’ووٹ کو عزت دو‘…حامد میر
بہت عرصے کے بعد ایک خوبصورت تقریر سننے کو ملی۔ مجمع مسلم لیگ(ن) اور اس کے اتحادیوں نے اکٹھا کیا تھا لیکن داد ایک ایسے سیاست دان نے سمیٹی جو مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ نہیں کھڑا۔مسلم لیگیوں سے داد سمیٹنے والے اس شخص کا نام میاں افتخار حسین ہے جو صرف عوامی نیشنل پارٹی کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کے تمام جمہوریت پسندوں کیلئے باعث افتخار ہے ۔میاں افتخار حسین نے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے زیر اہتمام نیشنل لائبریری میں منعقد کئے گئے سیمینار میں ایک یادگار تقریر کی جس نے لوگوں کو ہنسایا، رلایا اور گرمایا۔اتنی خوبصورت تقریر نے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے نواز شریف کو مبہوت کر دیا، حاصل بزنجو سر دھنتے رہے، محمود اچکزئی ایک بہادر پختون سیاست دان کے لب ولہجے میں فیض کی بغاوت اور پروین شاکر کی نزاکت کے حسین امتزاج پر داد دیتے رہے اور مولانا فضل الرحمان اپنی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے گم سم تھے اور سوچ رہے تھے کہ آنے والےانتخابات میں اے این پی کے ساتھ اتحاد کا راستہ کیسے نکالا جائے؟ کیا اے این پی اور متحدہ مجلس عمل میں اتحاد ہو سکتا ہے ؟کیا اس اتحاد میں مسلم لیگ (ن) شامل ہو سکتی ہے ؟میاں افتخار حسین بار بار آئین کی بالادستی کیلئے ایک مشترکہ محاذ بنانے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔اس سیمینار کا موضوع تھا ۔’’ووٹ
کو عزت دو‘‘ مجھے اس سیمینار میں شمولیت کی دعوت سینیٹر مشاہد حسین نے دی تھی لیکن مجھے یہاں لانے کا کریڈٹ عزیزی اعزاز سید کو جاتا ہے جو اپنے نوکیلے سوالات کے باعث اپنے لئے خطرات کو دعوت دینے میں کمال رکھتے ہیں ۔نیشنل لائبریری کے ہال میں سفارت کاروں، دانشوروں اور صحافیوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن)کے پرجوش کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی جو بار بار ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بلند کررہے تھے اور سٹیج سیکرٹری ڈاکٹر طارق فضل چودھری بار بار کارکنوں سے درخواست کر رہے تھے کہ یہ عوامی جلسہ نہیں سیمینار ہے۔ نعروں سے گریز کریں۔اس سیمینار میں اے این پی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین کا آنا اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کی حمایت کرنا نواز شریف کی اہم سیاسی کامیابی ہے۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ تاحیات نااہل قرار دے چکی ہے، وہ سیاسی اتحادیوں کی تعداد میں اضافے کیلئے بے چین ہیں اور اس سیمینار میں اسفند یار ولی کی شمولیت کے خواہاں تھے لیکن اسفند یار ولی اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے نہیں آئے تاہم میاں افتخار حسین نے ان کا پیغام بڑے موثر انداز میں نواز شریف کے سامنے رکھ دیا۔پیغام یہ تھا کہ ووٹ کے ساتھ ووٹر اور آئین کو بھی عزت دو۔
میاں افتخار حسین نے کہا کہ ہم تو ہمیشہ ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے تھے لیکن ہماری منتخب حکومتوں کو برطرف کیا جاتا رہا ہماری پارٹی پر پابندی لگا دی گئی اور ہمیں غدار کہا گیا۔ہم چیختے رہے کہ ہم ووٹ لیکر آئے ہیں ہمیں عزت دو لیکن ہماری کسی نے نہیں سنی۔میاں افتخار حسین نے کہا کہ ہمیں حیرانی ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کو بھی نکال باہر کیا گیا اور اب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا جا رہا ہے ۔انہوں نے نواز شریف کو مخاطب کیا اور کہا کہ ہم آپ کے اتحادی نہیں ہیں لیکن ووٹ کی عزت کیلئے آپ کے ساتھ ہیں ۔انہوں نے مشورہ دیا کہ جو سیاست دان آپ سے ناراض ہیں ان سے بار بار رابطہ کریں اور انہیںاپنےساتھ ملائیں۔میاں افتخار حسین کے لہجے میں عاجزی بھی تھی اور عزم بھی تھا۔