وزا ر تیں ،جیلیں اور ایک فقر ہ…علی معین نوازش
وزارت یا وزیراعلیٰ ،گورنر یا مشیر، کسی بڑے ادارے کی کرسی یا کوئی اور اہم ذمہ داری حاصل کرنے کے خواہشمند براہ راست مطالبہ یا درخواست کرنے کی بجائے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تو کپتان کے کھلاڑی ہیں کپتان جہاں بھی فیلڈنگ کا کہے گا ہم وہاں فیلڈنگ کریںگے اور جس نمبر پربھی بیٹنگ کاکہے گا ہم اس نمبر پر بیٹنگ کریںگے اور ٹیم سے باہر بینچوں پر بٹھایا تو بھی ہم کپتان کی مرضی کے مطابق اپنا کردار ادا کریںگے لیکن درپردہ اس میں سے اکثر لوگ اپنی اپنی چاہت اور اپنی اپنی مرضی کی ذمہ داری حاصل کرنے کیلئے اپنے سارے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ کسی نہ کسی طریقہ سے کپتان کے کانوں تک یہ بات پہنچا رہے ہیں کہ کس ذمہ داری کے لیے انکی ذات کتنی ضروری ہے۔ خو ا ہشمندو ں کا کہنا ہے کہ سندھ میں بڑا تگڑا گورنر ہوناچاہیے جو وہاں کی صوبائی حکومت کو نہ صرف ان کی اوقات میں رکھے بلکہ اپنے منتخب ارکان کے لیے شیلٹر بھی بنے اور کوئی یہ باور کروا رہا ہے کہ پنجاب میں ماہر قانون گورنر کی اشد ضرورت ہے۔ جو نہ صرف صوبائی اسمبلی کو قانون سازی کے لیے مشاورت دے سکے بلکہ پارٹی کے لیے بھی موثر ثابت ہو۔ اور وزیراعلیٰ تو ایسا چاہیے جو پنجاب کی بیورو کریسی کو نکیل ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہو کیونکہ گزشتہ حکومت نے ہر ادارے کی اہم پوسٹ پر اپنا بندہ بٹھا رکھا ہے جو ساری پالیسی کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کی خفیہ معلومات بھی لیک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔اس لیے وزیراعلیٰ تو بڑا منجھا ہوا ہوناچاہیے۔ کپتان کو کے پی کے صوبہ کے بارے میں جہاں وزارت اعلیٰ کے خواہشمند یہ کہہ رہے ہیں کہ جیسا آپ چاہیں لیکن یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ میرے ساتھ ایم پی ایزکی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو یہ اصرار کررہی ہے کہ وزیراعلیٰ تم ہی کو ہوناچاہیے اور کوئی کہہ رہا ہے کہ وزارت اعلیٰ کے لیے نئی سوچ کا بندہ ہوناچاہیے ۔ کے پی کے میں ہمارے پاس یہ آخری موقع ہے جس میں ہمیں انقلابی کام کرنے ہیں۔ اسی طرح مرکز میں وزارتوں کے امیدوار اپنی اپنی دلیلیں کسی نہ کسی ذرائع سے پیش کررہے ہیں کہ فلاں وزارت کے لیے فلاں بندہ سوٹ کرتا ہے۔ دیکھیں کپتان صاحب داخلہ،خارجہ ،دفاع، اطلاعات اور خزانہ کی وزارت تو کس اتحادی کو دینابنتی ہی نہیں۔ دوسری طرف یہ مشورہ پہنچایاجارہا ہے کہ بندہ پکا ہوناچاہیے کیونکہ اپوزیشن بڑی تگڑی ہے اس کے لیے فلاں وزارت فلاں کو دیں کیونکہ اپوزیشن کو وہی جواب دے سکتا ہے۔ دو سر ی طر ف جس طرح رائے ونڈ کے محل اور ماڈل ٹائون کے سارے روٹس اب بے رونق سے ہوگئے ہیں اور ساری لش پش گاڑیاں اب بنی گالہ کی پہاڑی چڑھتی نظرآتی ہیں ، پھر بھی ما ڈل ٹا ئو ن سے کچھ لوگ اب بھی ’’جاندی بہار کے میوے‘‘ لوٹنے کے لیے ہلکی پھلکی نیٹ پریکٹس کررہے ہیں لیکن ان کی باتیں بے وقت کی راگنی اور بے وزن محسوس ہورہی ہیں اور آخری خبریں آنے تک معلوم ہوا ہے کہ فی الحال پنجاب اسمبلی ہویا قومی اسمبلی اپوزیشن لیڈر کی سیٹ ماڈل ٹائون میں ہی رہے گی۔ میاں محمد نواز شریف، مریم نواز اب فیصلہ سازی کی کرسی سے دور جیل میں بیٹھے ہیں۔ کیپٹن صفدر صاحب نعت گوئی میں دسترس حاصل کررہے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ جیل حکام کو کسی نے خاص ہدایت دی ہے کہ ملاقات کے لیے جمعرات کا روز رکھاجائے یا یہ فیصلہ اتفاقیہ ہوگیا ہے کیونکہ جمعرات کو آنے والے زائرین میں سے اکثر وہ نام لکھواتے ہیں جو اپنی غیر متوا زن گفتگو اور خو شا مد ی تسلی دے کر تکلیف میں زیادہ اضافہ یا فرسٹریشن کا شکار کردیتے ہیں۔کیونکہ بڑے بڑے تمام زائرین باہر اپنی اپنی گدی کی فکر میں سرگرداں ہیں۔کسی کو گدی کی فکر ہے تو کسی کو ان اداروں کے اہلکاروں کی جن کے بارے میں اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ’’ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو‘‘ وقت بھی کتنا ظالم ہوتا ہے کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے ۔کسی بادشاہ نےاپنے وزیرسے کہا کہ مجھے کوئی ایسا فقرہ بتائو کہ اگر میں خوش ہو تو غمزدہ ہو جائوں اور اگر غمزدہ ہوں تو خوش ہوجائوں، وزیرجوآج کل کے وزیروں کی بجائےدانش کی وجہ سے وزیر ہوا کرتےتھےنے بادشاہ کاآداب بجا لاتےہوئےبڑا خوبصورت فقرہ بتایا کہ ’’بادشاہ سلامت وہ فقرہ ہے’’یہ وقت نہیں رہے گا۔‘‘