منتخب کردہ کالم

حکومت گرانے کا طریقہ سامنے آگیا

حکومت گرانے کا طریقہ سامنے آگیا

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

عدالتوں کے خوف سے آزاد ہوکر بیرونی فضاؤں میں سانس لینے والے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خیال میں آج کل غیب سے ایسے ایسے مضامین آرہے ہیں کہ وہ غالب کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ انہیں یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ یہ حکومت جا کیوں نہیں رہی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے یہ سنہری ارشاد فرمایا ہے کہ عوام حکومت سے تنگ آئے ہوئے ہیں، اس لئے اسے چاہئے کہ وہ رخصت ہو جائے اور اگر حکومت ایسا نہ کرے تو سپریم کورٹ کو چاہئے کہ اسے گھر بھیج دے۔ یہ تجویز ایک ایسی شخصیت پیش کر رہی ہے جو پاکستان کی بہت سی عدالتوں کو کئی مقدمات میں مطلوب ہے۔ ایک مقدمہ انتہائی غداری کا بھی ہے، جو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت درج ہوا تھا، لیکن ابھی مقدمے کاآغاز ہی ہوا تھا کہ وہ بیماری کے بہانے ملک سے باہر چلے گئے اور پھر آج تک واپس آنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ البتہ وہ آئین کو مسلسل تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں۔ تازہ ارشاد یہ ہوا ہے کہ حکومت کو ہٹانے کے لئے آئینی طریقہ نکالنا ہوگا، سب کچھ ممکن ہے۔ سپریم کورٹ ایک عبوری حکومت کو اختیار دے کہ وہ آئین میں ترمیم کرے۔ آئین میں ترمیم کیسے ہوسکتی ہے۔ یہ آئین میں بڑی صراحت کے ساتھ درج ہے اور اب تک جتنی ترامیم ہوئی ہیں، وہ اسی طریق کار کے تحت ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ نہ تو خود آئین میں ترمیم کرنے کی مجاز ہے، اور نہ کسی کو ایسا اختیار دے سکتی ہے۔ پرویز مشرف جب یہ مطالبہ کرتے ہیں تو غالباً ان کے ذہن میں ان کا اپنا عہد حکومت ہوتا ہے، جب وہ ایک ماورائے آئین اقدام کرکے ایک آئینی حکومت کو ہٹا کر خود ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ بن گئے تھے۔ ان کا عہد ہر لحاظ سے مارشل لاء تھا۔ تاہم باضابطہ طور پر اسے مارشل لاء قرار نہیں دیا گیا تھا۔ البتہ جو اقدامات کئے جاتے تھے اورآرڈر جاری ہوتے تھے، وہ سب کے سب وہی تھے، جو مارشل لاء کے ادوار میں جاری کئے جاتے ہیں۔آئین معطل تھا اور اعلیٰ عدالتیں پی سی او کے تحت کام کر رہی تھیں۔ ججوں نے نئے سرے سے حلف اٹھایا تھا، اس لئے اگر ان عدالتوں نے بن مانگے آئین میں ترمیم کا اختیار دے رکھا تھا تو یہ غیر اعلان شدہ مارشل لاء کا اعجاز تھا، کوئی آئینی حکم نہیں تھا۔ سپریم کورٹ 31 جولائی 2009ء کو پی سی او کیس کے فیصلے میں ایسے تمام احکامات کو نہ صرف غیر آئینی قرار دے چکی ہے بلکہ مستقبل میں ان سے تائب ہونے کا اعلان بھی کرچکی ہے۔
