ووٹ کا حق اور ووٹر کی ذمہ داریاں…کنور دلشاد
25 جولائی کو عام انتخابات کی صورت میں ملک کی نئی قیادت کے بارے میں رائے دہندگان کا فیصلہ سامنے آنے والا ہے۔ عوام یہ جاننے کی خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان کے دوسرے حصوں میں بسنے والے لوگوں کے پیشِ نظر آئندہ قیادت کے حوالے سے کیا معیارات ہیں۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور عوام کے مسائل کا حل سبھی کی آرزو ہے‘ اور انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں اور امیدواروں کے دعوے بھی اسی نوعیت کے ہیں‘ مگر ملک کے مختلف حصوں میں سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی‘ عوام سے رابطوں اور امیدوں کی عمومی شہرت سمیت کئی حوالوں سے پیش گوئیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس ضمن میں سیاسی پارٹیوں نے اپنے منشور بھی پیش کئے ہیں‘ جس سے ان کے مستقبل کے منصوبہ بندیوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ جس طرح اداریہ اخبارات کی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے‘ اسی طرح پارٹیوں کے منشور سے سیاسی جماعتوں کے تعمیری عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قوم کا ہر ووٹ اچھے اور برے حکمران منتخب کرنے میں فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔ مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت محمد شفیع نے ووٹ کی شرعی حیثیت پر پورا مقالہ لکھا ہے کہ کسی امیدوار کے حق میں ووٹر کو اپنا ووٹ کس طرح استعمال کرنا چاہیے۔ عام لوگ اس کو ذاتی و نجی معاملہ سمجھتے ہیں‘ حالانکہ میری نظر میں ایک دینی معاملہ بھی ہے۔ اس پر حضرت مولانا محمد شفیع کہتے ہیں کہ کسی امیدوار کو ووٹ دینے کی از روئے شریعت کئی حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت شہادت کی ہے‘ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے‘ اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے۔ اگر واقعی کسی شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے بھی اس کو ووٹ دیتا ہے تو یہ ایک جھوٹی شہادت ہے‘ جسے کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیا و آخرت قرار دیا گیا ہے۔ جس حلقے میں چند امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہو کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابلیت میں دوسروں سے بدرجہ بہتر ہے‘ تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ضروری ہے کہ ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے‘ محض خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے۔ دوسری حیثیت سفارش کی ہے‘ کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے‘ اس سفارش کے بارے کہا یہ گیا ہے کہ ہر ووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس کو اس میں حصہ ملتا ہے اور جو کسی کی بری سفارش کرتا ہے اسے اس برائی میں حصہ ملتا ہے۔ محمد شفیع صاحب کے مطابق اگر کسی نا اہل کو اپنی نمائندگی کے لئے ووٹ دیا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس پر عائد رہے گا۔ مشاہدے میں آیا کہ یہی طریقہ 2008ء کے الیکشن میں بنگلہ دیش نے اپنایا تھا‘ سرکاری طور پر پولنگ سٹیشن کی عمارت کے اندر یہ تحریر موجود تھی کہ ووٹ دیتے ہوئے دھیان میں رکھیں‘ جس امیدوار کو ووٹ کاسٹ کیا جا رہا ہے اس کے بارے میں تسلی کر لیں کیونکہ اس کے تمام گناہوں میں آپ برابر کے شریک ہوں گے۔ اس لئے بنگلہ دیش کی حکومت نے بیلٹ پیپرز پر None of the Above کے کالم کا اضافہ کر کے ووٹرز کی نا پسندیدگی کے اظہار کی گنجائش رکھی تھی۔ ہمارے ہاں انتخا بی اصلاحات کمیٹی نے ہماری اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا‘ کیونکہ تمام پارلیمانی جماعتوں کو یہ خدشہ تھا کہ ووٹر کو یہ حق دیا گیا تو ان کی کامیابی مشکوک ہو جائے گی۔
