نگران وزیر اعظم کی ذمہ داریاں….کنور دلشاد
نگران حکومت کا تصور آٹھویں ترمیم میں جنرل ضیا ء الحق نے شامل کرایا تھا‘ لیکن انہوں نے 29مئی 1988ء کو وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد وفاق میں نگران وزیر اعظم اور کابینہ کی تشکیل نہیں کی تھی‘ لیکن صوبہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی صدر نواز شریف کو ہی نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا۔ اسی طرح صوبہ سندھ میں غوث علی شاہ کو بھی وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا‘ جو کہ پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی صدر بھی تھے۔ جنرل ضیا ء الحق نے نگران حکومت کی روح کے مطابق عمل در آمد نہیں کیا‘ جس کے با معنی یہی ہوتے ہیں کہ نگران حکومت غیر جانبدار افراد پر مقرر کی جائے۔
جنرل ضیا ء الحق نے نگران سیٹ اَپ کے ساتھ مذاق ہی کیا۔ علاوہ ازیں جنرل ضیاء الحق کے حادثہ کے بعد غلام اسحاق خاں قائم مقام صدر مقرر ہوئے اور انہوں نے بھی نگران وزیر اعظم مقرر نہیں کیا‘ جبکہ صوبوں میں جنرل ضیا ء الحق کے ہی کارندے نگران حکومت کے نام پر حکومت کرتے رہے۔بادی النظر میں دیکھا جائے‘ تو اکتوبر 1988ء کے انتخابات آٹھویں ترمیم سے انحراف کرتے ہوئے کرائے گئے تھے۔ اس پس منظر میں 6اگست 1990ء کو جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بر طرف کر کے اسمبلیوں کو تحلیل کیا گیا‘ تو اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا گیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے منحرف جام صادق کو نگران وزیر اعلیٰ سندھ مقرر کیا گیا۔
1980ء کی نگران حکومت پر الزام ہے کہ انہوں نے خفیہ رقوم بھی وصول کیں اور نگران حکومت کے تصور کو مجروح کرتے ہوئے جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد کرایا ‘جس کا مقصد نواز شریف کو وزیر اعظم مقرر کرنا تھا۔ 18جولائی1993ء کو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو بر طرف کرتے ہوئے اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیا اور پہلی مرتبہ غیر جانبدار نگران وزیر معین قریشی کو امریکہ سے در آمد کرایا گیا اور انہوں نے اپنی نگرانی میں افواج پاکستان کی معاونت سے انتخابات کرائے اور بے نظیر بھٹو‘ اکتوبر 1993ء میں وزیر اعظم منتخب ہو گئیں۔ اس طرح 6نومبر1996ء کو صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر کے اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی رکن معراج خالد کو نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا‘ جو بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی اسمبلی میں بھی سپیکر تھے۔ ملک معراج خالد نے غیر جانبدارانہ طور پر کیبنٹ کی تشکیل دی اور انتخابات ان کی نگرانی میں کروائے گئے۔ ان کی کابینہ میں جسٹس فخر الدین جی ابراہیم‘نجم سیٹھی ‘ارشاد حقانی‘ شاہد حامد اور دیگر ارکان تھے‘ لیکن ان کی کابینہ انتہائی قابل‘تجربہ کار اور ملکی و بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھے ہوئے تھی۔ اور ان انتخابات کی روشنی میں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اسی طرح 8فروری 2008ء کے انتخابات میں میاں محمد سرور جو چیئرمین سینٹ بھی تھے‘ ان کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا گیا اور انہوں نے پہلی مرتبہ ٹیکنو کریٹس کے حامل افراد کی کابینہ مقرر کی اور ان انتخابات کے نتیجہ میں یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم مقرر ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار سپرد کر دیا گیا اور نگران حکومت نے غیر جانبدارانہ انتخابات کروائے اور پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ انتخابات کو غیر جانبدارانہ قرار دیا گیا اور کسی بھی سیاسی جماعت نے تنقید نہیں کی اور بین الاقوامی مبصرین اور یورپی یونین کی ٹیم نے ورلڈ ڈیمو کریسی کا خطاب دیا۔
