ووٹ بینک….الیاس شاکر
”ووٹ کو عزت دو‘‘… یہ وہ نعرہ ہے جو بیک وقت حکومت اور اپوزیشن کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن لگا رہی ہے اور مسلسل لگا رہی ہے۔ نواز شریف صرف پنجاب کے ووٹ کی عزت کے لئے بات کر رہے ہیں یا پھر پورے پاکستان کے ووٹ کی عزت کا معاملہ اٹھا رہے ہیں؟ یہ سوال انتہائی اہم ہے… کیونکہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے متعدد ارکان پارلیمنٹ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے ان کے ووٹ کو عز ت نہیں دی… پنجاب کے کئی اور حلقوں کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی اپنے ووٹ کی عزت نہ ہونے پر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں… بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے عہدے داروں اور کارکنوں کی بڑی تعداد پارٹی چھوڑ چکی ہے۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ ان کے ووٹ کو عزت تو دور کی بات‘ ان پر توجہ ہی نہیں دی گئی… خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی ووٹ کی عزت دوسری پارٹیوں کی مرہون منت ہے۔
عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرح ”ووٹ بینک‘‘ پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے۔ اب اس کی شرح کتنی ہوتی ہے؟ یہ سب اپنے اپنے نظریے اور معلومات کی بنیاد پر طے کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کا ”ووٹ بینک‘‘ اس وقت مکمل طور پر تقسیم ہے… پنجاب میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف‘ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف‘ جے یو آئی (ف) اور اے این پی‘ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں اور سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اسی ” ووٹ بینک‘‘ کے شراکت دار ہیں۔
باقی صوبوں کے ”ووٹ بینک‘‘ میں تو شاید اتنی تبدیلی نہ آئے لیکن کراچی کا ”ووٹ بینک‘‘ اس وقت کسی کی سمجھ نہیں آ رہا… ایم کیو ایم نے انتخابی تجزیہ کاروں کو دھوکہ دیا… ان کی فہم و فراست کو ”معطل‘‘ کر دیا… انتخابی پنڈتوں نے پہلے ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو دو حصوں میں تقسیم کیا… جس میں سے بڑا حصہ ایم کیو ایم اور چھوٹا حصہ پاک سرزمین پارٹی کے حوالے کیا گیا… پھر مزید تقسیم کی صورت میں ووٹ بینک کے بھی تین حصے ہوئے… لیکن سب کو امید تھی کہ انتخابات سے قبل یہ ووٹ بینک ایک ہی ”نشان‘‘ کی صورت میں سامنے آئے گا… اور 2018ء کے انتخابات میں مخالفین کو لوہے کے چنے چبوا دے گا۔ ابھی انتخابات تو بہت دور ہیں‘ اور کراچی میں پارٹیوں کے بعد ووٹ بھی تقسیم ہو رہا ہے… اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی پرندوں کی طرح ایک ”سیاسی ڈال‘‘ سے اڑ کر دوسری ”سیاسی ڈال‘‘ پر بیٹھ رہے ہیں۔ یہی صورت حال سیاسی کارکنوں کی ہے… کراچی کا ووٹر تا حال ”کنفیوز‘‘ ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعت کی اپنی اپنی چال ہے… اور کراچی کے ووٹر طویل عرصے سے ان تمام جماعتوں سے دور رہے ہیں۔ کراچی میں تیس سال بعد ایسا الیکشن ہونے جا رہا ہے‘ جس میں صرف مہاجر کا نعرہ استعمال نہیں ہو گا۔ اسی لئے تمام سیاسی جماعتیں اس وقت کراچی میں اپنے اپنے پنجے گاڑنے میں مصروف ہیں… اب یہ پنجے کس کس کی گردن میں گاڑے جائیں گے؟ آنے والا وقت ہی اس بارے میں بہتر طور پر کچھ بتا سکتا ہے۔
پنجاب میں تحریکِ انصاف جس طرح نون لیگ کی وکٹیں گرا رہی ہے‘ اسی طرح کراچی میں پاک سرزمین پارٹی ایم کیو ایم کی پتنگیں لوٹنے میں مصروف ہے… ایم کیو ایم کے سب سے سینئر رہنما شبیر قائم خانی بہادر آباد کیمپ سے جب پی ایس پی میں گئے تو ایم کیو ایم کے دست و گریباں رہنما بھی حیران رہ گئے… کہ جن کی وجہ سے معاملات اس نہج پر پہنچے ہیں‘ ان میں سے ایک ”وجہ‘‘ ہی پرائی ہو گئی۔
