بالا ٓ خر قر عہ فا ل لا ہو ر کے بعض چیدہ چیدہ صحافیوں اور اینکر ز کے نام نکل آ یا جنہیں ہفتہ کووزیر اعظم میاں نواز شریف نے گو رنر ہا ؤس لاہو ر میں لنچ پرمد عو کر لیا۔ غالباً تین بر س میںیہ پہلا مو قع تھا کہ وزیر اعظم کو لا ہو ر کے صحا فیوں کی بھی یا د آ ئی ۔ قبل ازیںلا ہو ر میں سی پی این ای کے زیر اہتمام ایک ظہرانے کا اہتمام ضرور کیا گیا تھا لیکن اس میں سوالوں اور مشوروں کا معیا ر یہ تھا کہ ایک جنتری کے ایڈ یٹر نے میاں صاحب پر زور دیا کہ وہ منگل کے دن گو شت کا نا غہ ختم کرائیں کیونکہ اس روز خون نہ بہنا ان کے لیے بھا ری ہے۔ گورنر ہا ؤس میں ہو نے والی اس ملاقات میں وزیر اعظم کے دائیں گو رنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ اور بائیں وزیر اعلیٰ میاں شہباز شر یف بیٹھے تھے۔ اس ملاقات میں بھی صحافیوں کوبڑے محتاط انداز سے مدعو کیا گیا تھا اورزیا دہ تر مدعو ین موافق صحا فیوں پر ہی مشتمل تھے ۔بعض اخباری اطلاعات کے مطابق مدعوین کی قریباً نصف تعداد کا تعلق ایک ہی میڈیا گروپ سے تھا اورکئی گروپوں کے صحافیوں اور اینکروں کو سرے سے مدعو ہی نہیں کیا گیا،یقیناً صورتحال ایسی ہی تھی ۔نجانے حکومتی انفارمیشن کے بزرجمہر اس بنیادی حقیقت سے نا واقف کیوں ہیں کہ تندو تیز اور مخالفانہ سوالوں کے جواب میں حکمرانوں کو بہتر طور پر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔یہ ملاقات میاںصاحب کے دورمیں ہو نے والے تر قیا تی منصوبو ں کی بر یفنگ پر مشتمل تھی جس میں’ پا ناما لیکس‘کے علا وہ کچھ ادھر اُدھر کے سوالات بھی ہو گئے۔یہ تقر یب برادرم عطا ء الحق قاسمی جو پی ٹی وی کے چیئر مین بھی ہیں اور انہیں بدرجہ اتم قرب شاہ حاصل ہے کی کا وشوں کا ثمر تھا ۔یہـ’ پاناما لیکس‘کا ہی کمال ہے کہ چند روز پہلے میاںصاحب کو سات ما ہ بعد کا بینہ کا اجلا س بلانے کا خیا ل ا ٓیا ۔انھوں نے حکمران جما عت کے ارکان اسمبلی سے ملا قاتوں کا سلسلہ بھی شر وع کیا اور شنید ہے کہ وہ پا رلیمنٹ کے اجلاس سے بھی خطاب کر نے کا سوچ رہے ہیں ۔دوسر ی طرف ان کی را بطہ عوام مہم بھی جا ری وساری ہے جس میں وہ کا فی جا ر حا نہ انداز اختیا ر کیے ہوئے ہیں ۔
یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ فو جی قیا دت سے میاں صاحب کا ہنی مون اگر کبھی تھا تو وہ اب ختم ہو تا جا رہا ہے اور’پاناما لیکس ‘نے خاکی اورمفتی شر یف کے درمیان تعلقات میں خلیج کو وسیع تر کر دیا ہے۔ بر یفنگ میں مو جو د سیکرٹری پانی و بجلی یو نس ڈھا گا نے کمال مہارت سے بتا یا کہ میاں نو از شریف کی کا وشوں کے نتیجے میںجنوری 2018 ء تک ملک سر پلس بجلی پید اکر نے کے قابل ہو جا ئے گا اور اس طر ح لو ڈ شیڈ نگ سے نجا ت مل جا ئے گی۔ اسی طر ح تیل وقدرتی وسائل کے وزیر شاہد خا قان عباسی نے نو ید سنا ئی کہ ایل این جی کے پلانٹ لگنے اور دیگر منصوبوں کے ذریعے 2018ء تک گیس کی وافر فر اہمی ہو گی اور انکشا ف کیا کہ صنعتوںکے لیے لو ڈ شیڈ نگ ختم کردی گئی ہے۔ یقیناشا ہد خاقان عبا سی کا شما ر میاں صاحب کی ٹیم کے انتہا ئی محنتی اور مخلص ارکان میں ہو تا ہے ۔خو اجہ سعد رفیق نے بتایا کہ پاکستان ریلویز کی آمد نی ان کے چا رج سنبھا لنے کے بعد دگنی ہو گئی ہے۔ چیئرمین نیشنل ہا ئی ویز اتھا رٹی شا ہد اشرف تا رڑ نے بتا یا کہ کس طر ح مو ٹر ویز اور سڑکوں کا جا ل ملک بھر میں بچھا یا جا رہا ہے۔ جب کچھ ساتھیوں نے میاں صاحب کی اصلاحا ت اور فتو حا ت کے حوالے سے تعر یف و توصیف کے ڈونگرے بر سا لئے تو میں نے ان سے ایک بنیادی سوال کر نے کی جسا رت کر دی ۔ میرا میا ں صاحب سے سوال یہ تھا کہ ان کے تر قیا تی منصوبوں کی تکمیل سے 2017ء اور2018ء تک عوام کے وارے نیارے ہو جا ئیں گے لیکن” کو ن جیتا ہے تیری زلف کے سر ہو نے تک ‘‘میاں صاحب کو تو پہلے آج کی خبر کرنی چاہیے۔ ‘پاناما گیٹ‘ میں وزیر اعظم کے بچوں کے نام آنے کے بعد عمران خان ان کے خلا ف ملک گیر تحر یک چلا نے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں جس کا آغاز وہ لاہور سے کر رہے ہیں ۔ دوسر ی طرف آ رمی چیف جنر ل را حیل شر یف کے اس حا لیہ بیان کہ بے لا گ اور بلاامتیا ز احتسا ب وقت کی ضرورت بن گئی ہے اور اس کے فوری بعد دو جر نیلوں سمیت چند فو جی افسروں کی کر پشن کی بنا ء پر بر طر فیوں کی رو شنی میں کیا اب بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف اور را حیل شریف ایک صفحے پر ہیں؟ تو میاں صاحب نے سوال کا جو اب دینے کے بجا ئے اسے یو ں کہہ کر ٹا ل دیا کہ خو اجہ سعد رفیق جو ان کے ساتھ بیٹھے تھے وہ اس کا جو اب دیں گے۔ ظا ہر ہے کہ خو اجہ صاحب کیا جو اب دیتے، وہ آ ئیں ،بائیں،شا ئیں کر کے خامو ش ہو گئے ۔ میرے استفسا ر پر کہ خو اجہ صاحب کیا مو قف بیان کر رہے ہیں تو میاں صاحب نے ہنس کر کہا کہ وہ آپ کوجواب لکھ کر دے دیں گے ۔گو یا کہ میاں نواز شر یف نے براہ راست یہ تو نہیں کہا کہ فوج اور حکو مت ایک صفحے پر نہیں ہیں لیکن جواب دینے سے گر یز کر کے اشارہ دید یا کہ حکومت اور فوج اب ایک صفحے پر نہیں ہیں ۔ بعد ازاں میں نے میاں صاحب کی ٹیم کے ایک سینئر رکن سے پو چھا کہ میاں صاحب نے سوال کا جواب خو د کیوں نہیں دیا تو انہوں نے کہا کہ میاں صاحب کے ردعمل سے آپ کو سوال کا جواب تو مل گیا ہے ۔
