وزیراعظم سے ملاقات …(3)…رؤف کلاسرا
چوہدری غلام حسین نے‘ ہم سب کی حیرانی کو خاطر میں لائے بغیر اپنے مخصوص انداز میں کہا: نسیم زہرہ صاحبہ یہ کس سوشل میڈیا کی آپ بات کررہی ہیں ؟ آج ہی میں نے سوشل میڈیا پر پڑھا کہ وزیراعظم تو ” اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں‘‘ ۔ اس پر جاسمین منظور زور سے بولیں: چوہدری صاحب خدا کا خوف کریں ‘ آپ تو بار بار نہ کہیں۔عمران خان اس دوران مکمل خاموش رہے اور ہم سب چوہدری صاحب کو دیکھتے رہ گئے۔
ایک گھنٹہ گزر چکا تھا‘ آخر میں نے وزیراطلاعات فواد چوہدری کی طرف دیکھا۔ عمران خان متوجہ ہوئے تو میں نے کہا :پہلے تو آپ کو مبارک ہو کہ آپ وزیراعظم بن گئے ہیں۔اب تک کسی صحافی نے مبارک باد نہیں دی تھی‘شاید وجہ عمران خان خود بھی تھے کہ انہوں نے کسی سے ہاتھ نہیں ملایا ۔ اگر وہ ہاتھ ملاتے تو سب نے رسماً مبارکباد دینی تھی۔ میں نے کہا: اچھا لگا آپ نے ان صحافیوں کو بلایا‘ جن میں سے اکثریت وہ ہیں‘ جو آپ پر آج کل تنقید کررہے ہیں‘ اور داد دیتا ہوں کہ آپ تلخ سوالات کا جواب سکون سے دے رہے ہیں۔ آپ نے حوصلہ دکھایا کہ ان سب کو سامنے بٹھا کرسنا جائے‘یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے ۔ایک جمہوری وزیراعظم صحافیوں سے تلخ سوالات سن کر بھی آرام سے جواب دے رہا ہے۔ فوجی یا سیاسی آمر صبر کبھی نہ دکھاتے۔ عمران خان مبارکباد کا سن کر کچھ ریلیکس ہوئے اور انگلیوں میں پھنسی تیزی سے گھومتی تسبیح پر گرفت کچھ کمزور پڑ گئی۔ میںنے کہا: آپ اور آپ کے حامی بہت حیران ہیں کہ مانیکا فیملی کا ایشو اتنا بڑا نہیں تھا جتنا بنا دیا گیا ہے‘ مگر اس کے پیچھے کسی اور کا نہیں‘ آپ کا اپنا قصور ہے۔ ہم لوگ توبڑے لوگوں کے پروٹوکول اور ہٹو بچو کے عادی تھے‘ آپ نے لوگوں کو شعور دینا شروع کیا کہ یہ سب غلط ہے‘سب قانون کی نظر میں برابر ہیں۔آپ نے یہ کام گھر سے شروع کیا۔ میں پہلی دفعہ آپ سے اس وقت متاثر ہوا تھا‘ جب برسوں پہلے مجھے میرے دوست ڈاکٹر ظفر الطاف نے ‘جو کرکٹ بورڈ کے چیئر مین رہے اور آپ کے بھی دوست تھے‘ بتایا کہ آپ نے اپنے ہیرو اور کزن ماجد خان کو کرکٹ سے آئوٹ کیا تو انہوں نے آپ کو کہا تھا کہ ابھی ماجد خان میں کرکٹ باقی ہے۔ آپ بولے نہیں‘ ZA اگر ماجد رہا تو شاید ٹیم نہیں چل پائے گی۔ آپ نے ڈاکٹر صاحب کو اس فیصلے کی طویل وضاحت بھی دی تھی ۔ اپنے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی‘ اکرام اللہ نیازی‘ بہنوں‘ اور بچوں تک کوخود سے دور کردیا۔ آپ نے اپنا تاثر یہ بنایا کہ جہاں بات انصاف‘ قانون اور اور میرٹ کی آتی ہے‘ آپ اپنے رشتہ داروں کا بھی خیال نہیں کرتے۔ لوگوں کو احساس ہونا شروع ہوا ملک میں پہلی دفعہ ایک ایسا بندہ آیاہے ‘جو بڑا آدمی ہوتے ہوئے بھی قانون کی حکمرانی چاہتا ہے۔ پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کے خلاف ہے۔ آپ نے یہ شعور دیا تو لوگ بھاگ کر آپ کے گرد اکھٹے ہوگئے کہ یہ ہمیں بڑے لوگوں ‘ درباروں کے پیروں‘سجادہ نشینوں‘ متولیوں‘ سیاسی وڈیروں اور بدمعاشوںسے بچائے گا ۔ اب آپ ہمیں بلا کر سمجھا رہے ہیں کہ پولیس نے رات گئے ننگے پائوں مین روڈ پر چلتی ایک لڑکی کو روک کر پوچھنے کی جرأت کیوں کی ؟ خاور مانیکا کو کیوں ناکے پر رکنے کا اشارہ کیا اور وہ نہ رکے‘ تو کیوں ان کا پیچھا کیا ؟
