وزیراعظم ۔ عمران خان…عمار مسعود
آج کوئی معمولی دن نہیں بلکہ ایک بہت خاص دن ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم کا حلف اٹھانا ہے۔ بائیس سالہ جدوجہد کی معراج کا دن ہے۔ ساری کلفتوں، مشکلوں کے اختتام کا دن ہے۔ اس دن کا خواب ہزاروں لوگوں نے دیکھا ہو مگر کم ہی خوش نصیب اسے تعبیر ہوتے ہوئے دیکھ سکے ہیں۔ کسی بھی کونسلر، استاد، کھلاڑی ڈاکٹر یا انجینئر سے پوچھ کے دیکھ لیں اس کے دل میں یہ خواہش کہیں نہ کہیں نہاں ضرور پائی جائے گی۔ وزیر اعظم کا منصب ہے ہی اتنا ہوش ربا کہ اسکے طلسم میں سب ہی گرفتار ہو سکتے ہیں۔ کس کا دل نہیں چاہتا کہ کہ اسے ایک ایسا عہدہ ملے جہاں اگر وہ چاہے تو سب لوگوں کی غربت ختم کردے، بے کسوں کا سہارا بنے، گلی گلی میں جدید اسپتال کھول دے۔ اعلیٰ تعلیم سب کے لئے عام کر دے۔ معذ ور افراد کی بھلائی کے لئے لازوال کام کرے۔ اس سماج سے بھوک غربت مٹا دے، سب کو پینے کا صاف پانی مہیا کرے۔ خط ناداری کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ بے روزگاروں کو اس کے ایک اشارے پر روزگار ملے۔ سارے زمانے میں ملک کا پرچم اونچا ہو۔ وطن کے پاسپورٹ کو عزت ملے۔ اقوام متحدہ پاکستان کی پالیسیوں کا شکریہ ادا کر کر کے نہ تھکے۔ کھیل کے میدان میں ہم سب سے آگے ہوں۔ ادب ثقافت کو فروغ ملے۔ اپنے ہاں کی آزادی اظہار کا سارے زمانے میں چرچا ہو۔ خوب سڑکیں ، گلیاں تعمیر ہوں۔ جگہ جگہ ڈیم بنے ہوں۔ انصاف ہر شخص کے تصرف میں ہو۔ تاریخ میں اس کا نام جلی حروف سے لکھا جائے۔
ہمارے دل کے چور خانے میں ایک توقع ضرور ہوتی ہے کہ جس طرح طلسم ہوشربا کی کہانیوں میں ایک بادشاہ جب تخت پر بیٹھتا تھا تو اسکے ہاتھ میں ایک جادوئی چھڑی دی جاتی تھی جو ہر مسئلے کو پل بھر میں حل کر دیتی تھی۔ دشمن تہ تیغ بھی اسی جادوئی اثر سے ہوتا تھا ۔ رعایا بھی اس سامری سحر کے زیر اثر خوش باش رہتی تھی اور سلطنت کے مسائل بھی پل بھر میں حل ہو جاتے تھے۔ بہت سے لوگ عمران خان سے ایسی ہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ وہی سر فروش ہیں جنہوں نے گزشتہ پانچ سال یہی خواب بڑی شدت سے دیکھا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی عمران خان وزراعظم کے تخت پر براجمان ہوں گے سب مسئلے حل ہو جائیں گے۔نہ کوئی بھوکا رہے گا نہ کسی کو افلاس تنگ کرے گی۔ نہ کوئی انصاف کی تلاش میں در بدر پھرے گا نہ کسی کا حق لوٹا جائے گا۔ راوی ہر طرف چین لکھے گا۔ شیر اور بکری ایک ہی تالاب سے پانی پئیں گے اور خلیفہ وقت رات کے اندھیرے میں رعایا کی حالت زار جاننے کے لئے تاریک گلیوں کا خفیہ دورہ کریں گے۔ انہی دوروں میں اگر کہیں کوئی بدعنوانی اور حق تلفی پائی گئی تو قاضی وقت کو اسی وقت طلب کیا جائے گا اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
یہ سب خواب ایسے ہیں جو سچ پوچھیں تو ہر وزیر اعظم سے وابستہ رہے ہوں گے۔ باقی کی بات تو چھوڑیں محمد خان جونیجو سے بھی سندھ کے عوام کو یہی توقع ہو گی کہ اب سائیں تخت نشین ہیں اب سندھڑی آموں میں زیادہ رس پڑے گا اب تھر میں ساون برسے گا۔ اب اجرک کے رنگ اور کھلیں گے۔ میر ظفراللہ خان جمالی کی بات کرلیں جب انہیں وزارت عظمیٰ کا منصب ملا ہو گا ۔ انکے علاقے کے لوگوں کی تمنا بھی یہی ہو گی۔ کہ اب ہمارے سردار کا راج ہے۔ اب قتل و غارت بند ہو گی۔ اب عورتوں پر ظلم بند ہو گا۔ اب ہزارہ لوگوں کا قتل عام نہیں ہو گا۔ اب لڑکیوں کے اسکول کھلیں گے۔ اب اسپتال بنے گا۔ اب بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ اب بھوک مٹے گی۔ اب غربت ختم ہو گی۔ خانہ بندوشوں کو سرکاری رہائش گاہیں ملیں گی۔ صاف پانی سب کو دستیاب ہو گا۔ سڑکیں بنیں گی۔ خوشحالی آئے گی۔
