وزیر اعظم کا قوم سے خطاب…مفتی منیب الرحمٰں
جنابِ عمران خان وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں ‘اب چاہیے کہ اس حقیقت کوانتخابی سیاست کے تمام فریق کھلے دل سے تسلیم کرکے آگے کا سفر شروع کریں‘ان انتخابات کے حُسن وقبح پر بحث ہوتی رہے گی اور ماضی میں بھی یہ روایت رہی ہے۔وزیرِ اعظم کے انتخاب کے موقع پر قومی اسمبلی کا تاثرسنجیدہ اور پروقار نہیں تھا ‘بلکہ ایوان موچی دروازے کا منظر پیش کر رہا تھا‘جنابِ عمران خان نے حزبِ اختلاف کے شوروشغب سے مشتعل ہوکر اعتدال کی روش کے برعکس جذباتی تقریرکر ڈالی۔قومی رہنما کو نہ جذبات کی رو میں بہنا چاہیے اور نہ مغلوب الغضب ہونا چاہیے ‘بلکہ اُسے تحمّل ‘وقار ومتانت اور عزیمت واستقامت کا پیکر ہونا چاہیے ۔ جنابِ عمران خان کاہمیشہ ایک اِدّعا رہا ہے کہ وہ اپنے حریفوں سے ٹکرانا جانتے ہیں‘ کبھی شکست قبول نہیں کرتے ‘آخری بال تک فائٹ کرتے ہیں‘ کھیل کے میدان میں یہ اچھا وصف ہے ‘لیکن قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنا اور سب کا اعتماد حاصل کرنا ہی قیادت کا امتیازی وصف ہوتا ہے ‘ اب ان کو بھی شعوری طور پریہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ انتخابی معرکہ آرائی ختم ہوچکی ہے اور اب انہیںاپنی پوری توجہ ملک وملّت کی تعمیرِ نو اور قومی مسائل کے حل پر مرکوز کرنی چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے ایک گھنٹے سے زائد خطاب کیا‘اُن کا یہ خطاب بے ساختہ تھا ‘صرف انہوں نے موضوعات کے حوالے سے نوٹس بنا رکھے تھے‘اُن کا تاثّر بھی اچھا تھا ‘لگتا تھا کہ وہ دل کی گہرائی اور پورے یقین کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں ۔اُن کے خطاب کے مشمولات پر حرف زنی کی گنجائش نہیں ہے ‘یہی وجہ ہے کہ ان کے مخالفین نے اُن کے خطاب پر جو گرفت کی ہے ‘وہ اس حوالے سے ہے کہ بعض اہم موضوعات کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور قوم کو مشکلات سے نکالنے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں دیا‘لبرل حضرات کے لیے تو ویسے بھی اسلام کا کوئی حوالہ سوہانِ روح ہوتا ہے۔ احتساب اور تنقید حزبِ اختلاف کا حق ہے اور اگر وہ یہ نہ کریں تو اُن کا جواز باقی نہیں رہتا ۔جنابِ وزیر اعظم نے اپنے لیے اُسوہ اور قُدوہ یعنی آئیڈیل عہدِ رسالت مآب ﷺ اور عہدِ خلافتِ راشدہ کو قرار دیا ہے ‘یہ اُن کا حوصلہ ہے ‘ورنہ شیخ محمود نے کہا ہے:”چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک‘‘۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ پاکستان میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں رہے گا‘ رسول اللہ ﷺ نے تو اسے علامتِ قیامت کے طور پر بیان کیا ہے کہ یاتو مال کی کثرت کے سبب اس کی طرف میلان نہیں رہے گا یا انسان ایسی مشکلات میں گرفتار ہوگا کہ مال جیسی محبوب چیز بھی قابل توجہ نہیں رہے گی‘ واللہ اعلم بالصواب۔ مشورہ یہی ہے کہ اتنے بلند بانگ دعوے نہیں کرنے چاہئیں۔
ہمارے لوگ اپنے قائدین سے کوئی بڑی امیدیں وابستہ نہیں کرتے ‘چھوٹی چھوٹی طفل تسلیوں پر خوش ہوکر نعرے لگا دیتے ہیں ‘ یہ کام ہمارے واعظین اس سے بھی بدرجہا بہتر انداز میں کرتے ہیں اورسحرِ خطابت سے لوگوں کو عرش پہ پہنچادیتے ہیں‘ پھر جب خطابت کا سیلِ رواں تھمتا ہے اور وہ گھر کی طرف رواں ہوتے ہیں تو دامن میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ پس جنابِ وزیرِ اعظم کے خطاب کی بڑے پیمانے پر تحسین کا سبب یہ ہے کہ اس میں کم از کم کوئی قابلِ گرفت بات نہیں تھی ‘البتہ اہلِ دانش کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہنے کی گنجائش رہتی ہے‘ کیونکہ :”جائے استاد خالی است‘‘۔