میں نے کہا: خان صاحب آپ ہمیں برسوں سے یورپ اور امریکہ کی مثالیں دیتے رہے ہیں‘ کیا پولیس کو کوئی حق نہیں کہ وہ رات گئے کسی خاتون کو مین روڈ پر چلتے دیکھے‘ جس کے پیچھے ایک گاڑی بھی چل رہی ہو‘ تو پوچھ لے کہ کیا معاملہ ہے؟ یہ کیسے کسی کا ذاتی معاملہ ہوسکتا ہے؟ ہوسکتا ہے کوئی مسئلہ ہو‘اسی کام کے لیے تو پولیس ہوتی ہے۔ پولیس نے اگر ناکے پر مانیکا کو رکنے کا اشارہ کیا اور وہ نہ رکے تو بھی یہ پولیس کی غلطی ہے؟ میں نے کہا: شکر کریں یہ پاکستانی پولیس تھی کہ مانیکا نے فون نکالا اور ڈی پی و رضوان گوندل کو فون کر کے جھاڑ پلائی اور الٹا پولیس والوں کے ساتھ‘ بقول انکوائری رپورٹ‘ بدتمیزی بھی کی۔ اگر یہ امریکہ‘ یورپ کی پولیس ہوتی تو شاید مانیکا صاحب جیل میں ہوتے ۔ پولیس پر تنقید یہ کرنی چاہیے کہ کیسے انہوں نے خاور مانیکا کو ڈی پی او کے فون پر جانے دیا ۔ ورنہ اس پر تو مقدمہ بنتا تھا‘ پولیس سے بدتمیزی‘ اسلحہ اور ناکے پر نہ رکنے کا۔ میں نے کہا :میں لیہ جاتا ہوں ‘ چار سو کلو میٹر کے طویل سفر میں چار جگہوں پر مجھے پولیس ناکے پر روکتی ہے۔ میں فیملی کے ساتھ ہوتا ہوں۔ رکتا ہوں‘ تلاشی دیتا ہوں‘ شناختی کارڈ چیک ہوتا ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں پولیس نے ایک خاتون کو روڈ پر روک کر غلط کیا۔ آپ بتائیں رات گئے ایک خاتون سے پولیس کو نہیں پوچھنا چاہیے تھا؟ کیا یورپ میں پولیس انسانوں کو نہیں روکتی؟ ایئر پورٹس پر ہمیں گھنٹوں نہیں روکا جاتا؟ وہاں آپ پولیس سے بحث کریں ‘تو آپ جیل جاتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ مان لیتے ہیں پولیس ہی غلط ہوگی‘بدتمیزی کی گئی ہوگی ‘ لیکن اس پر کیا کہیں گے کہ بشریٰ بی بی کی قریبی دوست فرح کے خاوند احسن اقبال گجر نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں بیٹھ کر دو پولیس افسران کی انکوائری کی ہے۔ یہ احسن اقبال گجر وہی ہیں‘ جن کے لاہور گھر آپ کا بشریٰ بی بی سے نکاح ہوا تھا ۔ کیا اس ایشو پر بات نہیں ہونی چاہیے کہ کیسے آپ کی بیگم صاحبہ کی ذاتی دوست کے خاوند نے وزیراعلیٰ کے دفتر میں بیٹھ کر پولیس افسران کی انکوائری کی اور کہا کہ جا کر معاملہ طے کریں ‘ورنہ اس کے نتائج برے ہوں گے؟اب آپ کہتے ہیں یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں‘لیکن مسئلہ اس لیے بن گیا ہے ‘کیونکہ آپ ماضی میں ان چیزوں کے خلاف سٹینڈ لیتے رہے ہیں ۔ آپ نے ہی لوگوں کو شعور دیا‘ جس کی وجہ سے یہ اتنا بڑا مسئلہ بن گیا ہے‘ ورنہ لوگ ان بڑے لوگوں کے پروٹوکول کے عادی ہیں ۔ آپ نے کہا تھا میرے دور میں ایسا نہیں ہوگا ‘لیکن اب آپ کی بیگم صاحبہ کی قریبی دوست کا خاوند وزیراعلیٰ ہاؤس میں بیٹھ کر پولیس افسران کی انکوائریاں کررہا ہے اورنتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
