نگران وزیراعظم کی گیدڑ سنگھی…..خالد مسعود خان
ایمانداری کی بات ہے‘ مجھے اب تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ آخر نگران وزیراعظم کا نام اتنا صیغہ راز میں رکھنے کی کیا وجہ ہے؟ کیا نگران وزیراعظم کا نام کوئی ایٹمی راز ہے؟ کیا یہ کسی نہایت ہی پردہ دار قسم کی گھریلو خاتون کی فیملی فنکشن کی تصویر ہے‘ جس کی عوام الناس میں تشہیر نہیں کی جانی چاہئے یا یہ خود کش جیکٹ کو تیار کرنے کا طریقہ ہے جسے پبلک میں عام کرنے کی ممانعت ہے؟ آخر یہ ایسا کون سا خفیہ معاملہ ہے جسے وزیراعظم اور فرینڈلی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بینک کے لاکر میں رکھے بیٹھے ہیں؟
شاہ جی کا خیال ہے کہ فریقین کی جانب سے ابھی تک سارا معاملہ صرف عوام کو گمراہ کرنے اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والا نظر آتا ہے۔ فی الحال کئی نام منصہ شہود پر آ چکے ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین، رزاق دائود، اشتیاق احمد، جسٹس (ر) تصدیق جیلانی، سلیم عباس جیلانی، اشرف ذکاء اور جلیل عباس جیلانی یا لوگ اس میں ملیحہ لودھی کا نام بھی لیتے ہیں لیکن شاہ جی کا خیال ہے کہ یہ سب نام بھی ہم لوگوں کو قیاس آرائیوں میں مبتلا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جبکہ اصل نگران وزیراعظم کا نام بالکل ہی خفیہ ہے اور درج بالا افراد میں سے کوئی بھی حقیقی طور پر نگران وزیراعظم کے لئے فریقین یعنی شاہد خاقان عباسی اور سید خورشید احمد شاہ کے زیر غور نہیں ہے۔ یہ سارے نام آپ لوگوں کو مصروف رکھنے اور اصل نگران وزیراعظم کو محفوظ رکھنے کے کام آ رہے ہیں۔ یعنی یہ سب نام ”سموگ سکرین‘‘ ہیں جس کی آڑ میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف ساری قوم کو تجسس میں مبتلا کر کے الو بنا رہے ہیں۔
بالفرض اگر شاہ جی کی بات درست ہے تو اس سلسلے میں کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں لیکن ان فاسد خیالات پر بعد میں بات ہو گی فی الحال تو صورتحال یہ ہے کہ اگر یہ فہرست درست ہے تو پھر جنوبی پنجاب کی بلکہ ایک ہی خاندان کی لاٹری نکلنے کے امکانات نہایت ہی روشن ہیں۔ یہ خاندان ”جیلانی خاندان‘‘ ہے۔
اس وقت جیلانی خانوادے کے تین افراد متوقع نگران وزیراعظم کی ممکنہ فہرست میں شامل ہیں۔ سلیم عباس جیلانی، تصدق جیلانی اور جلیل عباس جیلانی۔ بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ ان تینوں جیلانی صاحبان میں کیا رشتہ داری ہے۔ سلیم عباس جیلانی سابقہ فیڈرل سیکرٹری ہیں اور بڑے تگڑے فیڈرل سیکرٹری تھے۔ یہ رمضان جیلانی مرحوم کے صاحبزادے ہیں اور ان کی پہلی بیگم ‘جو نوابزادہ نصر اللہ خان کی ہمشیرہ تھیں‘ کے بطن سے ہیں۔ رمضان جیلانی نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے بہنوئی تھے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی رمضان جیلانی کی دوسری اہلیہ کے بطن سے ہیں۔ یعنی سلیم عباس جیلانی اور تصدق حسین جیلانی بھائی ہیں۔ شاندار سفارتی کیریئر کے مالک، جلیل عباس جیلانی‘ جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں‘ پیشہ ور سفارت کار تھے اور رشتے میں سلیم عباس جیلانی اور تصدق حسین جیلانی کے بھانجے ہیں۔ یہ تو ان کی آپس میں رشتہ داری ہوئی۔ یہ تینوں حضرات سید یوسف رضا گیلانی کے بھی سسرالی رشتہ دار ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ بھی سلیم عباس جیلانی اور تصدق حسین جیلانی کی بھانجی ہیں۔ آسان لفظوں میں سید یوسف رضا گیلانی کی ساس، سلیم عباس جیلانی، تصدق حسین جیلانی اور جلیل عباس جیلانی کی والدہ یہ چاروں آپس میں بہن بھائی ہیں۔جلیل عباس جیلانی رشتے میں سید یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ کے سگے خالہ زاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے جیلانی صاحبان کے نام نگران وزیراعظم کے لئے دیئے ہیں۔