اسی طرح 15مارچ 2013ء کو نگران سیٹ اپ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد معرض وجود میں آئی‘ جس میں 90سالہ بزرگ میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ان کی کابینہ انتہائی کمزور اور اوسط درجے کے افراد پر مشتمل تھی۔سوائے چند وزراء کے جو بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے، ان کی نگرانی میں جو انتخابات ہوئے‘ وہ 11مئی 2013ء میں متنازعہ قرار پائے اور عمران خان نے ان انتخابات کو جعلی اور فراڈ قرار دیتے ہوئے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں احتجاجی تحریک شروع کی‘ جس میں اسلام آباد کو لاک اَپ بھی کرنا تھا ‘جس کے نتیجہ میں الیکشن میں منظم دھاندلی کے بارے میں حقیقت جاننے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آف پاکستان ناصر الملک کی سر براہی میں انکوائری کمیشن کی تشکیل ہوئی اور محترم چیف جسٹس نے حقائق کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے منظم دھاندلی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے بے قاعدگیاں‘بے ضابطگیاں قرار دیتے ہوئے 42نکات پر مشتمل چارج شیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دی ‘جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ نگران حکومت شفاف انتخابات کروانے میں ناکام رہی‘لہٰذا عمران خان اور ملک کی 22دیگر سیاسی جماعتوں اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اس الیکشن کو آر اوز زدہ قرار دیا اور وہ اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔
موجودہ نگران وزیر اعظم سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس محترم ناصر الملک کی سر براہی میں تکمیل پائی ہے‘ جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں بنی ہے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر اتفاق رائے کیاہے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کمزور جمہوریت ہے‘ وہاں ایسے فیصلوں سے جمہوری سسٹم کو تقویت ملے گی۔ نگران وزیر اعظم کے تقرر کے بعد اب 25جولائی 2018ء کو انتخابات کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات دور ہو گئے ہیں۔ سابق چیف جسٹس ناصر الملک ایک غیر متنازع اور اعلیٰ کردار کے حامل ہیں اب امید کی جارہی ہے کہ نگران حکومت کے دور میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا عمل پایا تکمیل تک پہنچے گا‘ جسٹس ناصر الملک پاکستان کے ساتویں نگران وزیر اعظم ہیں اور شفاف انتخابات کی بڑی اہم ذمہ داری‘ ان کے حوالے قوم نے بطورِ امانت پیش کی ہے۔
پاکستان کا چونکہ سیاسی نظام‘بیورو کریسی اورمفاد پرستانہ بنیادوں پر کھڑا ہے۔اس لئے کوشش کی گئی کہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے بعد یا معزولی ہونے کی صورت میں انتخابات کروانے کی اہل نہیں ہوتی۔7مارچ 1977ء کے وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت نے جو انتخابات کروائے‘ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں خونی احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی اور 5جولائی1977ء کو ملک میں مارشل لاء نافذکر دیا گیا۔ اور ذو الفقار علی بھٹو الیکشن میں دھاندلی کے مرتکب قرار پائے تھے‘اور وہ اقتدار سے بھی اور جان سے بھی گئے۔ اس کے بعد ملک میں آٹھویں ترمیم میں نگران حکومت کا تقرر سامنے آیا۔ دنیا کے کسی ملک میں نگران حکومت کا تصور نہیں ہے۔ دسمبر 2008ء میں بنگلہ دیش میں نگران حکومت نے انتخابات کروائے تھے‘ بعد ازاں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے نگران حکومت کے تصور کو ختم کر دیاتھا۔ ناصر الملک کے تقرر پر ملک بھر کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خیر مقدم کیاہے۔ میں ان کو ذاتی طور پر 2000ء سے جانتا ہوں ‘جب جسٹس ناصر الملک پشاور ہائی کورٹ کے جج تھے اور ان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ممبر بنانے کے بارے میں غو ر و خوض کیا گیا تھا‘ لیکن انہوں نے یہی اشارہ دیاتھا کہ وہ ممبر بننے کے خواہش مند نہیں ۔وہ اعلیٰ پائے کی شخصیت ہیں اور ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ بیورو کریسی کے نظام کو دیکھتے ہوئے سابق چیف جسٹس نا صر الملک کی طرف ہی قوم کی نگاہ لگی ہوئی ہے۔ نواز حکومت اور شہباز حکومت نے بیورو کریسی کو کرپٹ کر دیا ہے۔ قوم کو پاکستان کی بیورو کریسی پر اعتماد نہیں رہا اور قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی کار کردگی قابل مثال ہے اور اگر انہوں نے بیورو کریسی کو لگام دی‘ تو آئندہ کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔
نگران حکومت شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کروانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 218کے تحت پابند بھی ہے اور مجاز بھی ہے۔نگران وزیر اعظم کی نگرانی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں‘اگر ان مثبت تبدیلیوں کے با و جود الیکشن 2018ء متنازعہ پائے‘ تو پاکستان کی وحدت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور سی پیک کے تمام معاہدات اسی احتجاج کی نظر ہو جائیں گے اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے گا۔