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری ہونے پر اسمبلیاں تحلیل ہو رہی ہیں اورنگران سیٹ اپ کی تشکیل3جون تک مکمل ہو جائے گی۔نگران سیٹ اپ آئین کے آرٹیکل 224کے تحت ملک میں غیر جانبدارانہ ، شفاف اور منصفانہ الیکشن کرانے کاپابند ہوگا۔ موجودہ سیاسی تناظر میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا امتحان ہے کہ وہ جمہوری سیاست کو آگے بڑھانے اور جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لئے کیا اقدامات کرتے ہیں۔ نگران سیٹ اپ کا معاملہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکل کر الیکشن کمیشن کے پاس جانا سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے مترادف ہوگا۔
نگران سیٹ اپ کا تجربہ پاکستان میں 1990ء کے انتخابات کے دوران شروع ہوا اور اسی طرح اب تک ہر الیکشن کے وقت نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جاتا ہے لیکن نگران سیٹ اپ ملک میں شفاف انتخابات کروانے میں کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکا۔ 1990ء میں نگران حکومت کی نگرانی میں بعض سیاسی جماعتوں کو ایک ادارے کے توسط سے مالی فوائد پہنچائے گئے۔1993ء کے انتخابات میں معین قریشی کو امریکہ سے درآمد کر کے نگران وزیر اعظم بنایا گیا۔ انہوں نے شفاف انتخابات کی روایت نہیں ڈالی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے الیکشن پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور نگران وزیر اعظم بیورو کریسی، سرمایہ داروں اور مخصوص طبقے کو نوازتے رہے۔اسی طرح 1996ء میں نگران حکومت کے وزیر اعظم ملک معراج خالد نے نادہندگان کے لئے راہ ہموار کر کے اس سیاسی مراعات یافتہ طبقے کو آج تک پاکستان پر مسلط کر دیا ، بیورو کریسی میں چند افسروں کو نوازنے کے لئے ایڈمنسٹریشن اصلاحات کے ذریعے بیورو کریسی کے ڈھانچے کو پک اینڈ چوائس کی پالیسی پر گامزن کروا دیا اور شفاف انتخابات کے لئے کوئی فارمولا طے نہیں کرایا ۔اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کے لئے منفی طریقے اختیار کئے گئے۔
اسی طرح2008ء کے انتخابات میں نگران حکومت کی کار کردگی مایوس کن تھی،اور ملک میں جب بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال سنگین ہوئی تو خاطر خواہ انتظامات نہیں کروائے گئے۔اسی روایت کو 2013ء کے انتخابات میں بھی جاری رکھا گیا جب مفلوج اور معذور وزیر اعظم اعلیٰ سطح کی بیورو کریسی میں بڑے تقرر و تبادلے کی آڑ میں Omission and commission کی ڈگر پر چلتے رہے، اور ملک کے انتخابات کو متنازعہ بنوا کر گھر چلے گئے۔اب 2018ء کے انتخابات میں نگران سیٹ اپ متحدہ اپوزیشن،وزیر اعظم،پارلیمانی کمیٹی،اور بعد ازاں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہی مقرر کرنا ہے۔
آئندہ کے لئے ہماری تجویز یہ ہے کہ نگران سیٹ اپ کا تصور آئین کے آرٹیکل 224سے حذف کر کے پاکستان کے حقیقی آئین 1973ء کی روح کے مطابق حقیقی جمہوری حکومت کے ذریعے ہی انتخابات کروانے کا عزم کیا جائے۔ بنگلہ دیش میں 2008ء میں نگران حکومت کے ذریعے انتخابات کرانے کا ناکام تجربہ ہوا جس کے بعد اس کی شق آئین سے خارج کر دی گئی اور اب دنیا کے کسی ملک میں نگران سیٹ کا تصور نہیں پایا جاتا۔
پاکستان میں نگران وزیر اعظم کو شفاف الیکشن کے لئے مضبوط اور فعال اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔الیکشن شیڈول جاری ہوتے ہی ملک کے بلدیاتی اداروں کو نئی حکومت کی تشکیل تک معطل کر دیا جائے تو بہتر ہے تاکہ ان اداروں کو الیکشن میں مداخلت سے دور رکھا جائے۔