پرویز مشرف جو کچھ چاہتے ہیں اور جو اظہار خیال میڈیا کے ذریعے کر رہے ہیں، سپریم کورٹ اس پر تو کوئی حکم جاری نہیں کرسکتی، البتہ وہ خود ہمت کرکے پاکستان آجائیں اور اپنے خلاف پہلے سے موجود مقدمات کا سامنا کریں تو اس مفہوم کی پٹیشن بھی عدالت میں دائر کرسکتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسی بے تکی درخواستیں دائر کرتے رہتے ہیں، جن پر وکلاء کو جرمانے بھی ہوتے ہیں۔ ماضی میں ایک وکیل کو تو ایسی درخواست دائر کرنے پر جیل بھی جانا پڑا تھا۔ اگر پرویز مشرف سمجھتے ہیں کہ ان کے مقدمے میں جان ہے تو وہ ایسی درخواست دائر کرکے دیکھ لیں۔ سپریم کورٹ نے اگر ایک وزیراعظم کو گھر بھیجا ہے تو اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ وہ ایک پوری کی پوری حکومت کو بھی ان کو خوش کرنے کے لئے گھر بھیج دے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت بڑی کمزور ہے، اس کی کوئی رٹ نہیں، اس کو تو دو ہزار دھرنے والوں نے جھکا دیا اور گھر جانے کا کرایہ بھی حکومتی خزانے سے لے کر گئے، اتنی کمزور حکومت کے وزیراعظم کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کیوں نہیں لائی جاتی جو وزیراعظم کو (اور نتیجے کے طور پر حکومت کو) گھر بھیجنے کا عین آئینی طریقہ ہے اور اگر ارکان پارلیمنٹ یا پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتیں اس طریقے سے وزیراعظم کو ہٹانے کی سعی کرتی ہیں تو اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوگا، جو سیاست دان یہ اعلان کر رہے ہیں کہ یہ حکومت اگلے سال کا سورج نہیں دیکھے گی، یا مارچ سے پہلے اس کا ’’کوئیک مارچ‘‘ ہو جائے گا، وہ بھی ماورائے آئین اقدامات پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ آئینی اقدام کی طرف وہ بھی نہیں آتے۔ جب دستور کے اندر وزیراعظم کو ہٹانے کا ایک طریقہ موجود ہے تو اسے کیوں اختیار نہیں کیا جاتا؟ غالباً اس لئے کہ وہ ’’شارٹ کٹ‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔
جہاں تک عبوری حکومت کا تعلق ہے یہ بھی آئین کے لئے ایک اجنبی مخلوق ہے۔ آئین میں صرف ایک ایسی نگران حکومت کا تصور موجود ہے جو الیکشن کرانے کے لئے بنائی جاتی ہے، یہ اقدام بھی ایک آئینی ترمیم کے ذریعے کیا گیا جس کا مقصد تو یہ تھا کہ ایسی حکومت غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کرائے گی لیکن یہ توقع بھی نقش برآب ثابت ہوئی، کیونکہ اس حکومت پر بھی دھاندلی کا الزام اسی طرح لگ گیا جس طرح ماضی کی حکومتوں پر لگتا رہا تھا۔ الزام درست تھا یا غلط، لیکن سوال یہ ہے کہ پھر ایسی نگران حکومت قائم کرنے کا کیا مقصد؟ پاکستان کو جس بات کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ عام انتخابات وقت مقررہ پر ہوں، آئین پر پوری طرح عمل کیا جائے۔ انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوں، ایسے انتخابات کے نتیجے میں جو پارٹی بھی برسر اقتدار آئے، اسے اپنے مینڈیٹ کے مطابق حکومت کرنے دی جائے، کسی کو شکایت ہو تو آئین میں درج طریق کار کے مطابق وزیراعظم کو ہٹانے کے لئے عدم اعتماد کی تحریک لے آئے، اگر نمبر گیم پوری نہ ہو تو پھر نئے انتخابات کا انتظار کیا جائے اور اگر ووٹر کسی نئی پارٹی کو مینڈیٹ دے دیں تو اس کا احترام کیا جائے۔ ماورائے آئین ہر طریقہ غلط ہے، چاہے وہ جتنی بھی نیک نیتی سے اختیار کیا جائے۔ پرویز مشرف جس طرح کا اقتدار ’’انجوائے‘‘ کرتے رہے ہیں، اب وہ زمانے واپس نہیں آسکتے۔