وزیر اعظم مودی کی واپسی…..مجیب الرحمن شامی
بھارتی انتخابات مکمل ہو چکے، وزیر اعظم نریندر مودی آئندہ پانچ سال کے لیے بھی اپنے منصب پر براجمان رہیں گے۔ لوک سبھا میں بی جے پی کے ارکان کی تعداد 282 سے بڑھ کر 303 ہو گئی ہے۔ (کانگرس کے حصے میں صرف 52 نشستیں آئی ہیں)۔ اتحادیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 353 تک پہنچ جاتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 2014ء میں ”مودی لہر‘‘ (WAVE) اُٹھی تھی تو 2019ء میں ”مودی سونامی‘‘ آ چکا ہے۔ کانگرس کے حوالے سے نئی تاریخ یوں رقم ہوئی کہ راہول گاندھی اپنے خاندانی حلقے ”امٹھی‘‘ سے اداکارہ سمرتی ایرانی کے ہاتھوں 55 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ راہول اس حلقے سے چار بار انتخاب جیت چکے ہیں، اور پانچ سال پہلے سمرتی ایرانی ہی کو انہوں نے 1,07,903 سے زائد ووٹ لے کر ہرایا تھا۔ یہیں سے ایک بار سونیا گاندھی بھی منتخب ہوئی تھیں۔ سمرتی ایرانی نے اپنی جیت کے بعد ٹویٹ کیا: کون کہتا ہے کہ آسمان میں سوراخ نہیں ہو سکتا (یعنی ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے)۔ انتخابی نتائج کے بھارت، اور اس کے ہمسایوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس پر بحث شروع ہے۔ بہت کچھ کہا جا رہا ہے، بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ”ٹائم میگزین‘‘ نے چند ہی ہفتے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھارتی معاشرہ تقسیم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخاب جیتنے کے لیے ابھارے جانے والے جذبات سے بھارت تقسیم اور خلفشار کا شکار ہُوا ہے۔ مودی طرزِ سیاست میں تمام تر توجہ ”اکثریت‘‘ حاصل کرنے پر ہوتی ہے، راہ میں آنے والی اقلیتوں کو ٹھوکر سے ہٹانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا۔
لوک سبھا کے 85 اور ریاستی اسمبلیوں کے 720 حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان ووٹروں کی تعداد 20 فیصد سے زائد ہے۔ مسلمان اگر تہیہ کر لیں تو ان حلقوں کے نتائج کو فیصلہ کن انداز میں متاثر کر سکتے ہیں، لیکن وہ ”ایک رائے‘‘ ہو کر ووٹ نہیں دیتے۔ ووٹ مختلف افراد، جماعتوں اور گروہوں میں بٹ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں مسلمان امیدوار کو ٹکٹ دینے سے بھی گریز کرتی ہیں کہ ایسی صورت میں مخالف ووٹ مجتمع ہو جاتے ہیں۔ 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی نے صرف7 مسلمان امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں سے ایک بھی کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ 2019ء کے انتخاب میں مسلم امیدواروں کی تعداد 6 تھی۔ مغربی بنگال سے سومترا خان کے حصے میں کامیابی آ گئی، یوں بی جے پی کی صفوں میں ایک مسلمان رکن بیٹھا نظر آئے گا۔ یہ خان صاحب 2014ء میں بھی لوک سبھا پہنچے تھے‘ لیکن آل انڈیا ترینامول کانگرس کے ٹکٹ پر۔ 2019ء میں بی جے پی میں شامل ہو کر اس کے امیدوار بن گئے۔ مختلف جماعتوں کے ٹکٹ پر 28 مسلمان کامیاب ہوئے ہیں۔ گزشتہ کے مقابلے ان کی تعداد میں 5 کا اضافہ ہو گیا ہے‘ لیکن آبادی کے تناسب سے یہ تعداد بہت کم ہے۔
2014ء کے انتخاب میں مودی ”معاشی مسیحا‘‘ بن کر ابھرے تھے، گجرات میں ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران جو معاشی ترقی ہوئی تھی، اس کی بنیاد پر ان سے بھارت کی تقدیر بدل دینے کی توقعات لگائی گئی تھیں، لیکن 2019ء میں وہ ”چوکیدار‘‘ بن کر ابھرے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں انہیں بھارت کا مضبوط محافظ قرار دیا گیا، اور یوں ان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوا۔ پلوامہ واردات کے بعد ان کی حکمت عملی ان کے لیے مفید ثابت ہوئی، مسعود اظہر کے خلاف اقدام نے بھی ان کی ٹوپی میں پر لگایا۔ وزیر اعظم عمران خان نے انہیں مبارکباد دے دی ہے، انہوں نے واپسی شکریہ بھی ادا کر دیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ مودی کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کے تعلقات میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔ یہ امید پوری ہو یا نہ ہو، یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ بی جے پی کے رہنما زیادہ پُراعتماد ہو کر پاکستان سے معاملہ کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو افواجِ پاکستان کی پُرزور تائید حاصل ہے، اس لحاظ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے ماحول سازگار ہو گا، اور دونوں وزرائے اعظم مضبوط پائوں پر اور مضبوط لہجے سے تبادلہ ٔ خیال کر سکیں گے، لیکن پاکستان کو جن معاشی اور داخلی چیلنجوں کا سامنا ہے، ان کی موجودگی میں کسی معجزے کی توقع نہیں لگائی جا سکتی۔ پاکستانی ڈپلومیسی اس لحاظ سے تو کامیاب ہے کہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے کی راگنی بین الاقوامی طور پر پذیرائی حاصل نہیں کر سکی۔ کوئی ایک بھی ملک اس بھارتی موقف کی تائید نہیں کرتا کہ کشمیر طے شدہ مسئلہ ہے لیکن اس سے آگے بڑھ کر پاکستان بھی کچھ حاصل نہیں کر پایا۔ کشمیر کا مسئلہ ہماری خواہشات کے مطابق حل ہونے کے امکانات مدہم ہیں، اجتہادی بصیرت سے کام لے کر ہی راستہ نکالا جا سکے گا۔ بہرحال، مستقبل جو بھی لے کر آئے مایوسی کو اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دینا چاہیے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے افغانستان سے بھارت واپس جاتے ہوئے لاہور میں رک کر، اور اپنے پاکستانی ہم منصب سے بے تکلفانہ تبادلہ ٔ خیال کر کے جو پیش قدمی کی تھی، پاکستان کی اندرونی سیاست نے اسے سبوتاژ کر ڈالا۔ یہاں ”مودی کا جو یار ہے، غدار ہے، غدار ہے‘‘ کے نعرے بلند کرنے والوں کو اُکسا دیا گیا، نتیجتاً تاریخ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے مڑ گئی۔ اب اس طرح کی کسی حرکت میں برکت تلاش نہیں ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ جہاں عسکری قیادت کے ساتھ جڑے رہیں وہیں مخالف سیاسی جماعتوں کو بھی نظر انداز نہ کریں۔ قومی محاذ بنا کر، اور قومی موقف اپنا کر ہی قومی مفاد کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔
مرحومین… مہر جیون خان اور ملک مقبول احمد
گزشتہ ہفتے پاکستان اپنے دو سپوتوں سے محروم ہو گیا۔ دونوں کا تعلق مختلف شعبۂ حیات سے تھا، لیکن ان کی کارکردگی نے انہیں ممتاز کیا، اور وہ اپنے اپنے حلقے کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ مہر جیون خان نے ضلع جھنگ کے ایک عام سے کاشتکار گھرانے میں آنکھ کھولی، لیکن اپنی محنت اور دیانت کے بل پر آگے بڑھے۔ 1965ء میں سول سروس کا امتحان پاس کیا، اور ترقی کرتے کرتے صدرِ مملکت کے پرنسپل سیکرٹری کے بلند منصب تک پہنچے۔ جہاں گئے نقش چھوڑا۔ افسر بن کر نہیں خادم بن کر رہے اور دِلوں میں گھر کر گئے۔ انہوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جن میں ان کی خود نوشت ”جیون دھارا‘‘ بھی شامل ہے۔ گزشتہ ہفتے وہ ہنستے مسکراتے اپنے رب سے ملاقات کیلئے روانہ ہوئے۔ اس جہانِ فانی میں گزارے ہوئے ان کے 78 برس خوشگوار ہَوا کے جھونکے کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
مہر جیون خان کی قبر کی مٹی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان کے مقبول پبلشرز ”مقبول اکیڈمی‘‘ کے بانی ملک مقبول احمد سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے۔ انہوں نے کم و بیش نو عشرے اِس جہان رنگ و بو میں بسر کیے۔ وہ پاکستان میں پبلشنگ کا کاروبار کرنے والے ابتدائی افراد میں سے تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے کتابیں شائع کیں، اور بڑوں کے لیے بھی۔ ایک بہت بڑے ادارے کی بنیاد رکھ کر اہلِ علم و ادب کی خدمت کی، اور سرپرستی بھی۔ اپنی خود نوشت لکھی اور دیگر موضوعات پر قلم اٹھا کر بھی اپنے آپ کو منوایا۔ اپنے بارے میں انہوں نے کیا خوب لکھا ہے کہ مَیں تعلیمی سرٹیفکیٹوں، ڈگریوں اور دستاویزی حوالوں سے انتہائی کم علم ہوں، لیکن پھولوں کے درمیان رہ کر خوشبودار ہو جانے والی مٹی کی طرح ادبا، سفرا، مصنفین، مترجمین، معلمین، محققین اور عالی ظرف انسانوں اور کتابوں کے داخلی جمال سے فیض یاب ہوا، اور خود بھی ایک کتاب بن کر رہ گیا۔ قریباً پچاس سال سے میرا اُٹھنا بیٹھنا اور سونا کتابوں کے ساتھ ہے۔ مَیں نے ان سب کا رنگ قبول کیا ہے… ”ان کی کتابِ زندگی کا آخری باب چند ہی روز پہلے لکھا گیا، اور کاتبِ تقدیر نے وقت کے شیلف پر رکھ دیا ؎
”مرنے والے‘‘ کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
(یہ کالم روزنامہ ” دُنیا‘‘ اور روزنامہ ”پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)