وعدہ خلافی…علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
ہمارے معاشرے میں جوقباحتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی قباحت وعدہ خلافی یا کسی سے کیے ہوئے معاہدے کو جانتے بوجھتے ہوئے پورا نہ کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں وعدہ خلافی کا اظہار زندگی کے بہت سے شعبوں میں ہوتا ہے۔ کاروباری معاملات میں عام طور پر وعدے کو وقت گزارنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جب کہ انسان کی نیت سرے سے رقم کی ادائیگی کی نہیں ہوتی اور ہر مقررہ تاریخ کو دوبارہ ایک نیا وعدہ کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی خریدار اُدھار چیز لے کر بیچنے والے کو لمبے عرصے تک ذہنی اذیت اور اس کے کاروبار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے اخلاق باختہ نوجوان عورتوں کی آبروریزی کے لیے شادی کے وعدے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد وعدہ پورا کیے بغیر چلتے بنتے ہیں۔ اس وعدہ خلافی کے نتیجے میں بہت سی عورتیں نہ صرف یہ کہ اپنی عزت سے بھی محروم ہوجاتی ہیں بلکہ اپنے مستقبل کو بھی تاریک کر بیٹھتی ہیں۔ اسی طرح سیاسی سطح پر بھی انتخابات لڑنے والے بہت سے لوگ اپنے حلقے کے عوام سے جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹے وعدے کرتے ہیںا ور الیکشن جیتنے کے بعد ان وعدوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ اگلے انتخاب کے موقع پر وعدے پورے نہ کرنے کے حوالے سے مختلف عذر تراشے جاتے ہیںاور ازسرنو جھوٹے وعدے کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ یہی حال سیاسی جماعتوں کا بھی ہے کہ وہ عوام کے ساتھ مختلف طرح کے وعدے کرتی ہیں اور جیتنے کے بعد کیے گئے وعدوں کو بالعموم پورا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ بعدازاں نئے انتخابات کے موقع پر سابقہ وعدوں کے حوالے سے کچھ نئے عذر تراش لیے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ مختلف تقریبات میں بھی وعدہ خلافی کا اظہار ہوتا ہے۔ بہت سے اہم لوگ کسی تقریب میں شرکت کا وعدہ کرنے کے باوجود جب تقریب میں شرکت نہیں کرتے تو بلانے والوں کو شدید کوفت اور سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
قرآن وسنت میں وعدے کے حوالے سے بہت سی خوبصورت باتیں بیان کی گئی ہیں جنہیں میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر34 میں ارشاد ہوا: ”اور پورا کرو (اپنے) عہد کو بے شک عہد (کے بارے میں ) باز پرس ہو گی۔ ‘‘
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 177 میں اللہ کریم پرہیز گاروں کی شفاعت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”اور زکوٰۃ ادا کرنے اور پورا کرنے والے ہوں اپنے عہد کو جب (بھی) وہ عہد کریں ۔ ‘‘سورہ بقرہ کی آیت نمبر40 میں اللہ تبارک وتعالیٰ بنی اسرائیل کو مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں : ”اے بنی اسرائیل یاد کرو میری نعمت کو میں نے انعام کی ہے تم پر اور پورا کرو میرے عہد کو ، میں پورا کروں گا تمہارے عہد کو اور پس صرف مجھ ہی سے ڈرو۔ ‘‘سورہ انعام کی آیت نمبر152 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:”اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو اس حال میں (کہ) اگرچہ ہو قرابت والا اور اللہ کے عہد کو پورا کرو، یہ (اللہ نے ) وصیت کی ہے تمہیں اس کی تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ ‘‘اسی طرح سورہ مائدہ کی پہلی آیت میں ارشاد ہوا : ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! پورا کرو عہدکو۔‘‘
قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث طیبہ میں بھی وعدے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ وعدہ پورا کرنے کی تلقین اور وعدہ خلافی کی مذمت میں صحیح بخاری شریف کی چند احادیث در ج ذیل ہیں:
1۔”آپﷺ نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ ‘‘
2۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں بھی وہ ہوں گی، وہ منافق ہو گا۔ یا ان چار میں سے اگر ایک خصلت بھی اس میں ہے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے، اور جب جھگڑے تو بد زبانی پر اتر آئے۔
3۔ اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ آپ ﷺ قرض سے بہت ہی زیادہ پناہ مانگتے ہیں! اس پر آپ ﷺنے فرمایا کہ جب کوئی مقروض ہو جائے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلاف ہو جاتا ہے۔
4۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا :”کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت کو میں خود مدعی بنوں گا۔ ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام پہ عہد کیا، اور پھر وعدہ خلافی کی۔ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی کو مزدور کیا، پھر کام تو اس سے پورا لیا، لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔ ‘‘
5۔ جابر بن عبداللہ ؓ بیان فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا :”اگر بحرین سے ( جزیہ کا ) مال آیا تو میں تمہیں اس طرح دونوں لپ بھربھر کر دوں گا لیکن بحرین سے مال نبی کریم ﷺکی وفات تک نہیں آیا ۔ پھر جب اس کے بعد وہاں سے مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اعلان کرا دیا کہ جس سے بھی نبی کریم ﷺ کا کوئی وعدہ ہو یا آپ پر کسی کا قرض ہو وہ ہمارے یہاں آ جائے۔ چنانچہ میں حاضر ہوا۔ اور میں نے عرض کیا کہ نبی کریمﷺنے مجھ سے یہ بات فرمائی تھی ۔ جسے سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا۔ میں نے اسے شمار کیا تو وہ پانچ سو کی رقم تھی۔ پھر فرمایا کہ اس کے دو گنا اور لے لو۔‘‘
6۔حضرت سعید بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ حیرہ کے یہودی نے مجھ سے پوچھا، موسیٰ علیہ السلام نے (اپنے مہر کے ادا کرنے میں ) کون سی مدت پوری کی تھی؟ ( یعنی آٹھ سال کی یا دس سال کی، جن کا قرآن میں ذکر ہے ) میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں، ہاں! عرب کے بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھ لوں ( تو پھر تمہیں بتا دوں گا) چنانچہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ نے بڑی مدت پوری کی ( دس سال کی ) جو دونوں مدتوں میں بہتر تھی۔ رسول اللہﷺ بھی جب کسی سے وعدہ کرتے تو پورا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے وعدہ پورا کرنے کے دوران 8 سال کی بجائے 10سال کی مدت کا انتخاب کیا۔ حالانکہ اگر آپ 8 سال کی مدت پوری کرتے تب بھی آپ کا وعدہ پورا ہو سکتا تھا۔ لیکن آپ نے لمبی مدت کا چناؤ کرکے اہل ایمان کو احسن طریقے سے وعدہ پورا کرنے کی رغبت دلائی۔
7۔حضرت سعید بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے پچھلی امتوں میں سے ایک شخص کا ذکر کیا۔ اس کے متعلق آپﷺنے ایک کلمہ فرمایا یعنی اللہ نے اسے مال و اولاد سب کچھ دیا تھا۔ جب اس کے مرنے کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے لڑکوں سے پوچھا کہ میں تمہارے لیے کیسا باپ ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بہترین باپ، اس پر اس نے کہا کہ لیکن تمہارے باپ نے اللہ کے ہاں کوئی نیکی نہیں بھیجی ہے اور اگر کہیں اللہ نے مجھے پکڑ پایا تو سخت عذاب کرے گا تو دیکھو جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا، یہاں تک کہ جب میں کوئلہ ہو جاؤں تو اسے خوب پیس لینا اور جس دن تیز آندھی آئے اس میں میری یہ راکھ اڑا دینا۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اس پر اس نے اپنے بیٹوں سے پختہ وعدہ لیا اور اللہ کی قسم کہ ان کے لڑکوں نے ایسا ہی کیا، جلا کر راکھ کر ڈالا، پھر انہوں نے اس کی راکھ کو تیز ہوا کے دن اڑا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ”کن‘‘ کا لفظ فرمایا کہ ہو جا تو وہ فوراً ایک مرد بن گیا جو کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے بندے! تجھے کس بات نے اس پر آمادہ کیا کہ تو نے یہ کام کرایا۔ اس نے کہا کہ تیرے خوف نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ اس پر رحم کیا۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچوں نے اپنے باپ سے کیے ہوئے عہد کو اس کی موت کے بعد بھی پورا کیا۔ چنانچہ اولادکو اپنے والدین سے کیے ہوئے وعدوں کو ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی موت کے بعد بھی پورا کرنا چاہیے۔ بشرطیکہ یہ وعدے کتاب وسنت کے خلاف نہ ہوں۔
کتاب اللہ کی مذکورہ بالا آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں ہر صورت میں اپنے وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس حوالے سے کی جانے والی جدوجہد ہماری دنیا وآخرت کی کامیابی کا سبب بن سکتی ہے اورا س سلسلے میں کی جانے والی کوتاہی کے نتیجے میں ہمیں دنیا اور آخرت میں نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