ہر وزیراعظم جب اس منصب پر پہنچا ہو گا اس کی بھی یہی خواہش ہو گی کہ کسی طرح کوئی ایسا کارہائے نمایاں سر انجام دے کہ تاریخ میں اس کا نام جلی حروف سے لکھا جائے۔ کوئی ایسا کارنامہ اسکے نام ہو جائے کہ رہتی دنیا اس کو یاد رکھے۔ کوئی ایسا زریں اصول مرتب ہو جائے کہ وہ امر ہو جائے۔لوگ مرنے کے بعد بھی اس کی پو جا کریں ، اسکی مثالیں دیں ، اس کے گن گائیں، اسکے مجسمے بنائیں۔ گھروں میں اسکی تصاویر سجائیں۔ اسکے مزار پر عوام کا رش کبھی کم نہ ہو۔ تاریخ کی کتابوں میں اس کا پہلے صفحے پر ذکر ہو۔ بڑے بڑے مفکرین اسکے طرز سیاست کی مثال دیں ۔ تاریخ دان اسکے سنہری دور کو تاریخ کا ایک اہم دور قرار دیں ۔ یقین مانیں آج تک اس ملک کے جتنے بھی وزیر اعظم آئے ہیں ان سب کے سینے میں کہیں نہ کہیں یہ خواہش ضرور موجود ہو گی۔
بدقسمتی سے یہاں کوئی بھی وہ نہیں کر پایا جس کی اسے خواہش تھی۔ جس وزرات عظمیٰ میں بادشاہی کا ان سب نے خواب دیکھا تھا وہ تخت کانٹوں کی سیج نکلا ۔ ہر وزیر اعظم ناکام رہا ۔ بلکہ اس کو ان تمام خواہشوں کی عبرت ناک سزا ملی۔ خو د ہی سوچِئے اگر بھٹو وزیر اعظم نہ ہوتے تو کیا کوئی ایسے ذہین فطین شخص کو پھانسی پر چڑھا سکتا تھا۔ محمد خان جونیجو اگر وزیر اعظم نہ ہوتے تو کیا کوئی ان جیسے ایماندارشخص پر کرپشن کا الزام لگا سکتا تھا۔ بے نظیر بھٹو اگر وزیر اعظم نہ ہوتیں تو اسی طرح کرپشن کی فائلیں کھلتیں؟ کیا اسی طرح قاتلانہ حملے ہوتے۔ کیا اسی طرح ملک بدر کر دیا جاتا۔ نواز شریف اگر وزیر اعظم نہ ہوتے تو کیا آج اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ جیل میں بیٹھے ہوتے؟ کیا دس سال کے لئے ملک بدر کر دیئے جاتے۔ ظفر اللہ خان جمالی اگر وزیر اعظم نہ ہوتے تو کیا بیک جنبش قلم فارغ کئے جاتے۔ یوسف رضا گیلانی اگر وزیر اعظم نہ ہوتے تو کیا توہین عدالت میں نکالے جاتے؟
اس ملک کی وزارت عظمیٰ بہت سخت آزمائش ہے۔ یہاں عقل ، ہنر، خطابت، دلیری، شجاعت ، قسمت سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں بس ایک بدقسمتی ہے جو سر پر منڈلاتی رہتی ہے ۔ اک خوف ہے جو ڈراتا رہتا ہے۔ ایک نحوست ہے جو جان نہیں چھوڑتی۔ عمران خان کے بارے میں سنا ہے انکو تاریخ پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ فاتحین کے کارناموں سے انکو بہت شغف ہے۔ ان کو اس منصب کو سنبھالنے سے پہلے اس ملک کی تاریخ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔ یہاں کے مسائل کچھ اور ہیں ، یہاں کی رسومات کچھ اور ہیں یہاں کی روایات کچھ اور ہیں۔ ہم نے ستر سالوں میں یہ سبق سیکھا ہے جو شخص بھی وزیر اعظم بنے گا اس کا انجام عبرت ناک ہو تا۔ خان صاحب کے چاہنے والے لاکھوں نہیں کروڑوں ہیں۔ ان کے وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس منصب کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ اور اگر انجام اچھا ہوا تو پھر اس ملک کی ریت روایت سب بدل جائے گی۔ جسکےا مکانات بہت کم ہیں ۔ اس پر سوچئے گا۔