نیا پاکستان یہ لوٹے بنائیں گے….ایاز امیر
کیا سنہری پاکستان ہو گا جو یہ مختلف سمتوں سے آئے بھگوڑے تعمیر کریں گے۔ لوٹے تو نون لیگ میں بھی بھرے ہوئے تھے، وہ جو قاف لیگ کی چھتری سے نون لیگ کی چھتری تلے آ گئے۔ کئی ایک نے تو پھر ایسی کارگزاریاں دکھائیں کہ اصلی نون لیگیوں کو پیچھے چھوڑ گئے اور نون لیگ کے لاؤڈ سپیکروں پہ مستقلاً قبضہ کر لیا۔ دانیال عزیز، طلال چوہدری اور اِن جیسے چند دوسرے ایسے ہی شاہسوار تھے۔
جماعتِ تبدیلی و انقلاب، یعنی پی ٹی آئی، نے لوٹوں کے اکٹھ میں نون لیگ کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایسے لوٹے اس الیکشن میں جھونک دئیے کہ تبدیلی کے منتظر عوام حیران و ششدر رہ گئے۔ اِس مخلوق سے اب توقع ہے کہ نئے پاکستان کی بنیادیں رکھے گی اور پاکستان کو اتنا آگے لے جائے گی کہ ملائیشیا اور جنوبی کوریا تَکتے رہ جائیں گے۔ عمران خان اپنی بیس سالہ جدوجہد پہ بڑا ناز کرتے ہیں۔ بیس سال کے بعد یہی کچھ کمانا تھا؟ فلسفہ شاید یہ ہے کہ بھگوڑوں اور لوٹوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا‘ میں ہوں ناں، یعنی خانِ اعظم ہیں ناں۔ وہ سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ بس اقتدار میں آنے کی دیر ہے اور پھر زمانۂ معجزات شروع ہو جائے گا، ایک کے بعد دوسرا۔ لوٹے بھی وہیں موجود ہوں گے اور معجزات بھی رُونما ہونا شرو ع ہو جائیں گے۔ اسد عمر بطور وزیر خزانہ آئیں گے تو پاکستان کی تمام مالی مشکلات بتدریج دُور ہوتی جائیں گی۔ ٹکٹوں کا مسئلہ صحیح حل ہوا نہیں لیکن مستقبل کی تمام اُلجھنیں خوش اُسلوبی سے سلجھا دی جائیںگی۔ میں ہوں ناں۔
لوٹوں کا کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا۔ وہ صرف ہمارے خمیر کا حصہ نہیں بلکہ ہماری تاریخ سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ جب پاکستان بنا تو پرانے انگریزوں کے پروردہ مسلم لیگی بن گئے۔ 1936ء کے صوبائی انتخابات میں جو یونینسٹ پارٹی کے امیدوار تھے اُن میں سے بیشتر 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کے امیدوار ہو گئے۔ انقلابی نظریات مسلم لیگ کے کبھی نہ تھے‘ اور ہو بھی کیسے سکتے تھے جب پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے جاگیردار مسلم لیگ کے قائدین میں شامل تھے۔ عنانِ اقتدار سنبھالے ہوئے جاگیردار تھے یا طاقتور بیوروکریٹ۔ پاکستان کی پہلی کابینہ‘ جس کے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے‘ میں کلیدی عہدے غیر سیاسی لوگوں کے پاس تھے مثلاً غلام محمد، چوہدری محمد علی اور بہت ہی اہم عہدہ رکھنے والے اسکندر مرزا۔ جب 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی توڑی اور خواجہ ناظم الدین کی منسٹری کو برخاست کیا تو نئے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کے وہ لوگ وزیر بنے جو ایک دن پہلے تک خواجہ ناظم الدین کے وزیر تھے۔ اس لحاظ سے مبنی بَر لوٹا سیاست ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔
غلام محمد کے بعد اسکندر مرزا صدر بن گئے اور جب اُنہوں نے ری پبلکن پارٹی کی دَاغ بیل ڈالی تو کئی پرانے مسلم لیگی راتوں رات ری پبلکن بن گئے۔ جب 1958ء کا مارشل لاء آیا اور پھر دو سال بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تو بہت سارے پرانے پَاپی کنونشن لیگی ہو گئے۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی شخص تھا جس نے نئی سیاست کی شروعات کی۔ 1967ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل ہوئی تو سندھ کے علاوہ‘ جہاں سے کچھ پرانے چہرے تھے‘ پنجاب میں اکثریت نئے چہروں کی تھی۔ لاہور سے ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید، ملک معراج خالد اور اِن جیسے بیسیوں اوروں کا اس سے پہلے کس نے نام سُنا تھا۔ راولپنڈی سے خورشید حسن میر کا چہرہ بالکل نیا تھا۔ ایک لمبی کھیپ تھی راولپنڈی اور آس پاس کے اضلاع سے‘ یہ سارے سیاست میں بالکل نو وارَد تھے۔ اگر میں غلط نہیں کہہ رہا تو شاید اُس کھیپ میں صرف میرے والد صاحب ہی تھے جو پہلے کسی اسمبلی میں رہ چکے تھے۔ باقی سب نئے لوگ تھے۔ یہی حال وسطی پنجاب کا تھا۔ بھٹو صاحب نے بڑی کوشش کی کہ پنجاب کے جاگیردار بھی اُن کے ساتھ شامل ہوں۔ ملتان سے حامد رضا گیلانی کو منانے کی کوشش کی لیکن دوستی کے باوجود وہ نہ مانے۔ بس غلام مصطفی کھر ہی تھے جو شروع دن سے اُن کے ہم رکاب رہے۔ 1970ء کے انتخابات میں پنجاب سے بھاری اکثریت سے وہ امیدوارانِ اسمبلی تھے جن کا تعلق مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس سے تھا۔ لاہور، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ ، وزیر آباد، جہلم ، چکوال اور راولپنڈی سے کوئی ایک بھی جاگیردار اس فہرست میں شامل نہ تھا۔