ایم کیو ایم میں پہلے سب کچھ ”پلس ہی پلس‘‘ ہوتا تھا‘ اب سب کچھ ”مائنس ہی مائنس‘‘ ہو رہا ہے… بانی ایم کیو ایم کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کو مائنس کرنے کی باتیں بھی کھل کر سامنے آنے لگی ہیں… پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال بھی جنہیں ماضی میں بھائی کہتے تھے‘ انہوں نے بھی اب فاروق ستار کو ”صاحب‘‘ کہتے ہوئے لفظی گولہ باری شروع کر دی ہے… اور اپنی پارٹی میں ان کی آمد کے دروازوں کو بھی بند کر دیا ہے… حالانکہ مصطفی کمال یہ بخوبی جانتے ہیں کہ فاروق ستار کھڑکی اور روشن دان سے بھی آ سکتے ہیں۔
مہاجر دانشوروں کا ایک طبقہ ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیو ایم میں تقسیم کا ذمہ دار قرار دیتا ہے… تو دوسرا حلقہ پارٹی میں ذاتی مفادات کی جنگ‘ کرپشن اور اجارہ داری کے خلاف سینہ سپر ہونے پر فاروق ستار کو ” بہادر میمن‘‘ کا لقب بھی دیتا ہے… فاروق ستار کی کردار کشی کے حوالے سے بھی دو آراء پائی جاتی ہیں… ایک رائے بتاتی ہے کہ ایم کیو ایم کی اندرونی لڑائی سے فاروق ستار کی پوزیشن کو بہت نقصان پہنچا ہے… دوسری رائے کے مطابق فاروق ستار نے با اختیار کنوینرشپ کے لئے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے… اور اب وہ جب بھی بہادر آباد گروپ سے ملیں گے… پرانی پارٹی بحال ہو گی اور فاروق ستار کی پوزیشن مضبوط سربراہ جیسی ہو گی۔ ظاہر ہے وہ الطاف حسین تو نہیں بن سکتے لیکن اب وہ بالکل خاموش اور دبکے ہوئے بھی نہیں رہیں گے… اب ایک درمیانی مگر با اثر پوزیشن ہی ان کی واپسی کو یقینی بنا سکتی ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار 22 اگست کے بعد پارٹی لے کر تو چلے لیکن اتنی بڑی جماعت کا وزن اُن کے ناتواں کاندھے شاید برداشت نہ کر سکے۔ ان میں لیڈرشپ کوالٹیز کی کمی بھی کئی مواقع پر واضح نظر آئی… لیکن وہ کیا‘ ان کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو ایم کیو ایم کو سنبھال اور چلا نہیں سکتا تھا۔ کم از کم اس بات کی داد ضرور فاروق ستار کو دینی چاہئے‘ جنہوں نے اس کمیونٹی کو سنبھالا‘ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے ہی لوگوں کی ٹانگیں کھینچنے میں ماہر ہے۔
ایک مشہور لطیفہ ہے:
کئی کنوئوں میں الگ الگ قوم کے لوگ تھے جن پر ایک ایک پہرے دار تعینات تھا‘ لیکن ایک کنواں ایسا تھا جس پر کوئی محافظ نہ تھا۔ کسی نے پوچھا ”یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ جواب ملا ”یہ فلاں قوم ہے‘‘ پھر سوال کیا ”تو ان پر کوئی پہرے دار کیوں نہیں ہے‘‘ جواب آیا ”باقی کنوئوں میں موجود لوگ ایک دوسرے کی مدد سے اوپر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن ان کے لئے کوئی ایسی ضرورت ہی نہیں پڑتی‘ ان کا کوئی بندہ جب کنوئیں کے اوپر آنے لگتا ہے تو باقی ساتھی خود ہی اس کی ٹانگ کھینچ کر نیچے گرا دیتے ہیں‘‘… اس وقت ایسا ہی کچھ کراچی میں بھی ہو رہا ہے… ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں… اوپر چڑھنے والے کو نیچے جانا پڑتا ہے… اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا نیا سربراہ کوئی اور ہو گا… فاروق ستار‘ آفاق احمد‘ مصطفی کمال اور خالد مقبول صدیقی مہاجروں کے لیڈر ضرور ہیں… لیکن کوئی ایسا نہیں جو تمام دھڑوں کو متحد کر کے خود ان کو لیڈ کرے… مڈل کلاس کی یہ جماعت کراچی اور سندھ کے ساتھ پورے پاکستان میں قابل قبول بن جائے… کسی کو حب الوطنی کا ”این او سی‘‘ بغیر کسی تصدیق جاری کرنے میں کوئی دقت نہ ہو… ایسی صورتحال میں صرف ایک ہی نام ہے جو مہاجروں کو پھر متحد کر سکتا ہے… جس کے لئے بیرسٹر فروغ نسیم سمیت کئی دیگر شخصیات بھی پس پردہ بھرپور کوششیں کر رہی ہیں… اور اگر ایسا ہو گیا تو مہاجر قوم پہلی بار قومی دھارے میں بلا جھجک شامل ہو جائے گی… اور نا صرف کراچی بلکہ نواب شاہ‘ میر پور خاص‘ سکھر سمیت اندرون سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں بھی ”مہاجر ووٹ بینک‘‘ ووٹوں کے سرمایے سے مالا مال ہو گا۔