باکو میں تیسرا دن ہے۔ روانگی دوپہر کی ٹھہری ہے۔ یوں اس تحریر کے چھپتے چھپتے ہم اپنے وطن عزیز میں ہوں گے۔ موسم یوں تو دونوں دن خوشگوار رہا۔ مگر آنکھ کھلتے ہی ہوٹل کی پانچویں منزل سے خنک خوشگوار ہوائوں کے ساتھ دھیمی دھیمی پھوار بڑا لطف دے رہی تھی۔ رات ہی کو احکامات صادر ہو چکے تھے کہ ’’بسترا بوریا‘‘ ساڑھے سات بجے کمرے کے باہر رکھ دینا ہے اور ناشتہ صبح 9 بجے وزیراعظم کے ساتھ ہونا ہے۔ ناشتے کی میز پر پہنچنے سے پہلے ہی سرگوشی میں بتا دیا گیا تھا کہ ’’ایک سوال‘‘ کے علاوہ عمران خان کے دھرنے سمیت ہر سوال کی اجازت ہے۔ اب آپ کہیں گے یہ لیجئے ایک اور وہ بھی اصل سوال ہی جب گول ہو گیا تو باقی سوال و جواب سے ہمیں کیا دلچسپی۔ اب قارئین کرام کو کیا بتایا جائے کہ جناب ’’پروٹوکول‘‘ کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کے ساتھ سفر ہو تو ان کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ اور ہم تو برسوں پہلے ہی یہ گرہ میں باندھ چکے ہیں کہ…؎
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
سو روانگی کے دن کی صبح وزیراعظم کے ساتھ ناشتے سے ہوئی۔ اتنا کچھ سن رکھا تھا۔ اس لئے خیال تھا کہ سری پائے نہیں تو نہاری تو ضرور ہو گی۔ گجریلا ہو گا۔ لسی ہو گی۔ گردہ کلیجی، مغز کے ساتھ انڈوں کے آملیٹ کی ڈشیں تو ضرور ہوں گی۔ اس سے پہلے کہ میاں نواز شریف سے منسوب ان مرغن اور ان کے مرغوب ناشتے کا ذکر ہوتا وزیراعظم خود ہی کہہ بیٹھے کہ بھئی برسوں سے سری پائے، نہاری وغیرہ چھوڑ چکا ہوں۔ ساتھ بیٹھی بیگم کلثوم نے بھی تصدیق کی ’’کچن‘‘ کی نگرانی میں خود کرتی ہوں یہ صبح شام سری پائے نہاری چکھنا تو چھوڑیں دیکھے ہوئے برس ہا برس ہو گئے۔ ہماری نظریں بار بار گھڑی کی طرف جا رہی تھیں کہ وزیراعظم کے ساتھ یہ بے تکلف ناشتہ کی نشست کہیں ’’سری پائے‘‘ میں نہ نکل جائے۔ مگر ساتھ بیٹھے ایک سینئر صحافی نے استفسار کیا کہ وزیراعظم مودی تو مسئلہ کشمیر پر اتنے مشتعل ہیں کہ وہ اس کے لئے ’’طبل جنگ‘‘ بجانے تک کی دھمکی دے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ اب ہم دو ملکوں کا نہیں جس بڑے پیمانے پر کشمیری قربانی دے رہے ہیں۔ اُس میں اب اقوام عالم زیادہ دیر تک چپ نہیں بیٹھ سکتی ’’اُڑی‘‘ کے بارے میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گھنٹہ تو چھوڑیں ابھی منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ ہم پر الزام عائد کردیا گیا کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے۔ وزیراعظم نے کشمیر پالیسی پر انتہائی وضاحت سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی بات کو اس طرح سمیٹا کہ اب بھی پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ دونوں ممالک پُرامن طریقے سے تمام مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔ مگر ’’بہرحال‘‘ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ اس خیال سے کہ گفتگو زیادہ سنجیدگی پکڑ رہی ہے۔ وزیراعظم کہنے لگے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ہمارے مخالف نعرہ لگا رہے ہیں کہ مودی کا جو یار ہے۔ غدار ہے غدار ہے۔ وہاں انڈیا میں نعرہ لگ رہا ہے کہ شریف کا جو یار ہے۔ غدار ہے غدار ہے۔ کشمیر کے بعد تحریک انصاف کے دھرنے پر تو سوال ہوتا ہی تھا۔ جس کا جواب وزیراعظم کی طرف سے یہی آتا تھا کہ وہ پاکستان بند کرنے کی سیاست کررہے ہیں۔ ہم پاکستان کھولنے کی سیاست کررہے ہیں۔ دھرنے کے بعد لوڈشیڈنگ اور انرجی کرائسس کے بغیر تو گفتگو مکمل ہوتی ہی نہ تھی ان سوالوں کے جواب پر وزیراعظم نے کہا کہ 2018ء تک ہم 10 ہزار میگاواٹ مزید بجلی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ کہ ہمیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ مخالفین کے پاس 2018ء کے الیکشن میں سب سے بڑا نعرہ ’’لوڈشیڈنگ‘‘ کا ہوگا۔ ناشتے کی میز پر ہر پلیٹ ہمیں للچاتی نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ کب ہم اس پر توجہ دیں۔ مگر یوں بھی ہماری تو اتنی تفصیل سے اور اتنے قرب سے پہلی ملاقات تھی۔ ناشتہ تو سوچا ساتھ باندھ لیں گے ورنہ 12 بجے خصوصی پرواز میں تو صرف کھانا۔ سونا ہی ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ ناشتے کا اختتام یقینا خوشگوار تھا کہ ان دنوں میڈیا والوں سے حکمرانوں کی گفتگو جس موضوع پر جہاں بھی ہو کوئی خاص خوشگوار ماحول میں اس کا اختتام نہیں ہوتا۔
ہوٹل سے پارلیمنٹ اور پھر موجودہ صدر کے والد اور ریاست آذربائیجان کے بانی کی قبر پر حاضری کے بعد باکو ائرپورٹ پر واپسی موسلادھار نہیں تو اچھی خاصی بارش میں ہوئی۔ یہ لیجئے۔ باکو‘‘ پیچھے رہ گیا۔ اب آنکھوں کے سامنے اپنا وطن اپنا شہر ہے۔ جہاں بدقسمتی سے ’’اچھی خبروں کا فقدان ہوتا ہے‘‘ مگر باکو یا کوئی بھی شہر کتنا ہی خوبصورت اور دلکش کیوں نہ ہو واپس تو اپنے وطن ہی پلٹنا ہے۔
پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا
وہ کوچہ ٔ روکشِ جنت ہو ‘گھر ہے گھر پھر بھی