وزیراعظم سے ملاقات … (4)….رؤف کلاسرا
سب کی نظریں شاہد مسعود کی طرف اٹھ گئیں۔ عمران خان بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ ہم سمجھے وہ سوال کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن انہوں نے کہا: خان صاحب! مجھے صرف پینتالیس منٹ پہلے بلایا گیا ہے‘ حالانکہ دو دن پہلے سے صحافیوں سے رابطہ کیا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ انہیں جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود سے ہماری گپ شپ چلتی رہتی ہے لہٰذا میں نے لائٹ موڈ میں کہا: وزیراعظم صاحب! آپ ہمارے دوست کی شکایت کا ازالہ کریں اور پندرہ منٹ اکیلے وقت دیں۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت مذاق کے موڈ میں نہیں تھے‘ انہیں لگا‘ میں ان کی اہم بات کو مذاق میں ٹالنے کی کوشش کر رہا ہوں‘ فوراً کہا: رئوف یہ اہم بات ہے۔ میں چپ ہو گیا۔ خیر فواد چوہدری نے معاملہ سنبھالا اور بولے: کچھ دوستوں کو آج ہی فون کرکے درخواست کی گئی تھی۔
وزیر اعظم میری طرف مڑے اور بولے: رئوف پھر آپ ایک کام کریں‘ مجھے ایک کابینہ بنا کر دے دیں۔ اس پر قہقہہ لگا۔ مجھے اندازہ تھا کہ عمران خان سے سخت سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ کاشف عباسی نے شروعات ہی سخت کر دی تھی۔ پھر عامر متین، ارشاد بھٹی، صابر شاکر، چوہدری غلام حسین، رحمن اظہر، جیسمین، فریحہ ادریس، عمران خان اینکر، نصراللہ ملک، شہزاد اقبال، رانا مبشر اور دیگر دوست بھی سخت سوالات کر چکے تھے؛ چنانچہ عمران خان کا میرے سوال نما تبصرے پر موڈ خراب کرنا بنتا تھا۔ انہیں میرا سوال پسند نہیں آیا تھا۔ یہ وہ جواب تھا جو ہمیں بینظیر بھٹو، نواز شریف اور شہباز شریف دیتے تھے۔ بینظیر بھٹو سے ایم این ایز کی کرپشن اور نوکریاں بیچنے پر سوال ہوا تھا تو جواب ملا: اگر نوکریاں نہ بیچیں تو الیکشن کے خرچے کیسے پورے کریں؟ نواز شریف نے لندن سے لَوٹ کر کرپٹ ایم این ایز کو پارٹی میں لیا اور وزیر بنایا‘ جن کے خلاف وہ دس سال تقریریں کرتے رہے۔ شہباز شریف نے پنجاب میں ق لیگ کے ارکان کو خریدا‘ جن کے خلاف وہ لندن میں جالب کی انقلابی نظمیں سنایا کرتے تھے۔ اب عمران خان نے بھی سیدھا وہی جواب دے دیا تھا۔ میں چپ کرکے سنتا رہا۔ سوال کرنا میرا حق تھا تو اپنی مرضی کا جواب دینا وزیر اعظم کا۔
عمران خان بولے: اب کیا کریں‘ جب مخلوط حکومت بناتے ہیں تو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو ساتھی پارٹیوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ ہر صوبہ‘ علاقہ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ کام آسان نہیں۔ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ چند وزرا کی کرپشن کہانیاں ہیں۔ ان سے بات کریں تو کچھ اور بات سناتے ہیں۔