میں نے کہا:د وسری بات یہ کہ آپ نے کاشف عباسی کے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ آپ تیار نہ تھے۔ میں اور عامر متین ان دو‘ تین صحافیوں میں سے تھے ‘جو مسلسل پانچ سال کہتے رہے کہ عمران خان کو پارلیمنٹ جانا چاہیے ۔ آپ کو وقفہ سوالات میں روزانہ بیٹھنا چاہیے تھا‘ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی‘ فنانس‘ وزرات خارجہ‘ پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کی کمیٹیوں کا ممبر ہونا چاہیے تھا۔ آپ کو وہاں پتہ چلتا کون اچھا یا برا بیوروکریٹ ہے۔ پی اے سی میں چالیس فیڈرل سیکرٹریز باری باری پیش ہوتے ہیں۔ وہاں پتہ چل جاتا ہے‘ کون کتنے پانی میں ہے۔ آپ وہاں جاتے تو آج ہمیں یہ نہ بتا رہے ہوتے کہ آپ ان خوفناک ایشوز کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں‘ جن کا ملک کو سامنا ہے۔ یہ سب ایشوز جو آپ کو آج پتہ چل رہے ہیں‘سب ان کمیٹیوں اور وقفہ سوالات میں پانچ سال زیر بحث رہے ہیں۔ اسد عمر‘ عارف علوی‘ مراد سعید‘ شفقت محمود‘ محسن عزیز‘ میرے خیال میں بہتر طور پر ان ایشوز کو سمجھتے ہیں‘ جو آپ کو اب سمجھ آرہے ہیں‘کیونکہ وہ سب کمیٹیوں کے ممبر تھے اور اچھا رول ادا کرتے رہے ہیں ۔ اب آپ کہتے ہیں کہ آپ کسی بیوروکریٹ کو ذاتی طور پر نہیں جانتے‘ آپ کے پرنسپل سیکرٹری حسن خان اور مشیر ارباب شہزاد نے ٹیم بنا کر دی ہے۔ جب آپ کو ڈی ایم جی افسران ٹیم تیار کرکے دیں گے‘ تو وہ اپنے بیچ میٹ اور دوستوں کو ہی پوزیشنیں دیں گے۔ وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ کون شہباز شریف کا فرنٹ مین تھا۔ وہ آپ سے ہی نئے چیئر مین ایف بی آر جہانزیب خان کا دفاع کروائیں گے ‘جو شہباز شریف کی ترکی اور چین تک پراکسی کمپنیاں بنانے میں شامل تھا اور نیب تین دفعہ بلا کر جہانزیب خان کی انکوائری کرچکی ہے ۔
تیسری بات ‘ میں نے کہا: جب آپ سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف میڈیا کا تعاون مانگتے ہیں تو آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ کی اپنی کابینہ میں فہمیدہ مرزا اور زبیدہ جلال بیٹھی ہیں۔ فہمیدہ مرزا نے چوراسی کروڑ کا قرضہ معاف کرایا‘ جبکہ زبیدہ جلال بلوچستان میں توانا پاکستان سکینڈل میں ملوث تھیں۔ آپ کہتے تھے بینک لٹیروں کو نہیں چھوڑیں گے‘ اب آپ کہتے ہیں ان لٹیروں کو بخش دو‘ کیونکہ میں نے انہیں وزیر بنا دیا ہے۔
عمران خان خاموشی سے سنتے رہے۔ بولے: اوکے رؤف اب میں تمہیں سب بات بتاتا ہوں۔ابھی عمران خان نے بات شروع ہی کی تھی کہ ہمارے دوست ڈاکٹر شاہد مسعود اچانک کرسی پر کھڑے ہوئے اور احتجاجا ًبولنا شروع کر دیا: ”وزیراعظم صاحب میرے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا‘‘ ۔ جاری
ہم سب کی نظریں شاہد مسعود کی طرف اٹھ گئیں۔ اللہ خیر ‘کیا ہوگیا ۔ ہم سب ایک لمحے کے لیے عمران خان کو بھول گئے۔ (جاری)