وارفتگی کا موسم اور حقائق کی تلخی….بابر ستار
عمران خان وزارت ِعظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے ہیں۔ پاکستان میں رجائیت کی برکھا برس رہی ہے۔ امید کی کونپلوں پر نکھار ہے۔ خوشی اور خوشحالی کے شگوفے پھوٹ رہے ہیں۔باد نسیم کے جھونکے بہار کی نوید سناتے دم نہیں لیتے ۔الغرض ہر طرف ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔ ڈرائنگ رومز کی بحث میں دیومالائی عنصر غالب ہے ۔شہروں کے درمیانی طبقے کا جو ش دیدنی ،اس بحر بیکراں میں معقولیت خس وخشاک ، حقائق غبار ِ راہ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ ۔ توقعات کا شیش محل عشروں سے قائم تھا، بس ایک چراغ ِخانہ کی کمی تھی۔ سو الحمدﷲ پوری ہوئی ۔ اکثریت کو یقین ہے کہ امور ِ مملکت کرکٹ کی طرح بائی چانس ہوتے ہیں۔ کپتان اچھاہوتو سب کچھ ممکن ہے ۔ ایک اچھا بالنگ اسپیل، ایک اچھی اننگز، ایک اہم کیچ تمام کھیل کا پانسہ پلٹ سکتا ہے ۔
تو لیجیے، کھیل شروع ہے ۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ایسے امید افزا ماحول کی نظیر نہیں ملتی۔ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ایسا وزیر ِاعظم منصب سنبھالنے والا ہے جس پر لوگ اعتماد کرتے ہیں۔شنید ہے کہ ادائیگیوں کابحران چٹکی بجاتے حل ہوجائے گا ۔ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی رقوم بھیجنا شروع کردیں گے ۔ پہلے وہ اس لیے نہیں بھیجتے تھے کیونکہ ملک پر بدعنوانوں کی حکومت تھی ۔ اب ایک صاف ستھرا لیڈر میسر آگیا ہے جو سادگی اور احتساب کی مثالیں قائم کرے گا۔ وزیر ِاعظم ہائوس میں نہیں رہے گا۔ اوپر سے نیچے تک تمام ریاستی نظام یک لخت انہی زریں اصولوں کی پیروی کرنا شروع ہوجائے گا۔ چونکہ نواز شریف جیل میں ہیں، اور عمران خان منصب پر، تو اس محنتی قوم کا اصل جوہر اب کھل کر سامنے آئے گا۔ تمام شہری قانون کی پیروی کریں، تمام ادارے آئین کے تابع ہوجائیں گے۔
خوش فہمی کے غبارے کوحقائق کے خار زاروںسے دور رکھنا بہتر ہوگا۔لیکن کب تلک؟ فکر یہ ہے کہ دوست واحباب معجزوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ مشرف کا سات نکاتی ایجنڈا( پی ٹی آئی کے پہلے 100 دن کا پلان) یاد ہوگا؟ اس کے مطابق’’قوم کو اعتماد دینا، وفاق کو مضبوط بنانا، بین الصوبائی تعصبات کا خاتمہ کرنا، معیشت اور سرمایہ کارکے اعتماد کو بحال کرنا، قانون کی بالادستی قائم کرنا اور فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنانا، ریاستی اداروں کو سیاسی اثرات سے پاک کرنا، نچلی سطح تک اختیارات منتقل کرنا، اور بلاتفریق سب کا احتساب کرنا‘‘۔
وکلا کی تحریک کے دوران امید کی جولانی کون بھول سکتا ہے؟ آئین اور قانون کی بالا دستی کا آفتاب افق کو منور کررہا تھا۔ آمریت لرزہ براندام تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتی آزاد عدلیہ کا لہجہ توانا، اور ہم سمجھ رہے تھے کہ ہمارا تاریک دور تمام ہوا۔ ہم قانون کی حکمرانی کے دور میں داخل ہورہے ہیں۔ اُس ماحول میں ان روشن تبدیلیوں کی امیدلگانے والے لوگ غلط نہیں تھے ۔ لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ بہت جلد وہ غبارے پھٹنے شروع ہوگئے ۔ ہم نے پالیسی کی پیروی کی بجائے مقبولیت کی سربلندی کے نقارے بجتے دیکھے ۔ قانونی راستے کی بجائے ذاتی رجحان کی لاٹھی متحرک ہوئی، اور قوم کے جذبات بے اعتنائی کی کروٹ لے کر سونے لگے۔