عمران خان نے کہا: بشریٰ بی بی نے کسی کو فون نہیں کیا۔ میں نے سیکرٹری اعظم خان سے کہا تھا کہ وہ آئی جی سے پوچھ کر بتائیں کہ کیا معاملہ ہے۔ میں وہی کچھ کر رہا ہوں‘ جو کے پی میں کرتا تھا۔ لوگ شکایات کرتے تھے کہ پولیس نے یہ کردیا‘ وہ کردیا۔ میں اس وقت آئی جی پولیس سے چیک کراتا تھا اور اب بھی وہی روٹ لیا گیا۔ بشریٰ بی بی نے بیٹی کو کہا تھا کہ وہ ابھی اس ایشو کو نہ اٹھائیں‘ خواہ مخواہ بات بنے گی۔ ایک اور صحافی کے سوال کے جواب میں بولے: بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ٹریڈ گیپ کبھی اتنا نہیں تھا جتنا اب ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہیں تو عام آدمی متاثر ہوگا‘ کوشش کررہے ہیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔ انرجی بحران بھی ایک بڑا ایشو ہے۔ ہم نے جو باہر بیٹھ کر دیکھا تھا اس سے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ بیوروکریسی میری فیلڈ نہیں‘ اس لیے اس فیلڈ کے متعلقہ لوگوں نے ہی وہ لسٹ تیار کی‘ جنہیں اہم عہدے دیے گئے ہیں۔ کسی نے سوال کیا: آپ کو پہلے روز نواز شریف کے ان بلوں کی کاپیاں دکھائی گئی تھیں‘ جو انہوں نے ادائیگیاں کی تھیں۔ عمران خان پہلی دفعہ کھل کر مسکرائے اور بولے: ہرگز نہیں‘ نہ انہوں نے پوچھا اور نہ کسی نے انہیں چیک دکھائے‘ تاہم آپ لوگ ان کی عیاشیوں کی کہانیاں سنیں تو دماغ ہل جائے گا۔ ابھی مری کے گورنر ہائوس کو دیکھ لیں‘ جہاں یہ شریف جا کر ٹھہرتے تھے۔ اس پر ساٹھ کروڑ روپے کا خرچہ کیا گیا۔ یہ تو بادشاہوں کی طرح پیسہ اڑا رہے تھے۔ اس پر خاور گھمن نے کہا: آپ وزیراعظم ہائوس، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ، ایوان صدر، سینیٹ اور دیگر اداروں کا آڈٹ کرائیں تو بہت کچھ نکلے گا۔ خاور کا کہنا تھا: پبلک اکائونٹس بھی اہم فورم ہے۔ اس کے چیئرمین کا بھی آپ کو سوچنا ہوگا۔ اس پر فواد چوہدری بولے: پی اے سی کی چیئرمین شپ تو اپوزیشن کے پاس جائے گی۔ اس پر میں نے لقمہ دیا: اس کا مطلب ہے شہباز شریف چیئرمین بنے گا۔ فواد چوہدری نے کہا: روایتی طور پر چیئرمین تو اپوزیشن کا رہتا ہے۔ صابر شاکر نے وضاحت کی کہ یہ کوئی قانون نہیں ہے‘ یہ تو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان لندن میں ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ تھا۔ اس پر فواد چوہدری نے کہا: ماضی میں اپوزیشن کے پاس عہدہ رہا ہے۔ فواد یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ان پر تنقید نہ شروع ہو جائے کہ انہوں نے روایت توڑ دی اور بعد میںکہا جائے کہ حکومت پی پی پی اور نواز لیگ سے انتقام لے رہی ہے۔ عمران خان کو بات سمجھ آگئی‘ پہلے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے دس سالہ دور میں پارلیمنٹ سے قانون بنوا لیا تھا کہ پی اے سی کا چیئرمین اپوزیشن کا ہی ہوگا۔