پنجاب،سندھ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی بیورو کریسی اپنی اپنی حکومتوں کے قریب تصور کی جاتی ہے۔ اس کو بھی 60دنوں کے لئے اپنے عہدوں سے سبکدوش کر کے گھر بھیجا جائے اور حکومتوں کی تشکیل کے بعد دوبارہ بحال کر دیا جائے۔
نگران وزیر اعظم کے تقرر کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت کی جانی چاہئے کیونکہ خدشہ ہے کہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور سیاسی کشیدگی سے الیکشن کا وقت پر انعقاد مشکوک ہو جائے گا۔مضبوط اور فعال وزیر اعظم کا تقرر ملک کے مفاد میں ہے۔ نگران حکومت شفاف انتخابات کروانے میں ناکام ہو گئی تو سیاسی نظام کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
نواز شریف کے ”ووٹ کو عزت دو ‘‘کے بیانیہ کے پس منظر میں نواز شریف آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کو حذف کرا کر اپنی نا اہلی سے استثنیٰ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو سیکولر بنانے کے بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ بن چکے ہیں۔” ووٹ کو عزت دو ‘‘ بظاہر تو ایک خوش نما انتخابی نعرہ ہے لیکن میرے خیال میں اس کی آڑ میں پاکستان کو کنفیڈریشن بنانے کی گہری سازش ہے۔ نواز شریف ایسی مہم میں مفاہمت کا اشارہ دے رہے ہیں۔میری اطلاع کے مطابق نواز شریف کو ” ووٹ کو عزت دو‘‘ کا سلوگن امریکی اور بھارتی تھنک ٹینک کی طرف سے پاکستان کی ایک بین الاقوامی این جی او کی وساطت سے ملا ہے جسے وہ عوام میں مقبول کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوام کو احساس ہے کہ آئین کی عزت میں ہی ووٹ اور عدلیہ کی عزت پوشیدہ ہے اور اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عزت دینے سے ہی شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہوگی۔
2013کے انتخابات میں پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ کی بے توقیری دیکھنے میں آئی تھی جب لاکھوں بیلٹ پیپرز لاہور کی سڑکوں پر بکھرے نظر آرہے تھے اور 1990ء کے الیکشن میں ووٹوں کی خریدو فروخت کے لئے ایک ادارے سے ساز باز کی گئی تھی۔سپریم کورٹ کو ایئر مارشل اصغر خان کیس کو اوپن کرنا چاہئے تاکہ نواز شریف کا ” ووٹ کو عزت دو ‘‘کا بیانیہ بے نقاب ہو جائے۔ملک میں انارکی اور انتشار کا اشارہ سابق وزیراعظم نے دے دیا ہے ۔اس اشارہ کے بعد گمان یہی ہے کہ ان کی گرفتاری کے رد عمل میں ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو جائے گی ۔لیکن ایسا کرنیوالوں کو احساس ہونا چاہئے کہ اس سے ملک انتشار کاشکار ہو جائے گا ۔اسلام آباد میں ووٹ کو عزت دو کے محرکات کا مقصد ادارے پر دباؤ ڈالنے کی سازش تھی کیونکہ عدلیہ کی تذلیل ووٹ کی عزت نہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ نگران حکومتیں آئین کے آرٹیکل 184(3)کو مد نظر رکھ کر بنائی جائیں کیونکہ سیاسی جماعتوں نے جو نام میڈیا میں ظاہر کئے ہیں ، حکومت اور متحدہ اپوزیشن ان پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں، لہٰذا نگران سیٹ اپ میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف دی آرمی سٹاف سے مشاورت کرنا ملکی مفاد میں ہے۔اپوزیشن جماعتوں کو اپنی صف بندی 1977ء کی طرز پر کرنا ہوگی۔