میاں صاحب سے یہ سوال بھی پو چھا گیا کہ امریکی کا نگر س نے کیو نکر ایف 16 طیاروںکی ڈیل کے لیے امدادی رقم رو ک لی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کی صدر اوباما سے گز شتہ بر س اکتو بر میںہو نے والی ملا قا ت انتہا ئی خو شگوار رہی تھی اور وہ پاکستان کے کیس کو بخوبی سمجھتے ہیں لیکن کا نگرس کا معا ملہ کچھ اور ہے ۔جہاں تک میر ی اطلا عات کا تعلق ہے، اعلیٰ ڈپلو میٹک ذرائع کے مطابق امریکی کانگریس بضد ہے کہ اسامہ بن لادن کے کمپا ؤنڈز میں جا کر بلڈسیمپل لینے والے سی آئی اے کے ہرکارے شکیل آ فر یدی کو رہا کرکے امر یکہ کے حوالے کیا جا ئے۔ میاں صاحب نے پاکستان اور بھارت کے تعلقا ت کا بھی ذکر کیا، ان کا کہنا تھا کہ بھا رت سے تعلقا ت بہتر کر نے کے لیے مذ اکرا ت کی تجد ید کیے بغیر اور کو ئی چا رہ کار نہیں۔ یہ با ت اب واضح ہو تی جا رہی ہے کہ میاں صا حب اور فو جی قیادت کے درمیان خا رجہ پالیسی کی تر جیحات کے معا ملے میں فاصلہ توتھا ہی اب یہ اندرونی پالیسیوں میں بھی خا صا بڑ ھ چکا ہے ۔میاں صاحب بھا رت سے اقتصادی ،تجا رتی اور سیا سی تعلقا ت کے حامی ہیں لیکن افواج پاکستان کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ اسی بنا ء پر میڈیا میں ایک مخصوص لابی میا ں صاحب کو بھارت بلکہ ”را‘‘کا ایجنٹ کہنے سے بھی نہیںکتر اتی ۔ اسی طر ح شکیل آ فر یدی نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لا دن کی موجودگی کا بھا نڈا بیچ چورا ہے پھو ڑ دیا تھا ۔ اس کے خلا ف سی آ ئی اے کے لیے جا سوسی کے الز ام کے بجا ئے ملک دشمن سرگرمیوں کے الزام میں مقدمہ چلا کر سزا سنا ئی گئی تھی۔ بنیا دی بات یہ ہے کہ جنر ل راحیل شر یف بھی جنرل اسلم بیگ ،جنرل آ صف نو ازجنجو عہ،جنرل جہانگیر کر امت اور جنر ل پر ویز مشرف کی طر ح اس فہر ست میں شامل ہو گئے ہیں جن سے میاں صاحب کے تعلقات خو شگوار نہیں تھے۔ اس صورتحا ل میںجہاں میاں صاحب کوبھی اپنے رو یے میں اصلا ح کر نی چا ہیے وہاں عمران خان کی قیا دت میں وہ عنا صر جو ہر قیمت پرنواز شریف سے چھٹکا را چاہتے ہیں کو بھی ٹھنڈی کر کے کھا نی چاہیے ۔سو یلین حکومت کو کمزور سے کمزور تر کر نے سے جمہو ری اداروں کا استحکام مشکل ہوجا تا ہے جو نہ صر ف میاں صاحب بلکہ فو جی قیا دت کے لیے بھی کو ئی اچھا شگون ثابت نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی ترکی کے دورے سے وطن لوٹ چکے ہیں ۔اب بال عدالت عظمیٰ کے کورٹ میں ہے کہ وہ قابل اعتماد کمیشن تشکیل دے یقیناً ‘پاناما لیکس‘ کی تحقیقات کیلئے ٹی او آرز موثر ،با مقصد اور ٹائم باؤنڈ ہونے چاہئیںاس ضمن میں حکومت کو بھی صدق دل سے اس پراسیس کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ اسی میں اس کی بچت ہے۔