عمران خان نے فوراً فواد چوہدری سے کہا: نہیں‘ ایسے نہیں ہوگا۔ اگر قانونی مجبوری نہیں ہے تو پھر ضروری نہیں اپوزیشن لیڈر کو ہی چیئرمین پی اے سی بنایا جائے۔ عمران خان نے کہا: اس کا مطلب تو وہی ہوا کہ شہباز شریف چیئرمین بن جائے گا۔ ہم سب نے یہ سن کر سکون کا سانس لیا کہ عمران خان کو بات سمجھ آگئی۔ پی اے سی جیسی اہم کمیٹی کو دوبارہ اپوزیشن کے پاس نہیں جانے دیا جا رہا۔ ویسے تصور کریں خورشید شاہ کے بعد اب وہ اہم عہدہ شہباز شریف کے پاس ہے تو کیا کچھ نہ ہوگا۔ عمران خان سے پوچھا گیا: بھارت کے ساتھ تعلقات کا انحصار ہمیشہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے‘ وہ اپنی تقریر میں کہہ چکے ہیں امن قائم کریں گے‘ تو کیا فوج ان کا ساتھ دے گی؟ عمران خان نے کہا: مجھے حیرانی ہے کہ بھارتی میڈیا نے مجھے پر حملے کیے اور مجھے طالبان خان قرار دیا۔ وہ سب مجھے جانتے ہیں۔ ابھی دیکھ لیں سدھو کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ سدھو کو بلانے کے پیچھے یہ حکمت تھی کہ وہ ایک کھلاڑی کے علاوہ سیاستدان اور اب وزیر ہے۔ اس کی آواز ہے جو وہاں انڈیا میں سنی جا رہی ہے۔ ہم سب کے ساتھ امن چاہتے ہیں اور فوج امن قائم کرنے میں ہمارے ساتھ ہے۔ شاہ محمود قریشی نے بھی اچھا جواب دیا اور کہا: ہمیں بھی اپنے راستے بدلنے ہوں گے۔ دنیا بدل گئی ہے اور ہمیں اب ان کاموں سے گریز کرنا ہو گا‘ جن کے خلاف پوری دنیا بول رہی ہے‘ اب خارجہ پالیسی فارن آفس بنائے گا۔ انہوں نے وزارت کسی سے نہیں مانگی تھی‘ انہیں دی گئی ہے‘ لہٰذا فیصلے آزاد ہوں گے۔
حامد میر نے کہا: آپ کو اقوام متحدہ جانا چاہیے تھا اور اپنے اس سوال کے حق میں دلیلیں بھی دیں۔ رحمن اظہر نے بھی حامد میر کے سوال کو آگے بڑھایا۔ اس پر عمران خان بولے: وہاں جا کر کیا کروں؟ بھکاریوں کی کیا عزت ہوتی ہے؟ پہلے ہم کچھ اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں تو تقریریں اور دورے بھی کر لیں گے۔
باتیں ختم ہوگئی تھیں۔ عمران خان اٹھنے لگے تو میں نے کہا: خان صاحب ایک بات کرنی تھی ملتان میانوالی، تلہ گنگ‘ چار سو کلومیٹر طویل روڈ کی حالت بہت خراب ہے۔ آپ وہاں سے جیتے ہیں‘ وہاں روزانہ لوگ حادثوں میں مررہے ہیں‘ آپ اس روڈ کی تعمیر کو ترجیح پر رکھیں۔ صابر شاکر بولے: ہمارے علاقے کا بھی وزیر نہیں بنا۔ کاشف عباسی نے مذاق میں کہا: میں نے بھی مری بارے درخواست کرنی ہے۔ عمران خان اٹھے اور بولے کہ انہوں نے وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈز پر پابندی لگا دی ہے۔ پہلے وزیراعظم روزانہ ایئر پورٹس اور موٹرویز کا اعلان کرتے تھے‘ وہ نہیں کریں گے۔ میں حیران ہوا کہ صوابیدی فنڈز کا سڑک سے کیا تعلق؟ لیہ، بھکر، میانوالی، تلہ گنگ، ڈیرہ غازی خان، مظفرگڑھ جیسے غریب پسماندہ علاقوں میں موٹرویز اور سڑکوں کی باری آئی تو بین لگ گیا۔ وزیراعظم نے این ایچ اے کو کہنا ہوتا ہے۔ پی سی ون تیار کرکے ایکنک میں پیش کرو‘ منظوری پھر بھی وزیراعظم نے ہی دینی ہے۔ میرے دوستوں نے میرا مذاق اڑایا کہ رئوف کی سڑک کا مطالبہ نہیں مانا گیا۔ میں اپنی اس احمقانہ تجویز پر بغیر شرمندہ ہوئے کھڑا ہوا۔ ان علاقوں کے دکھ کا مجھے پتہ تھا‘ ان دوستوں کو نہیں۔ وزیراعظم عمران خان مجھے جواب دے کر کب کے جا چکے تھے۔ (ختم)