ہم اقتصادی بدحالی کی فضا میں جنابِ وزیرِ اعظم کی نیک خواہشات ‘اُمنگوں اور قوم میں اعتماد پیدا کرنے کی روش کی تحسین کرتے ہیں ۔لیکن ہمیں ان کو عہدِ رسالت مآب ﷺ اور عہدِ خلافتِ راشدہ کا مظہر تسلیم کرنے میں تامّل ہے‘تردّد ہے اور کسی قسم کی خوش فہمی نہیں ہے ۔یہ پاکیزہ نفوس انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد انسانی تاریخ کا سب سے عظیم اثاثہ تھے ‘خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے براہِ راست تربیت یافتہ تھے ۔ہم اُس مقدس اور پاکیزہ دور سے تقابل کر کے جنابِ عمران خان کوملامت نہیں کریں گے ‘ اس میں زمین وآسمان کا فرق ہے‘ بُعد المشرقین ہے ‘کوئی تناسب ہی نہیں ہے کہ جانچنے اور تقابل کرنے کی جسارت کی جائے ۔ ہم جنابِ عمران خان کا تقابل اس منصب پر فائز اُن کے پیش روئوں سے کریں گے ‘ستّر سال سے زیادہ پیچھے نہیں جائیں گے ‘ زیادہ سے زیادہ شہیدِ ملت لیاقت علی خان تک جائیں گے ‘ میڈیا والوںنے قوم کے نام اُن کے خطاب کے کلپس اور شارٹس یقینا محفوظ کرلیے ہوں گے اور وہ اپنے شعار کے مطابق وقتاً فوقتاً اُن کویہ آئینہ دکھاتے رہیں گے ‘کیونکہ لوگوں کو اپنی ٹیلی ویژن اسکرین کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے یہ ان کی ضرورت ہے۔
ہمارا سیاسی جماعتوں سے گِلہ یہی ہے کہ وہ اقتدار کی دوڑ میں تو دیوانہ وار شریک ہوتے ہیں ‘لیکن نظامِ حکومت کو چلانے اور معیشت کی گاڑی کو ترقی کے ٹریک پررواں دواں رکھنے کے لیے نہ وہ ہوم ورک کرتے ہیں‘ نہ کوئی روڈ میپ تیار ہوتا ہے اورنہ انہیں ملکی مسائل کی سنگینی کا صحیح ادراک ہوتا ہے ‘اس لیے اقتدار میں آنے پروہ ٹامک ٹوئیاں مارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اُن کی مثال اُس شخص کی سی ہوتی ہے جو اچانک گہری نیند سے بیدار ہو تاہے اوراچانک ایک غیر متوقع منظر اُس کی نگاہوں کے سامنے آتا ہے تو وہ حیرت میں ڈوب کر آنکھیں ملتا ہوا رہ جاتاہے۔ہماری سیاسی جماعتوں کی اس بے عملی اور کسل مندی کا نتیجہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد مختلف شعبوں کے لیے ٹاسک فورسز بنائی جاتی ہیں ‘جناب عمران خان کوتوپختونخوا میں حکومت چلانے کا پانچ سالہ تجربہ تھا ‘سو انہیں وفاق اور پورے ملک کا اقتدار سنبھالنے کے لیے ضروری ہوم ورک پہلے سے کرنا چاہیے تھے ‘مناسب یہ تھاکہ ان کے پاس ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کی اصلاح اور نئی سمت کے تعیّن کے لیے عملی خاکہ پہلے سے تیار ہوتا۔
جنابِ وزیر اعظم نے نظام میں سادگی اور کفایت کی روِش کو اپنانے کے لیے کچھ علامتی اقدامات کا اعلان کیا ہے تاکہ لوگوں کو تبدیلی کا احساس ہو اورنظمِ اجتماعی میں کچھ نہ کچھ نیا نظر آئے ‘ یہ اقدامات قابلِ ستائش ہیں‘ مگر ملک کا اقتصادی بحران گمبھیر ہے ‘ ان سطحی اقدامات سے ہم بحران سے نہیں نکل پائیں گے ‘اس کے لیے حقیقت پسندی اور عملیت پر مبنی دیرپا پالیسی بنانی ہوگی۔