ملتان میں رہنے کے باوجود میں سلیم عباس جیلانی سے کبھی نہیں ملا۔ ان کا بھتیجا ظلِ حسنین جیلانی میرا بہت عزیز دوست ہے بلکہ ظلِ حسنین کے والد صلاح الدین جیلانی صاحب سے بھی محبت کا ایسا رشتہ ہے کہ بعض اوقات میں ظلِ حسنین کو کہتا ہوں کہ وہ میرے دوست صلاح الدین جیلانی صاحب کا بیٹا ہے۔ سابق سیکرٹری قومی اسمبلی شاہد جیلانی بھی ہمارے دوست ہیں۔ تصدق جیلانی سے عشروں پہلے چند ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کے محرک مرحوم اسد اللہ شیخ تھے۔ تب تصدق جیلانی ملتان میں پریکٹس کیا کرتے تھے۔ ہم اس وقت طالبعلم تھے اور ملتان کے کالجوں کے مقرر طلبہ نے ایک تنظیم ”ینگ سپیکرز یونین‘‘ بنا رکھی تھی۔ مرحوم اسد اللہ شیخ اس کے سرپرست اور تصدق جیلانی اس تنظیم کے اعزازی لیگل ایڈوائزر تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ہم لوگ طالبعلم نہ رہے، اسد اللہ شیخ دنیا میںنہ رہے اور تصدق جیلانی ملتان میں نہ رہے۔ سو ملاقاتوں کا سلسلہ جو ٹھیک طرح سے شروع بھی نہ ہوا تھا ختم ہو کر رہ گیا۔
البتہ جلیل عباس جیلانی سے محبت کا رشتہ ابھی تک قائم ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جلیل عباس جیلانی کا چھوٹا بھائی خاور جیلانی میرا دوست ہے۔ جلیل عباس جیلانی اس حوالے سے میرے دوست نہیں بلکہ دوست کے بڑے بھائی ہونے کے حوالے سے بڑے بھائیوں جیسے ہیں اور نہایت ہی قاعدے ، ضابطے اور میرٹ کی پاسداری کرنے والے شخص ہیں۔ عام طور پر میرا یہ تجربہ ہے کہ ہمارے ہاں ایماندار آدمی کام کرنے کے معاملے میں خاصا تنگ ہاتھ رکھتا ہے۔ یعنی اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ کہیں غلط کام نہ ہو جائے لہٰذا کام کیا ہی نہ جائے تا کہ غلطی کا احتمال ہی نہ رہے۔ بہت کم ایماندار افسروں کو دیکھا ہے کہ وہ کام کے معاملے میں بڑے کھلے دل کے ہوتے ہیں۔ جلیل عباس جیلانی ایسے ہی بیورو کریٹ تھے۔ تین بار تو مجھے ان سے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ملنے کا اتفاق ہوا ۔دورانِ ملاقات کام بھی چلتے رہے اور ایسا کبھی نہ دیکھا کہ کسی فائل کو سرخ فیتے کی سپرد کیا ہو۔ صرف ملاقات کے دوران بھی کام اور پیشہ ورانہ کارکردگی کا اندازہ لگانا مشکل ہے‘ لیکن امریکہ میں مقیم دوستوں نے بھی ان کی اور ان کے دور میں پاکستانی سفارتخانے کی بڑے اچھے لفظوں میںتعریف کی ۔ ملتان میں رہتے ہوئے تصدق جیلانی اور سلیم عباس جیلانی بارے بھی کوئی منفی بات سننے میں نہ ملی تاہم ایک جیلانی کے بارے میں یہ ضرور سنا کہ وہ جاننے والوں کا کام میرٹ پر بھی نہیں کرتے اور ”فائل‘‘ کسی دوسرے کو بھجوا دیتے ہیں۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ بات نگران وزیراعظم کی ہو رہی تھی‘ جس کا نام یہ فائنل ہونے میں نہیں آ رہا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اب آئین میں ایک اور ترمیم کی جائے اور چند آئینی پوسٹوں پر تقرری کا طریقہ کار تبدیل ہونا چاہئے۔ چیئر مین نیب، چیئر مین الیکشن کمیشن، نگران وزیراعظم نئے جج کی تعیناتی۔ ان کے نام بالکل اسی طرح پارلیمنٹ میں آ کر زیر بحث ہونے چاہئیں جس طرح امریکہ میں نئے جج کا نام کانگرس میں آتا ہے اور کانگرس اس شخص کا ماضی کھنگالتی ہے۔ اس کا کردار اور کنڈکٹ زیر بحث آتا ہے۔ ایک آدھ بار تو ایسا ہوا کہ دوران بحث متوقع جج اپنے کردار کے پرخچے اڑتا دیکھ کر متوقع ”ججی‘‘ سے دستبردار ہو گیا۔ یہ معاملہ صرف دو افراد یعنی وزیراعظم بطور قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف پر نہ چھوڑا جائے۔ پاکستان کے پورے نظام کو محض دو افراد کے مک مکا پر نہ چھوڑا جائے بلکہ اس پر پارلیمنٹ میں بات ہونی چاہئے آخر پارلیمنٹ سپریم ہے، طاقتور ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب افراد پر مشتمل ہے اور ووٹ کو عزت دینے کا طریقہ بھی یہ ہے اہم معاملات کو ووٹوں سے منتخب افراد کے حوالے کیا جائے نہ کہ گیدڑ سنگھی بنا کر جوگی کے تھیلے میں چھپا لیا جائے۔