دنیا کے کئی ممالک میں بیلٹ پیپروں میں ایسا خانہ موجود ہوتا ہے جس میں ووٹر سارے امیدواروں کو رد کر سکتا ہے۔ یہ تجربہ بنگلہ دیش اور بھارت میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان مئی 2013ء کے انتخابات میں بیلٹ پیپرز پر نمائندگی کے اضافی کالم کے لئے منظوری دے چکا تھا‘ لیکن بیلٹ پیپرز سے اچانک یہ اضافی کالم حذف کر دیا گیا۔ پتا نہیں کیوں؟ ہماری سول سوسائٹیوں کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ سے سارے حقائق کا ادراک ہو جائے گا۔ 2018ء کے انتخابات کے لئے ہم نے قانونی کوششیں جاری رکھیں لیکن لاہور ہائی کورٹ نے خواجہ ہارون چیئرمین پاکستان فریڈم موومنٹ کی درخواست کو 26 ستمبر تک مؤخر کر دیا‘ جبکہ الیکشن 25 جولائی کو منعقد ہو رہے ہیں۔ جب ہارون خواجہ نے آئین کے آرٹیکل 183(3) کے تحت درخواست سپریم کورٹ کو بھجوائی تو غالباً وقت کی کمی کے باعث یہ درخواست اپنا قانونی حق حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
انتخابات کرانا جمہوری نظام کا ناگزیر تقاضا ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام ایسا نظامِ حکومت ہے‘ جس میں حکومت کے تمام وسائل اور اختیارات عوام کی امانت تصور ہوتے ہیں۔ جمہوری نظامِ حکومت دیگر نظام ہائے حکومت کے مقابلے میں اسی وجہ سے زیادہ مقبول اور با اثر ہے کہ اس نظام میں عوام کے فکر و خیال کو بنیادی حیثیت حاصل ہے‘ بالعموم دنیا کے ہر ملک میں جہاں اقتدار اور اختیار کا سرچشمہ عوام قرار پاتے ہیں‘ وہاں نظام حکومت کو اپنانے اور چلانے کے لئے مقررہ وقفوں سے منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے‘ اور انتخابات سے مراد ایسے تمام افراد کی رائے معلوم کرنا ہوتا ہے‘ جو مروجہ قانون کی شرائط پوری کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہوں اور اپنے حقِ رائے دہی کو پورے یقین کے ساتھ ان لوگوں کے حق میں استعمال کر سکتے ہوں، جو ان کے نزدیک نظام حکومت چلانے اور ملک و ملت کے لئے بہت ثابت ہو سکتے ہیں۔ حق رائے دہی اور ووٹ کا استعمال ایک معاشرتی فریضہ ہے‘ یہ عمل در اصل گواہی اور حکومتی نظم و نسق میں معاون اور مددگار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے ووٹ دیتے وقت امیدواروں کی دیانت و امانت‘ دین داری‘ فرض شناسی‘ خوفِ خدا اور حب الوطنی کو پیش نظر رکھنا دینی لحاظ سے بھی ایک ضروری امر ہے۔ اس طرح سیاسی جماعتوں کے منشور کا مطالعہ کیا جائے تو ہر شعبۂ زندگی کے بارے میں مختلف پالیسیوں کا اعلان ہوتا رہتا ہے‘ لیکن ان پالیسیوں کو ذاتی مفادات کے تحت نظر انداز کرنے کا وتیرہ ہر سیاسی پارٹی نے اپنایا ہوا ہے۔
عام انتخابات میں صرف نو دن باقی رہ گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام بلدیاتی اداروں کو 25 جولائی تک معطل کرنے کا امر قابل تحسین ہے۔ اس اقدام سے شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی راہ ہموار ہو گی‘ لیکن الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق پر عمل در آمد کرانے میں بیوروکریسی تعاون نہیں کر رہی ہے۔ کروڑوں روپے تشہیری مہم پر خرچ ہو رہے ہیں، اور بیوروکریسی‘ جس نے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانا ہے‘ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ شہباز شریف نے پریس کانفرنس کے دوران جو کلمات ادا کیے‘ وہ ان کی سیاسی‘ انتخابی شکست کے آئینہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز مخالفین ہمیں تھانوں میں پہنچائیں گے تو ہم بھی ان کو تھانوں میں بند کریں گے۔ اس سے ان کی شکست خوردگی بخوبی نظر آ رہی ہے۔ شہباز شریف مکافاتِ عمل کی زد میں آنے والے ہے۔ ان کے دور میں ماڈل ٹائون میں دو درجن سے زائد نیک لوگوں کو قتل کروایا گیا۔ اس کے علاوہ پولیس کی گولیوں سے سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے۔ آج وہی شہباز شریف لاہور ایئر پو رٹ کے ارد گرد کنٹینر لگانے پر احتجاج کر رہے ہیں‘ جبکہ انہوں نے پولیس کے ذریعے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے لئے کنٹینر لگا کر پورے پنجاب کو بند کروا رکھا تھا۔ اب ان حالات میں ہماری وفاقی نگران حکومت نے جسٹس (ر) جاوید اقبال چیئرمین قومی احتساب بیورو کے مشورے سے جو عملی اقدامات کیے ہیں‘ اس سے ملک میں امن و امان کی فضا برقرار رہے گی بلکہ پہلے کی نسبت بہتر ہو جائے گی۔