یہ ملک ہم سب کا ہے ‘ میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ وقت کے صاحبِ اقتدار کو دشمن نہیں سمجھنا چاہیے ‘یہ غلطی ماضی میں جنابِ عمران خان بھی کرتے آئے ہیں ‘لیکن اب انہیں اپنی اور دوسروں کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے اُن سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔لازم ہے کہ عالمی حالات ‘وطنِ عزیز کے گِرد وپیش کی صورتحال ‘مسلم ممالک اور امتِ مسلمہ کی بے بسی‘ داخلی سلامتی ‘ دفاعی حساسیت اور اقتصادی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے حزبِ اقتدار واختلاف متفقہ طور پر کم از کم دس سالہ روڈ میپ تیار کریں ‘اس کے لیے اقتدار واختلاف کے امتیاز کے بغیر ملک میں موجودسیاسی واقتصادی دانش سے بہتر طور پر استفادہ کرکے اُسے ملک کے بہترین مفاد میں استعمال کریں ۔ہماری رائے میں جنابِ عمران خان کو اپنے پہلے خطاب میں ہی یہ پیشکش کرنی چاہیے تھی ‘اس کے لیے انہیں اپنے سیاسی مخالفین کے پاس چل کر بھی جانا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے‘ یہ روش اُن کی خود اعتمادی اور بڑے پن کا مظہر ہوتی‘اگر حزبِ اختلاف کی جماعتیں اُن کی اس پیش رفت کا مثبت جواب نہ دیتیں تو قوم انہیں ذمے دار گردانتی‘ اب بھی سب کچھ ہاتھ سے نہیں گیا۔
سِول انتظامیہ کو آہنی گرفت میں لینا یقینا وقت کی ضرورت ہے ‘بے لاگ جزا وسزا اور احتساب کا بھی شفاف نظام قائم ہونا چاہیے‘ لیکن دہشت کی فضا طاری نہیں ہونی چاہیے ۔بیوروکریسی کے پاس قدم قدم پر روڑے اٹکانے اور فائلوں پر سرخ فیتے کے نقش جمانے کے سو حربے ہوتے ہیں ‘تبدیلی کی علَم بردار قیادت کو تیز رفتاری سے اقدامات کرنے ہوتے ہیں ‘اس کے لیے رولز آف بزنس میں قانون سازی کے ذریعے بہتری لانی ہوگی تاکہ ضروری کام تیز رفتاری سے جاری رہ سکیں۔ حُسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے میں یہ رائے قائم کرسکتا ہوں کہ جنابِ شہباز شریف کو چونکہ کام میں تیزرفتاری مقصود تھی ‘اس لیے انہوں نے سُرخ فیتے کی رکاوٹوں سے بچنے کے لیے سرکاری شعبے میں کمپنیاں قائم کیں ‘ان کے بورڈز آف گورنر بنائے تاکہ جلد فیصلے ہوں ۔آج ان کایہی اقدام ان کے پائوں کی بیڑی اور گلے کا طوق بن چکا ہے ۔اگر وہ باقاعدہ قانون سازی کر کے یہ اقدام کرتے تو شاید انہیں یہ مشکل پیش نہ آتی اور نہ آئے دن نیب میں پیشی کی ذلت اٹھانی پڑتی‘ پس لازم ہے کہ قوانین کو سہل اور قابلِ عمل بنایا جائے ۔نیز یہ بھی مشورہ ہے کہ پچھلی حکومت نے عوامی مفاد کی جو سکیمیں شروع کر رکھی تھیں‘انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے‘ ان کو روکنا ان پر خرچ شدہ وسائل کا ضیاع ہوگا۔
مخالفین نے جنابِ عمران خان کی کابینہ کے چنائو پر بھی گرفت کی ہے کہ سب پرانے چہرے ہیں ‘کیسی تبدیلی اور کون سی تبدیلی ‘ اس معاملے میں انہیں معذور سمجھا جائے ‘ان کے پاس بھی دستیاب سیاسی اثاثہ یہی ہے اور انہی میں سے چنائو کرنا پڑتا ہے‘کوثر وتسنیم میں دھلے ہوئے پاکیزہ نفوس کہاں سے ملیں گے کہ ان کا ماضی شفاف اور قابلِ فخر ہو ‘لوگ دیکھتے ہی اُن پر اعتماد کربیٹھیں ‘کراچی کے ایک عالم اپنی تقریر میں کہا کرتے تھے : ”جس کی دُم اٹھائو وہی مادین نکلتا ہے ‘‘، بعض وزرا کے کارنامے ریکارڈ پر آچکے ہیں۔میں صاحبزادہ نورالحق قادری کے وزیرِ مذہبی امور مقرر کرنے پر جنابِ عمران خان اورصاحبزادہ صاحب کو تہِ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں‘وہ صاحبِ علم ہیں ‘شریعت وطریقت کا سلسلہ اُن کے خاندان میں چلا آرہا ہے ‘وہ پی ایچ ڈی ہیں ‘سابق وفاقی وزیر ہیں‘ تمام دینی مکاتبِ فکر کے رہنمائوں کے ساتھ ان کا باہمی احترام کا تعلق قائم ہے ‘وہ وضع دار آدمی ہیں ‘میری رائے میں پوری اسمبلی میں اس منصب کے لیے وہ بہترین انتخاب ہیں ‘میں اُن کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں۔