ووٹر جاگ اٹھا ہے!….کنور دلشاد
پشاور‘ بنوں‘ڈیرہ اسماعیل خان اورمستونگ کے خونیں سانحات کے بعد 25 جولائی کے انتخابات سے متعلق خدشات صرف ایسے عناصر کی طرف سے ظاہر کئے جا رہے ہیں جن کی انڈیا سے ذہنی ‘ قلبی ‘ سیاسی ‘ معاشی اورخارجی وابستگی ڈھکی چھپی نہیں۔یہ وہ ہیں‘ جن کے آبائو اجداد نے 1971ء میں پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو خطوط لکھے۔سارک ممالک کی جانب سے جو میڈیا چارٹر بنایا گیا ہے‘ اس کی آڑ میں ملک میں ان دانشوروں کی عملی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے معاشی معاملات کی دیکھ بھال کے لئے بھی وافر معاونت کی جا رہی ہے‘ جن کے فورم پر کھڑے ہو کر نواز شریف نے دو قومی نظریہ کو لاہور میں دفن کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی اور رہی سہی کسر کراچی میں دیوالی فنکشن میں پوری کر دی ۔ اب ان حلقوں کی طرف سے افواہ پھیلائی جا رہی ہے کہ خوف و ہراس کی اس فضا میں ووٹنگ کے تناسب میں کمی آئے گی ۔ ان کے خدشات کو مد نظر رکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت ہی ان خونیں المناک سانحات کی پشت پر کھڑا ہوا ہے ۔ میرے خیال میں سارک کے نمائندوں نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے دوران بلا وجہ تاویلات دیں کہ انتخابات میں مرضی کے نتائج کے لئے کھلی اور جارحانہ مہم چلائی جا رہی ہے اور سکیورٹی فورسز کو غیر معمولی اختیارات دیئے گئے ہیں۔ یہ کہ اتنی بڑی تعداد میں سکیو ر ٹی فورسز کی موجو دگی سے ووٹر میں خوف و ہراس پیدا ہوگا اور ایسا بھی خدشہ ہے کہ سکیورٹی عملہ ووٹرز کو خوف زدہ کرے‘ ان پر دبائو ڈالے اور اثر انداز ہونے کی کوشش کرے۔چیف الیکشن کمشنر نے ان کے غلط مفروضات پر مبنی نام نہاد خدشا ت مسترد کر دیئے ہیں ‘ لیکن اس کی تہہ میں کتنی خطرناک مہم چلائی جا رہی ہے ۔اس کا اندازہ شاید کسی کو نہیں ہوا‘ جیسا کہ ظاہر ہو چکا ہے کہ 13جولائی کو لاہور کا سیاسی شو گیا‘ اب اگر 25جولائی کو ان کو شکست ہوتی ہے تو یہی خدشات قوم کے سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی کہ کسی ادارے کی وجہ سے ان کے حامی ووٹ کاسٹ کرنے کے حوالے سے رکاوٹوں کے شکار ہو گئے ۔ ان خدشات کے پیش نظر میں نے آرمی چیف کو پیغام پہنچایا تھا کہ موجودہ تناظر میں سابق حکمران جماعت نفسیاتی مریض بن چکی ہے ‘ پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر آنے سے گریز کریں کیونکہ سوائے 1993ء کے الیکشن کے کسی بھی انتخابی عمل میں افواجِ پاکستان کو پولنگ سٹیشن کے اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس وقت بھی ایم کیوایم نے افواجِ پاکستان کی کار کردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔میری تجویز یہ تھی کہ آئین کے آ رٹیکل 245کے تحت افواج پاکستان کو طلب کیا جائے اور نگران حکومت کی ایما پر ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ سارک وفد کے خدشات دور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ انتخابات کے انتظامات ‘پولنگ اور نتائج مرتب کرنے میںافواج پاکستان مکمل طور پر الگ تھلگ رہیں گی ‘ لیکن اس کے باو جود سابق حکمران جماعت کے خدشات اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ 13جولائی کو پنجاب کی ناا ہل کابینہ نے جو اقدامات کیے اس سے تو یہ نظر آتا ہے کہ 25جولائی کے انتخابات کو پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی نا کام حکمت عملی کے پیش نظر متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔13جولائی کی ناکام منصوبہ بندی کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صوبائی وزیر داخلہ ‘ صوبائی وزیر اطلاعات اور صوبائی وزیر خزانہ کو بر طرف کرنے کی سفارش کرنی چاہئے تھی ‘کیونکہ ان کے سیاسی بیانات سے نگران سیٹ اپ کی غیر جانبداری پر حرف آیا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ماضی کے بر عکس اس مرتبہ اچھے اور مثالی اقدامات کیے ہیں ‘ضابطہ اخلاق کو موثر بنانے میں آئین کی بعض شقیں ڈال دی گئی ہیں اور عوامی ادارے کے لئے بھی ضابطہ اخلاق بنا کر ان کے اختیارات کی حد بندی کر دی گئی ہے ۔