حقیقت یہ ہے کہ معیشت محض بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے رقوم بھیجنے سے ٹھیک نہیں ہوجائے گی ۔ نہ ہی یہ بات درست ہے کہ پہلے وہ بدعنوانی کے ڈر سے ایسا نہیں کررہے تھے ۔ نائن الیون کے بعد پراپرٹی بزنس میں یک لخت تیزی اس لیے نہیں آئی تھی کہ لوگوں کو مشرف کی ایمانداری پر یقین تھا، بلکہ مغرب میں رہنے والے پاکستانیوں کو مسلم مخالف مہم کا خطرہ تھا۔ وہ لوگ پاکستان میںجائیدادیں خریدنے لگے تھے تاکہ اگر مغرب سے بھاگنا پڑے تو اُن کے پاس پاکستان میں محفوظ ٹھکانہ ہو۔ غیر ملکی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے اگر حکومت اُنہیں پرکشش مراعات دے، اور اُنہیں اپنی سرمایہ کاری کے عوض بھاری نفع کمانے ، اور سرمائے کے محفوظ رہنے کا یقین ہو۔
مقبول بیانیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی پاکستان سے چرا کر بیرونی ممالک میں چھپائی گئی دولت واپس لائی جاسکتی ہے ۔ کیسے؟ کہا جاتا ہے کہ احتساب کا نظام ان چوروں کے دل میں خداکا خوف ڈال سکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت ہاتھوں کے ساتھ ساتھ شکلیں بھی تبدیل کرتی رہتی ہے ۔ وہ رقم جو پاکستان سے چلی تھی، وہ اُس اغوا شدہ لیکن پاک دامن شہزادی کی طرح نہیں ہے جسے کوئی بانکا ہیرو ظالم جن کی قید سے چھڑا لائے گا ۔ چنانچہ داستان طرازی ایک طرف ، ہمیں ایسا ماحول تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ آئندہ پاکستان سے سرمایہ فرار نہ ہونے پائے ۔
ایک اوربات، پاکستان میں سرمایہ اُس سے کہیں زیادہ نفع کماسکتا ہے جہاں اسے مبینہ طور پر لے جایا جاتا ہے ۔ لیکن پھر یہاں رسک بھی زیادہ ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ ساکھ کا ہے ۔ ریاست کی طرف سے کیے گئے وعدوں پر یقین نہیں کیا جاتا ۔ جب پراپرٹی کے حقوق اور کنٹریکٹس کی بات ہوتی ہے تو اکثر اوقات ہمارا قانونی نظام ایک مشتعل ہجوم کی طرح کسی ہدف پر بل پڑتا ہے ۔ حقوق چھین کر اس کی تلافی نہیں کی جاتی ۔ کئی عشروں پرانے معاہدوں کو چشم زدن میں اُڑا کررکھ دیا جاتا ہے ۔ ریگولیشن ہم سے ہوتی نہیں، لیکن ایشیا کے نرخ طے کرنے کا ذمہ ہم اٹھا لیتے ہیں۔ ایک دن ایمنسٹی اسکیم کی خوش خبری ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہے، اگلے دن اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کا تعاقب شروع ہو جاتا ہے ۔
کیا ہم کسی ایک صنعتی گروپ کا نام بتاسکتے ہیں جس نے بالکل درست طریقے سے کاروبار کرتے ہوئے دولت کمائی ہو؟ چنانچہ جب تک ریاست کی پالیسیوں کی بنیاد اس یقین پر ہے کہ بھاری دولت صرف غلط طریقوں سے ہی اکٹھی کی گئی ہے ، اور تمام دولت مند افراد کو نیب کی چھلنی سے گزارنا ہوگا ، ہم سرمائے کی پروا ز کو نہیں روک سکیں گے ۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے خود کو محفوظ نہیں سمجھیں گے۔ ہم اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ملازمت کے مواقع کیسے پیدا کرسکیں گے؟ اگر ہم ملک سے سرمائے اور ذہنی صلاحیتوں کی پرواز روکنا چاہتے ہیں، تو ہمیں عوامی مقبولیت کے غلغلے اور ’’چوروں کی پکڑدھکڑ‘‘ کے نعروں کی بجائے ٹھوس اور جاندار پالیسیاں بنانا ہوں گی ۔
دل خوش کن نعروں نے پی ٹی آئی کو انتخابات میں فائدہ پہنچا دیا، لیکن اب عوامی مقبولیت سے آگے نکل کر پالیسی سازی کا وقت ہے ۔ پی ٹی آئی، اور اس کی صفوں میں موجود معقول سوچ رکھنے والے رہنمائوں، جیسا کہ اسد عمر اور شفقت محمود، کے سامنے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا ۔ سیکورٹی اور پروٹوکول کم کرنے ، وزیر ِاعظم ہائوس میں نہ رہنے ، یا گورنرہائوسز پر بلڈروزر چلانے کے اعلانات عوامی جذبات کے لیے ہیں، لیکن ان سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوتے ۔ علامتی اقدامات کی اہمیت ہوتی ہے ۔ یہ تبدیلی کا بادنما ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے بعد پالیسی سازی درکار ہے تاکہ تبدیلیوں کا سفر شروع کیا جاسکے ۔