لیکن کیا منظر آنکھوں کے سامنے آیا‘ جب 7 دسمبر 1970ء کی شام کو الیکشن کے نتائج پاکستان ٹیلی ویژن پہ سُنائے جا رہے تھے۔ ایسے بڑے بڑے بُرج اُلٹے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ لاہور اور راولپنڈی کی ساری سیٹیں پیپلز پارٹی نے ماریں۔ واہ سے کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پہ سردار شوکت حیات کامیاب ہوئے کیونکہ اُن کے خلاف پیپلز پارٹی کا کوئی اُمیدوار نہ تھا۔ یہی حال تلہ گنگ اور اٹک کی سیٹ پہ ہوا جہاں پیر مکھڈ کامیاب ہوئے اور اُن کے خلاف بھی پی پی پی کا کوئی اُمیدوار نہ تھا۔ یہی صورتحال گجرات میں تھی جہاںچوہدری ظہور الٰہی کے مدِ مقابل پی پی پی نے کوئی اُمیدوار کھڑا نہ کیا تھا۔ وہاڑی سے میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کا الیکشن ساری رات ڈانوں ڈول رہا اور پھر صبح جا کے نتیجہ نکلا اور وہ دس ہزار ووٹوں سے تاج محمد لنگاہ سے جیت سکے۔ لنگاہ غیر معروف آدمی تھے اور میاں ممتاز دولتانہ کا بہت بڑا نام تھا‘ لیکن 1970ء کا الیکشن ہی ایسا تھا کہ پنجاب بھر میں بڑی توپوں کو عبرتناک شکست ہوئی۔ مولانا کوثر نیازی جیل میں تھے لیکن نارووال سے انتخابات میں کھڑے ہوئے تھے اور بھاری اکثریت سے جیل بیٹھے الیکشن جیت گئے۔
1974ء تک بھٹو صاحب اپنی انقلابیت سے تنگ آ چکے تھے۔ اُنہوں نے بھی وہ کیا جو عمران خان نے اِس موسم میں کیا ، یعنی لوٹوں کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ 1974-75ء میں وہ جاگیردار جو 1970ء میں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں شکست کھا چکے تھے پیپلز پارٹی کی طرف آنے لگے اور بھٹو صاحب نے اُن کے لئے دروازے کھول دئیے۔ آئے روز اخبارات میں خبر آتی کہ فلاں خان صاحب، سردار صاحب یا مخدوم صاحب اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میںشامل ہو گئے ہیں‘ اور جب 1977ء کے الیکشن قریب آئے تو بھٹو صاحب نے ٹکٹوں کی تقسیم سیاسی لوگوں کی بجائے اپنے معتمدِ خاص بیوروکریٹوں کے ذمہ کر دی اور اُنہوں نے وہی کیا جو اُن کی سمجھ میں آیا ۔ بہت سی جگہوں پہ پرانے ورکر نظر انداز ہوئے اور بڑے نام جو لوٹے بن کے پی پی پی میں داخل ہوئے تھے‘ اُن کو ٹکٹوں سے نوازا گیا۔
جب دھاندلی کے الزام پر دائیں بازو کی جماعتوں نے تحریک شروع کی اور بھٹو صاحب مشکل میں پڑ گئے تو پی پی پی میں آئے لوٹے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھے بیٹھے رہے ۔ پی پی پی کا ورکر پہلے ہی بد دل ہو چکا تھا‘ اس لئے اُس نے بھی گھر بیٹھنے میں عافیت سمجھی ۔ جب مارشل لا کی شب آئی تو بھٹو صاحب مکمل اکیلے ہو چکے تھے ۔ لوٹے اُن کے کسی کام نہ آ سکتے تھے۔
پی پی پی کے ورکرز نے اپنے جذبات اقتدار سے معزولی کے بعد دکھائے اور جب گرفتاری کے بعد بھٹو صاحب رِہا ہو کے لاہور آئے تو یوں لگا کہ پورا لاہور اُن کے استقبال کیلئے اُمڈ آیا ہے۔ تب جرنیل ڈر گئے اور تبھی عسکری ذہنوں میں یہ فیصلہ ہوا کہ آزاد بھٹو اُن کے وارے میں نہیں۔ بہرحال یہ حقیقت تو رہے گی کہ 1967ء سے 1970ء تک کے تین سالوں میں بھٹو صاحب ایک نئی جماعت بنانے میں کامیاب ہوئے‘ گو کچھ سال بعد اپنے ہی کیے پہ پانی پھیر دیا ۔ اِس کے برعکس دیکھا جائے تو بیس سال میں عمران خان صرف ایک سیلفی لینے والا ہجوم بنا سکے ۔ عمران خان کی کامیابی ہے کہ نون لیگ کے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے قلعے کی دیواریں ہلا دیں ۔ یہ اُن کا کارنامہ رہے گا۔ لیکن آگے کیا ہونا ہے اور مستقبل کا نقشہ کیسے تیار ہو گا اِس پہ بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ عمران خان کے گرد لوٹوں کا ہجوم دیکھیں تو دل میں پڑے سارے ارمان بکھرے جاتے ہیں ۔ اگر تبدیلی اِسی ہجوم نے لانی ہے تو بہتر ہے کہ مناسب نیند کی گولیوں کی تلاش اَبھی سے شروع کر دی جائے۔