سید حمزہ سلیم جیلانی
پاکستان عرصہ دراز سے دہشت گردی کے عفریت سے نبردآزما ہونے کی کوشش کر رہا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی مالی اور عسکری قوت پہلے سے زیادہ بڑھتی چلی گئی اور ایک وقت یہ آگیا کہ گلیا ں ، چوراہے، سکول حتٰی کے عبادت گاہوں کو بھی غیر محفوظ تصور کیا جانے لگا۔ اس صورتحال نے وطن عزیز کے وقار کو بے حد نقصان پہنچایا اور عالمی سطح پر پاکستان کو دہشت گردوں کی آماج گاہ تصور کیا جانے لگا ساتھ ہی ساتھ دہشت گردوں کے زہریلے وار پاکستان کی معشیت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچانے لگے اور غیر ملکی سرمایہ کاری تو دور کی بات پاکستان کے اپنے سرمایہ کار ہی ملک سے باہر پیسہ لے کر جانے لگے ۔
ایسی بگڑتی ہوئی صورتحال میں عسکری اور سیاسی قیادت نے پاکستان کو اس ہولناک دلدل سے نکالنے کا تحیہ کیا۔بین الاقوامی طور پر پذیرائی پانے والے اور پاکستان کے امن کے ضامن آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا دہشت گردوں کے خلاف اس فیصلہ کن آپریشن کی نسبت محمدﷺ کی تلوار مبارک سے قائم کی گئی شاید یہ اس ہی مقدس نسبت کی برکت ہے کہ اللہ نے آپریشن کو خیر اور کامیابیوں سے مالا مال کردیا۔ آج پاکستان کو اقوام عالم میں ضرب عضب کی وجہ سے ایک نئی شناخت ملی ہے اور کئی ممالک پاکستان سے مشاورت کر رہے ہیں تاکہ وہ اس ہی قسم کا آپریشن اپنے ملک میں بھی شروع کرسکیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بھی پاکستان کے اندر دہشت گردوں کی باقیات موجود ہیں جو اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کے لیے اکا دوکا کاروئیاں کاروائیاں کر رہے ہیں مگر ان کی تنظٰیم ٹوٹ چکی ہے اور یہ چراغ وحشت اب ہمیشہ کے لیے بجھنے ہی والا ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف کاروائی ایک مستقل عمل ہے جس کے خدوخال اور احوال پر باقائدہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی قسم کی لچک دکھانے کامطلب دراصل دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ اس ہی ضمن میں حال ہی میں وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت نیشنل سیکورٹی کو نسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اعلیٰ ترین سول اور عسکری قیادت نے شرکت کی ۔
پاکستان کو پر امن بنانے اور رکھنے کے لیے مجوزہ نیشنل ایکشن پلان کا بھر پور طریقے سے جائزہ لیا گیااور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اس جنگ کو کامیاب بنانے کے لیے دوزاویوں سے محنت کرنے کی ضرورت ہے سب سے پہلے تو صوبائی حکومتوں کو وفاق کے ساتھ کوآرڈنیشن بہتر کرنی ہے ساتھ ہی ساتھ صوبائی سطح پر انتظامات کو مزید سے مزید بہتر اور فعال بنانے کی سعی کرنی ہے۔ دوسری اہم سمت یہ ہے کہ عوام الناس کے اندر ایک بیداری کی مہم کا آغاز کیا جائے تا کہ وہ سیکورٹی اداروں کے شانہ بشانہ ملک کے امن اور استحکام کے لیے کوشش کر سکیں حقیقت یہی ہے کہ عوام کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی جنگ ، خاص طور پر اندرونی محاذوں پر نہیں جیتی جا سکتی ۔ عوام کو اس سلسلے میں متحد ہونا پڑے گااور اپنا کردار لازماً اداکرنا پڑے گا۔
امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے 9/11کے سانحے کے بعد امریکی کم سے کم دہشت گردی کے محاز پر اپنی حکومت اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں کسی حد تک پاکستان میں بھی اتحاد اور یکانگت پایا جاتا ہے لیکن ابھی اس پر مزید کام کرنے کی اور عوامی شعور کو بلند کرنے کی گنجائش موجود ہے یہی نقطہ اجلاس میں متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا۔ پاکستان کے اندرونی امن کو تباہ کرنے کے لیے بھارت کی کوششیں بھر پور طریقے سے جاری رہی ہیں اور گاہ بہ گاہ بھارت کے بھیجے ہوئے جاسوس اور دہشت گرد پاکستان کے مختلف علاقوں سے پکڑے جارہے ہیں ۔ یہ آپریشن ضرب عضب ہی کی بدولت ہے کہ دشمن کے ایک وسیع نیٹ ورک کی کمر توڑ دی گئی ہے اور ان کے بیشتر لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے بھارت پاکستان کے اندر اندرونی مداخلت کی ناکامیوں سے آگاہ ہے اس ہی لیے اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سرحدوں پر محاز کو گرم کیاجائے۔ مگر یہاں بھارت سے کچھ غلطیاں ہوئیں وہ اپنی افواج کی قابلیت اور پاکستان کی افواج کی صلاحیتوں کا صحیح موازنہ نہ کرسکا اور انتہائی بھونڈے انداز میں سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ۔
لیکن شاید چیزوں کا انداز ہ تجربات سے گزرنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ انگزیزی کی کہاوت ہے کہyou live and learn یعنی زندگی کے تجربات سے ہی انسان سیکھتا ہے۔ بھارت کو نہیں معلوم تھا کہ پاکستان فضائیہ کے طیارے پاکستان ہی کی موٹروے پر فنی صلاحیتوں کی مظاہرہ کریں گے تو بھارت کے ایوانوں میں سکتہ طاری ہو جائے گا۔ بھارت کو شاید یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ پاکستان افواج کی طرف سے استعمال کیے گئے بارود کی گھن گرج سے بھارت کے بڑے بڑے سورماؤں کی حرکت قلب بند ہونے لگے گی اور شاید بھارت کی حکومت کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس بزدلانہ اقدام کی مخالفت میں بھارتی عوام انتہائی شدید ردعمل دیں گے۔
پاکستان کی سرحدیں تو الحمداللہ محفوظ ہیں اور بھارت کو ہر قدم پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ہمارا بزدل دشمن اپنی ناکامیوں کی بھڑاس نہتے کشمیری عوام پر نکال رہا ہے ۔ ظلم و بربریت کا وہ باب رقم کیا جا رہا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی کشمیریوں کو تکلیف دینا دراصل پاکستان کو تکلیف دینے کے مترادف ہے کیو نکہ پاکستان نے کشمیر کو کبھی اپنے سے الگ نہیں سمجھا ۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں پاکستان کی مشرقی سرحدوں اور کشمیر میں بھارت کے بڑھتے ہوئے ریاستی جبر کے حوالے سے بھی سیرحاصل بحث ہوئی اور اس ضمن میں پاکستانی افواج کی صلاحیتوں اور قربانیوں کو بے حد سراہا گیا اور دشمن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبرد آزما ہونے پر اتفاق کیا گیا۔پاکستان کی سلامتی میں اینٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اس لیے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیاکہ خفیہ اداروں کو ایسا ماحول دیا جائے جہاں وہ قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔
کہنے کو تو یہ ایک معمول کا اجلاس تھا لیکن میرے معتبرذرائع مجھے یہ خبر دے رہے ہیں کہ اس کے اثرات سرحد پارشدت محسوس کیے گئے ہیں اور بھارتی حکومت کے انتہائی ذمہ دار حلقے مودی حکومت کو اس بات کو مشورہ دے رہے ہیں کہ بھارت کی عافیت پاکستان کے ساتھ امن میں ہے مجھے اُمید ہے کہ پاکستان آزادی کشمیر میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گااور کشمیر میں آزادی کا سورج عنقریب طلوع ہوگا۔