انہوں نے کہا کہ میرا اکلوتا بیٹا میری سیاست کی وجہ سے مارا گیا کیونکہ میں آئین اور ووٹ کے تقدس کی بات کر رہا تھا دشمنوں نے میرے بیٹے کو شہید کیا تاکہ میں چلتی پھرتی لاش بن جائوں لیکن مجھے اپنے بیٹے کی قربانی پر فخر ہے اور میں مزید قربانی کیلئے بھی تیار ہوں۔میاں افتخار حسین نے حاضرین سے کہا ہاتھ اٹھا کر حلف دو کہ آئین و قانون اور ووٹ کی عزت کیلئے جدوجہد کرو گے۔غیرارادی طور پر میرا ہاتھ بھی اٹھ گیا۔میرے دائیں طرف بیٹھی عاصمہ شیرازی اور منیزے جہانگیر کا ہاتھ بھی اٹھا ہوا تھا اور بائیں طرف بیٹھے اویس توحید اور نسیم زہرہ نےبھی ہاتھ اٹھا دیا ۔عاصمہ شیرازی نے میرے حلف کی فلم بنانی شروع کی تو مجھے وضاحت کرنی پڑی کہ یہ حلف میاں افتخار حسین کو دیا گیا ہے کسی اور میاں کو نہیں ۔
اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے شگفتہ انداز میں نواز شریف سے اندر کی بات پوچھی تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔ان تالیوں سے پتہ چل رہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور حامی بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ’’اندرون خانہ‘‘ کیا چل رہا ہے ؟نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم درگزر کر رہے ہیں دوسرے بھی درگزر کریں۔ انہوں نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی جس میں وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم واقعات سنا رہے تھے اور مجھے ایسا لگ رہا تھا میں ایک دفعہ پھر چودھری شجاعت حسین کی کتاب پڑھ رہا ہوں۔چودھری صاحب نے کچھ واقعات لکھ دیئے ہیں اور کچھ اہم واقعات گول کر دیئے ہیں۔جھوٹ تو نہیں لکھا لیکن کچھ سچ چھپا لئے ۔نواز شریف صاحب نے بھی کچھ اہم سچائیاں گول کر دیں۔مثلاً انہوں نے 1990ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت اور 1993ء میں اپنی حکومت کی برطرفی کا ذکر کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ سپریم کورٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بحال کرنے سے انکار کر دیا لیکن میری حکومت کو بحال کر دیا۔جب انہوں نے یوسف رضاگیلانی کی نااہلی کا ذکر کیا تو یہ بھی بتا دیتے کہ نااہلی کے اس کھیل میں وہ خود بھی شامل تھے جو ایک غلطی تھی اور آئندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی تو کم از کم میں کھڑے ہو کر تالیاں ضرور بجاتا۔پچھلے دنوں نواز شریف نے میموگیٹ ا سکینڈل میں اپنے کردار کو غلط قرار دیا تو اس کی وجہ اعزاز سید کا سوال تھا نواز شریف صاحب نے اپنے طور پر ابھی تک کسی غلطی کا اعتراف نہیں کیا اور اسی لئے بہت سے لوگ ان پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ۔جس دن نواز شریف ووٹ کا تقدس پامال کرنے میں اپنے ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کر لیں گے اس دن ان کے اتحادیوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
فی الحال نواز شریف کا بیانیہ کنفیوژن کا شکار ہے۔ مولانا فضل الرحمان بھی ان سے اندر کی بات پوچھ رہے ہیں کہ کہیں کوئی ڈیل تو نہیں ہو جائےگی ؟میاں افتخار حسین کی تقریر بڑی واضح تھی۔انہوں نے یہ پیغام دیا کہ ووٹ کی عزت کیلئے کوئی جدوجہد کرے یا نہ کرے لیکن وہ تو سال ہا سال سے اس جدوجہد میں مصروف ہیں اور آئندہ بھی یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ووٹ کی عزت آئین کی عزت سے مشروط ہے ۔آئین نے پاکستان کے شہریوں کو جو حقوق دیئے ہیں ان کا تحفظ اور احترام تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔انتخابات قریب ہیں اور آئین کی دفعہ 19میں دی گئی آزادی اظہار پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔یہ پابندیاں آئین سے متصاد م ہیں۔ہمیں ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی بھی مذمت کرنی ہے اور آزادی اظہار پر پابندیوں کوبھی مسترد کرنا ہے ۔ان پابندیوں پر نواز شریف بولیں یا نہ بولیں لیکن ہم سب کو متحدہو کر بولنا ہے اور پاکستان بچانا ہے۔