25جولائی کے انتخابات کے بعد پنجاب 1970ء کے سحر سے نکل جائے گا۔ اب پنجاب میں ایک نئی سیاسی لہر پیدا ہوگی۔ پنجاب پرانے نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اہے ۔ میرے خیال میں اس دفعہ ووٹرز کا جوق در جوق ہجوم ہوگا۔ میں نے 29دسمبر 2008ء کو بنگلہ دیش کے انتخابات میں ووٹروں کا بے پناہ ہجوم پولنگ سٹیشنوں پر دیکھا تھا۔ مرد اور عورتیں ایک لائن میں کھڑے تھے۔ وہاں عورتوں کے لئے علیحدہ لائن کا رواج نہیں ہے ۔ پولنگ کا وقت صبح سات بجے کاتھا ‘ سردی اور دھند کے باوجود صبح 6بجے ووٹرز پولنگ سٹیشن کے باہر لائن بنائے کھڑے تھے ‘ اور پولیس کا ایک سپاہی ایک چھوٹی سی چھڑی کے ساتھ کھڑ ا تھا‘انتہائی منظم طریقے سے ووٹنگ ہو رہی تھی۔ ایک پولنگ سٹیشن پر سات ہزار ووٹ ڈالنے کے انتظامات تھے ۔بنگلہ دیش کے ضابطہ اخلاق کے تحت امید وار کو صرف اسی پولنگ سٹیشن پر جانے کی اجازت تھی جہاں اس کے ووٹ کا اندراج تھا ‘ ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد دوبارہ پولنگ سٹیشن پر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ نگران حکومت کے وزرا کو پولنگ سٹیشنوں کا دورہ کرنے کی ممانعت تھی ۔ انتہائی پر امن طریقے سے ووٹنگ کے شاندار انتظامات دیکھے ۔ بنگلہ دیش کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اطمینان کا اظہار کیا‘ کسی سیاسی پارٹی نے دھاندلی کے الزامات نہیں لگائے ۔ حسینہ واجد کا گروپ کامیاب ہوا۔ میرے تجزیئے کے مطابق آج ہونے والے انتخابات میں ٹرن آئوٹ 65فیصد سے زائد ہونے کے امکانات ہیں اور اگرکسی پارٹی نے گڑ بڑ کی کوشش کی تو ملک افرا تفری ‘ انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا ۔
پاکستان کی سیاست میں لوٹا کی اصطلاح بہت استعمال کی جاتی ہے ‘سیاست میں یہ اصطلاح سب سے پہلے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے ڈاکٹر محمد عالم کے بارے میں استعمال کی تھی‘ جو آل انڈیا مسلم لیگ کے قد آور راہنماتھے۔مولانا نے ڈاکٹر محمد عالم کو انتہائی کم وقت میں آل انڈیا مسلم لیگ چھوڑ کر اتحاد المسلمین جوائن کرنے اور پھر اسے چھوڑ کر کانگریس میں چلے جانے پر لوٹاکہا تھا۔ڈاکٹر محمد عالم لاہور کے رہنے والے تھے اور لفظ لوٹا پھر عمر بھر ان کے ساتھ رہا‘ یہاں تک کے ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی لوگوں نے ان کی قبر پر لوٹے رکھ دیئے تھے۔ پاکستان میں سکندر مرز اکے دور میں پارٹیاںتبدیل کرنے والے سیاستدانوں کے لئے لوٹا کالفظ استعمال ہوا ‘ ملک میں وفا داریاں بدلنے والے سیاستدانوں کے لئے 1940ء کی دہائی میں لفظ لوٹاکی پکار عوام میں مقبول ہوئی۔ با قاعدہ طور پر منظور وٹو کو لوٹا کہہ کر پکارا گیا‘ جب انہوں نے غلام حیدر وائیں کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانے کے لئے کئی ارکان کو ساتھ ملایا ۔ یہی ارکان اسمبلی تھے جو بعد ازاں منظور وٹو کو چھوڑ کر چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ جا ملے اور پھر لوٹا کہلائے ۔ میاں نواز شریف کے سابق دور (1997ئ) میں ترمیم کر کے لوٹا کریسی کو روکنے کی کوشش کی گئی ۔ ملک میں ہر دور میں وفا داریاں تبدیل کرنے والے سیاستدان رہے ہیں ‘ لوٹا لوٹنے سے نکلا ہے جس کا مطلب ایسابرتن جس کا پیندا نہیں ہوتا ‘ادھر ادھر بھٹکتا رہتاہے ‘ دائرے میں چکر لگاتا رہتا ہے۔ پاکستان کے فوجی ادوار میں پارٹیاں بدلنے والے سیاستدانوں کے لئے لوٹا کا لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوا۔ مگر یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ ان انتخابات میں خاموش ووٹر جاگ اٹھا ہے اور ٹرن آئوٹ 65فیصد کے لگ بھگ ہونے کے امکانات ہیں ‘ پاکستان میں موروثی سیاست کا خاتمہ خاموش ووٹرز کے ذریعے عمل میں آئے گا ۔