ریاست نظر ِثانی کر سکتی ہے کہ عوامی عہدیداروں کی سیکورٹی کا کیا پیمانہ مقرر کرنا چاہیے ۔یقیناََ سیکورٹی موثر ، لیکن دھوم دھام سے پاک ہونی چاہیے ۔ لیکن جس طرح کے سیکورٹی خطرات پاکستان کو لاحق ہیں، کیا اس کا وزیر ِاعظم بلا دھڑک ، کسی سکیورٹی کے بغیر عوامی مقامات پر گھوم پھر سکتا ہے ؟ کیا ایسا کرنا سادگی سے زیادہ حماقت نہیں ہوگی؟اس ضمن میں اہم چیز ایک وزیر ِاعظم یا ایک سروس چیف کو دہشت گردحملے سے بچانا ہے ۔ میڈیا کو سیکورٹی کی سادگی یا اس کے برعکس کا تجزیہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ ہمارے مسائل ان علامتی معاملات سے کہیں بڑھ کرہیں۔ کیا بہتر نہ ہوگا کہ ٹی وی پر دیگر ٹھوس مسائل پر بات کی جائے ؟
اسی طرح ایک وزیر ِاعظم کا وزیر ِاعظم ہائوس کے سرکاری کوارٹرز میں رہنا بھی کوئی مقصد پورا نہیں کرتا۔ اگر ہم واقعی عوامی بہتری کی پالیسیاں بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ریاست کے اخراجات اور وسائل مختص کرتے وقت عوام کی بہتری کا سوچنا چاہیے ۔ لیکن ان موضوعات کا تو ذکر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا ہم ایسی پالیسی بنتے دیکھیں گے کہ جز وقتی اقدامات کی بجائے یہ طے کر لیا جائے کہ ٹیکس دہندگان کی رقم سے کوئی ریاسی اور عوامی عہدیدار، جج یا جنرل عیش و عشرت کی زندگی بسر نہیں کرے گا؟کیا چھوٹے بڑے تمام افسران سادگی اپنا سکتے ہیں؟کیا ریاست کی زمین اس کے شہریوں کی امانت نہیں؟ کیا اسے عالیشان جاگیروں اور محل نما رہائش گاہو ں میں تبدیل ہونے سے روکا جائے گا؟
قانون کی حکمرانی صرف اس لیے بحال نہیں ہوجائے گی کہ نیب کے چیف نے kiki کا نوٹس لے لیا ہے ، یا پی ٹی آئی نے اپنے ایک ایم پی اے کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈلائن مقرر کی ہے ۔ قانون کی حکمرانی کے لیے اس نظام کے ہر پرزے کو درست کرنا ضروری ہے ۔ اس میں عدالت، جیل، تحقیق، استغاثہ، تفتیش، سب کچھ شامل ہے ۔ ہمیں ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے فائدہ حاصل نہ کرسکے، مقدمات کی تاخیر پر تادیب کا سامنا کرنا پڑے، اور اپنی مرضی کی جگہ قانون سے رہنمائی لی جائے ۔
جب تک عمران خان کے عوامی مقبولیت کے اعلانات ٹھوس پالیسیوں میں نہیں ڈھل جاتے، یہ سب کچھ علامتی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں ۔ پاکستان ایک بڑا ملک ہے ۔ اس کے مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔ درست ہے کہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔
ہمار ے ہاں ہر قسم کے خواب بک جاتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے خوابوں کی منڈی لگتی ہے ۔ خریدار وں کے سامنے مزیدار چورن رکھا جاتا ہے ، چٹ پٹے وعدے کیے جاتے ہیں، چٹکی بجاتے تمام مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے ۔ الیکشن کے بعد یہ سودا نہیں بکتا۔
ایک اور بات، ہم ایک پسماندہ ملک ہیں۔ اورہماری پسماندگی کی وجہ صرف شریف برادران یا زرداری نہیں ہیں۔ ہم پسماندہ اس لیے کیونکہ ترقی یافتہ دنیا کے بارے میں ہمارا تصور مسخ شدہ ہے ۔ ہماری ترجیحات غلط ہیں۔ ہمارے قدم آگے کی بجائے پیچھے کی طرف اٹھ رہے ہیں۔ ہم سات عشروں کے بعد بھی فلاحی ریاست کے قیام کی بات نہیں کرسکتے ۔ ایک ریاست جس میں شہری حقوق کا احترام کیا جاتا ہو۔ عمرا ن خان کے سامنے بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ اُنہیں بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ امور ِریاست کرکٹ کے آخری دس اوورز جیسے نہیں ہوتے ، اور نہ ہی حکومت کرنا بائی چانس ہے ۔