وقت کا دھارا…ھارون الرشید
سیاست میں‘ اجتماعی حیات میں اصل اہمیت بیانات اور ارادوں کی نہیں‘ حالات کی ہوتی ہے۔ اس چیز کی کہ وقت کے دھارے کا رخ کیا ہے۔
سیاسی طور پر یہ ایک ایسی صورت حال ہے کہ کوئی پیش گوئی مستقبل کے بارے میں ممکن نہیں۔ حالات تغیر پذیر ہیں اور کئی لحاظ سے۔ کھلاڑی ناقابل اعتبار ہیں‘ یکسر ناقابل اعتبار۔
اطلاع دینے والا ذریعہ قابل اعتبار نہ ہوتا تو اس خبر پر یقین نہ آتا کہ چند روز قبل میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری میں ایک خفیہ ملاقات ہوئی۔ مہم جو نجم سیٹھی اور ان کی خوش گفتار اہلیہ کی کوشش سے ان کے دولت خانے پر۔ اس کے سوا کہ واضح طور پہ تردید ہو جائے اور شواہد مہیا کر دیئے جائیں‘ اس اطلاع پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ سیاست میں مستقل دوستی اور مستقل دشمنی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ سیاست دان کاروباری لوگوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ذاتی فائدے کے لیے وہ بروئے کار آتے ہیں۔ ہر حال میں نقصان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
غلطیوں کا ارتکاب بھی وہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کی قیمت بھی چکاتے ہیں۔ لیکن عمران خان ایسے لوگ مستثنیات کے طور پر ہوتے ہیں‘ خوش فہم اور خوابوں کی دنیا میں رہنے والے۔ چھوٹا یا بڑا‘ خدا کی اس وسیع و عریض کائنات میں ہر آدمی کا ایک کردار ہے۔ ہر حال میں یہ کردار اسے نبھانا ہے۔ فرمایا: جہاں جہاں تم نے رکنا اور ٹھہرنا ہے اور جہاں تم نے پہنچنا ہے‘ پہلے سے ہم نے لکھ رکھا ہے۔
جب یہ دعویٰ کرتے کہ ریحام خاں کی کتاب سے عمران خان کا کچھ نہ بگڑے گا تو کپتان کے حامی خوش خیالی کا شکار تھے یا خود کو دھوکا دے رہے تھے؟ ممکن ہے وقت گزرنے کے بعد تلافی ہو سکے۔ ممکن ہے کہ کوئی نکتہ کسی کو سوجھے اور بساط الٹ جائے۔ ممکن ہے میاں محمد نواز شریف‘ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے علاوہ دامادوں کے کارنامے منظر عام پر آئیں تو کپتان کے خلاف مہم کا زور ٹوٹ جائے۔ قابل فہم یہ بھی ہے کہ عدالت اس کتاب کی اشاعت پر پابندی لگا دے۔ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ برطانیہ میں اگر یہ چھپے تو ریحام خاں کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ الزام ایک چیز ہے اور ثابت کرنا بالکل دوسری۔ عمران خان اور معزز خواتین و حضرات کے خلاف ریحام خاں شواہد اگر مہیا نہ کر سکیں تو جائیداد کی قرقی ہو یا جیل جانا پڑے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا: مسترد کی ہوئی خاتون کا جذبۂ انتقام۔ بدلہ لینے اور حریف کو برباد کرنے کی خواہش میں اس محترم خاتون نے اس طرح خود کو جھونک دیا ہے‘ دوسروں کو کتنا بھی نقصان پہنچے‘ خود اس کا کچھ بھی نہیں بچے گا۔ اگر وہ متن درست ہے‘ انٹرنیٹ پہ جو گردش کر رہا ہے… اور بظاہر درست ہے تو مصنفہ کی ایک نہایت ہی بھیانک تصویر اس میں سے ابھرتی ہے۔ خوئے انتقام کی پاگل کر دینے والی شدت ہی نہیں بلکہ ایک بھیڑیے کی سی وحشت کے ساتھ مخالف کو‘ اس کے تمام عزیز و اقربا اور جاننے والوں کو چیر پھاڑ دینے کی خواہش۔
بیسویں صدی کے علمی مجدد علامہ اقبالؔ کے ہاں ایک وسعت اور کشادگی ہے۔ کہا جاتا ہے: مجدد وہ شخص ہوتا ہے جو ماضی کے مکمل تجزیے پر قادر ہو۔ اپنے عہد میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب دے سکے اور مستقبل کے لیے اشارات چھوڑ جائے۔ اقبالؔ ایسے ہی تھے‘ اپنے عہد کی تقسیم اور تعصبات سے بالا۔ زمین نہیں آسمان سے زندگی کو دیکھنے والے۔ عمر بھر وہ کسی بھی لثانی یا علاقائی فتنے میں الجھے اور نہ مذہبی مکاتبِ فکر کے خار زاروں میں۔ باایں ہمہ دو موضوعات ایسے ہیں جہاں شاعر برہم نظر آتا ہے۔ ایک تو امت سے غداری کا ارتکاب کرنے والے عالم عرب کے لیڈر‘ انگریزوں کے اکسانے پر ترکوں کے خلاف جو اٹھ کھڑے ہوئے۔ ادنیٰ خواہشات کے غلام‘ اقتدار کے بھوکے۔ شریفِ مکہ کے بارے میں کہا تھا: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی… اور یہ کہا تھا:
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرہ
برصغیر میں اپنے اکثر ہم عصر سیاست دانوں کے بارے میں بھی ان کی رائے یہی تھی؛ چنانچہ اپنی ایک نظم میں شیطان کی زبان سے وہ یہ کہلواتے ہیں۔
جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
مطلب یہ نہیں کہ کاروبار سیاست بجائے خود باطل ہے؛ اگرچہ جمہوریت کا مغربی ماڈل پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش ایسے ملکوں کو سازگار نہیں۔ مگر جمہوریت کے سوا راستہ بھی کیا ہے۔ جمہوریت اگر ہے تو ظاہر ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی ہوں گی۔ پانی یہیں مرتا ہے۔ کچھ بھی ہو سکتی ہیں مگر یہ سیاسی پارٹیاں ہرگز نہیں۔ سیاسی جماعت وہ ہے جس کی واضح ترجیحات اور واضح لائحہ عمل ہو۔ نیچے سے اوپر تک جس کے تمام عہدیدار پارٹی کارکنوں کی مرضی سے چنے جائیں۔ جس میں قومی پالیسیوں کی تشکیل کے لیے‘ بحث مباحثے کا عمل پیہم جاری رہے۔ کارکنوں کی تربیت کی جاتی رہے‘ حتیٰ کہ پوری طرح ان کی صلاحیت اجاگر ہو کر قومی تعمیر کا اثاثہ بن سکیں۔ کونسلر سے لے کر ارکانِ اسمبلی اور ارکانِ اسمبلی سے لے کر وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم تک کا انتخاب‘ باہمی مشاورت سے انجام پائے۔ کیا ملک میں ایسی کوئی سیاسی پارٹی موجود ہے۔ مولانا مفتی محمودؒ جاتے جاتے اپنی جماعت صاحبزادے کو سونپ گئے۔ اپنے مکتبِ فکر اور اس پارٹی کے ساتھ جو کچھ انہوں نے کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ صرف پارٹی ہی نہیں تمام خیالات و نظریات‘ عقائد اور ترجیحات بھی ان کے سر میں ٹھونس گئے۔ اسفند یار‘ عبدالولی خاں اور عبدالولی خاں باچا خاں کے فرزند تھے۔ نسل در نسل ایک ہی خاندان کے چرواہے اور وہی بھیڑیں اور وہی ریوڑ۔ بھٹو کی وراثت ان کی اہلیہ‘ اہلیہ سے دخترِ نیک اختر اور ان سے شوہرِ نامدار کو منتقل ہوئی اور کل فرزندِ ارجمند کو منتقل ہو جائے گی۔ اس قوم پر افسوس‘ صد ہزار بار افسوس‘ نسل در نسل اپنے گلے میں غلامی کا طوق جو پہنے رکھتی ہے۔ کہنے کو اس قوم میں دانشور بھی پائے جاتے ہیں اور علما کرام بھی۔ علما وہی ہیں: خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں/ ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق… اور دانشور وہ ہے‘ جس کی تصویر جوش ملیح آبادی نے کھینچی تھی۔
کوئی مشتری ہو تو آواز دے
میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں
زرداری اور شریف خاندان سے تو کبھی کسی ہوش مند کو کوئی امید تھی ہی نہیں۔ ہاں! قسمت اور مایوسی کے ماروں کو‘ جو نہ اللہ سے کوئی امید رکھتے ہیں اور نہ اس کے بندوں سے کوئی حسنِ ظن۔ ایک تاریخی موقع عمران خان اور اس کے ساتھیوں کو ملا تھا جو انہوں نے ضائع کر دیا۔ وہ ایک شاندار جمہوری جماعت تشکیل دے سکتے تھے۔ لاکھوں نہ سہی 23 برس میں ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دے کر ایسی ایک کھیپ وہ تیار کر سکتے تھے۔ ملک کو دلدل سے نکال کر جو عصرِ جدید میں لے جائے‘ اس کی اخلاقی اور علمی تعمیر نو کرے۔ سارا وقت کھو دیا گیا۔ اقتدار شاید اب بھی انہیں مل جائے لیکن ایک نئے معاشرے کی تشکیل کا خواب وہ پورا نہیں کر سکتے۔ ریحام خاں جیسی‘ اشارۂ ابرو پر‘ ادنیٰ مفادات کے لیے بروئے کار آنے والی ایک عام سی خاتون‘ اگر ایک پوری کی پوری پارٹی کو ایک گندی بحث میں الجھا سکتی ہے تو کوئی بڑی امید کس طرح ان لوگوں سے وابستہ کی جائے۔ اتنی بڑی سیاسی پارٹی میں کوئی ایک شخص نہ تھا‘ کوئی ہنگامہ جسے سوجھتا۔ توجہ ہٹانے کی کوئی تدبیر جس کے ذہن میں آتی۔ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق/ نوحۂ غم ہی سہی نغمہ ٔ شادی نہ سہی۔
زرداری شریف ملاقات کا نتیجہ کیا ہو گا‘ اللہ جانے۔ اللہ جانے ایجنڈا کیا تھا۔ اللہ جانے نجم سیٹھی اور ان کی اہلیہ نے کس کے کہنے پر یہ اقدام کیا۔ ان کا اور ان کی پشت پہ کارفرما طاقتوں کی ترجیح کیا ہے۔ جہاں تک اس ناچیز کا تعلق ہے‘ چیف الیکشن کمشنر کہیں یا چیف جسٹس 25 جولائی کو ایک پُرامن قومی الیکشن کا انعقاد اسے دکھائی نہیں دیتا۔
سیاست میں‘ اجتماعی حیات میں اصل اہمیت بیانات اور ارادوں کی نہیں‘ حالات کی ہوتی ہے۔ اس چیز کی کہ وقت کے دھارے کا رخ کیا ہے۔