’’ووٹ کو عزت دو‘‘…رئوف طاہر
چار الفاظ پر مشتمل اس سیمینار کے ”الداعیان الی الخیر‘‘ میاں نواز شریف، محمود احمد خاں اچکزئی اور میر حاصل بزنجو تھے۔ کارڈ پر سینیٹر مشاہد حسین کا نام سیمینار کنوینر کے طور پر درج تھا۔ وہ جو کہتے ہیں، صبح کا بُھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بُھولا نہیں کہتے۔ مشاہد حسین بھی گھر لوٹ آئے تھے، اگرچہ ان کی یہ صبح سے شام، کوئی سترہ، اٹھارہ سال پر محیط تھی۔ ترقی پسند مشاہد حسین جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ پھر ”ناپسندیدہ‘‘ قرار پا کر فارغ ہو گئے، تو آغا مرتضیٰ پویا نے اپنے انگریزی روزنامے کا ایڈیٹر بنا دیا۔ (ایئر مارشل اصغر خاں کے صاحبزادے عمر اصغر بھی اسی دور میں پنجاب یونیورسٹی سے نکالے گئے۔ برسوں بعد وہ جنرل مشرف کی وفاقی کابینہ کے رکن تھے کہ کراچی میں ایک شب اپنے میزبان کے گھر سے آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے) مشاہد حسین ایک عرصے تک نواز شریف کے ناقد رہے، وہ اپنے کالم میں انہیں ”ہریسہ وزیر اعظم‘‘ لکھا کرتے۔ وہ اس پر فخر کا اظہار کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اُس وقت نواز شریف کی رفاقت اختیار کی جب پرائم منسٹر ہائوس میں ان کے دن گنے جا چکے تھے، اور آزمائش کے ریگزار میں آبلہ پائی کا مرحلہ آن پہنچا تھا۔
”ووٹ کو عزت دو‘‘ کے عنوان سے نیشنل لائبریری اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں یہ سیمینار 17 اپریل کو منعقد ہوا۔ مشاہد حسین نے یاد دلایا کہ 25 سال قبل یہی دن تھا جب نواز شریف کی سیاست نے ایک نیا موڑ لیا۔ غلام اسحاق خاں کے ہاتھوں برطرفی سے ایک روز قبل قوم کے نام خطاب میں نواز شریف نے ریاست کے سب سے بڑے محل میں منتخب وزیر اعظم کے خلاف ہونے والی سازشوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے اعلان کیا تھا: ڈکٹیشن نہیں لوں گا، استعفے نہیں دوں گا، اسمبلی نہیں توڑوں گا۔ اگلی شب وزیر اعظم اپنے رفقا کے ساتھ، صدرِ پاکستان کے خطاب کے منتظر تھے۔ انہیں علم تھا کہ وہ ان کی برطرفی اور قومی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کرنے والے ہیں، لیکن وہ پُرسکون تھے۔ کسی نے پوچھا، اس کے بعد کیا ہو گا؟ نواز شریف نے ہنستے ہوئے کہا، میں نے سامان تیار کر لیا ہے اور پرائم منسٹر ہائوس سے سیدھا جیل جانے کیلئے بھی تیار ہوں۔ مشاہد حسین کا دعویٰ ہے کہ میاں صاحب کو فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا مشورہ دینے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔
ناقدین طنز کرتے ہیں کہ میاں صاحب نے بعد میں ڈکٹیشن بھی لی، استعفیٰ بھی دیا اور قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھی دی لیکن یہ مکمل سچائی نہیں۔ 18 اپریل کا صدارتی حکم ایک طرف سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، تو دوسری طرف معزول وزیر اعظم اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں بھی لے گئے، چاروں صوبوں میں وہ جہاں بھی گئے، عوام نے ان کے مقدمے کی بھرپور تائید کی۔
26 مئی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا دن تھا، شامی صاحب سمیت کچھ سینئر اخبار نویس ایوان صدر پہنچے۔ ”سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بحال کر دیا تو…‘‘؟
صدر نے جواب میں علامہ کا شعر پڑھ دیا:
گماں مبر کہ بہ پایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است
(ترجمہ: یہ گمان نہ کرو کہ پیرِ مغاں کا کام ختم ہو گیا، ابھی انگور کی شاخوں میں ڈھیروں ناخوردہ شراب موجود ہے) یہ دعویٰ بے بنیاد نہ تھا، 18 اپریل کے بعد کے منصوبے کے مطابق نواز شریف کے اپنے صوبے پنجاب میں غلام حیدر وائیں کی جگہ منظور وٹو آ گیا تھا۔ نواز شریف کی بحالی کے بعد پنجاب اسمبلی کے کئی ارکان واپس آ گئے تھے۔ وٹو کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد داخل کرا دی گئی تھی کہ گورنر الطاف حسین (مرحوم) نے اس کی ”ایڈوائس‘‘ پر اسمبلی توڑ دی۔ ہائیکورٹ سے بحالی کے حکم کے آدھ گھنٹے کے اندر گورنر نے دوبارہ اسمبلی توڑنے کا حکم جاری کر دیا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت وفاقی حکومت کے خلاف بغاوت پر تھی۔ سرحد میں میر افضل خاں، ہمیشہ سے غلام اسحاق خان کے وفادار رہے تھے۔ بینظیر بھٹو اور نوابزادہ کی قیادت میں پنجاب اور سرحد کی حکومتیں اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کر رہی تھیں، صدر ان کے ساتھ تھا اور ریاست مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ ان حالات میں وزیر اعظم نے نئے مینڈیٹ کیلئے عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس میں جنرل وحید کاکڑ کا دخل بھی تھا، لیکن وزیر اعظم اپنے ساتھ صدر اور چاروں صوبوں میں اس کے قائم کئے گئے سیٹ اپ کو بھی ساتھ لے گیا۔ نئے انتخابات میں ”طاقتوروں‘‘ کے تمام حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود نواز شریف کی مسلم لیگ کے ووٹ بینظیر صاحبہ کی پیپلز پارٹی سے تین لاکھ زائد تھے (مسلم لیگ 31,23,244 … اور پیپلز پارٹی 28,19,624) لیکن قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 16 کم تھی (پیپلز پارٹی 89، مسلم لیگ 73) مشاہد حسین نے قائدِ حزبِ اختلاف نواز شریف کے با اعتماد ترین رفقا میں جگہ بنا لی تھی۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں وہ وفاقی وزیر اطلاعات بنے، 12 اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی کے بعد کچھ عرصہ گھر پر نظر بند رہے اور پھر قاف لگ کو پیارے ہو گئے۔ لیکن میاں صاحب کے دل میں ان کیلئے نرم گوشہ ہمیشہ موجود رہا۔ خود مشاہد نے بھی فرزندِ لال حویلی کے برعکس اپنی زبان کو عموماً قابو میں رکھا۔ اور اب پھر وہ میاں صاحب کے قریب ترین جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
17 اپریل کی سہ پہر نیشنل لائبریری کے وسیع آڈیٹوریم میں محاورتاً نہیں، واقعتاً تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں رہی تھی۔ چینی سفیر سمیت مختلف ملکوں کے بیس سفارت کار بھی موجود تھے۔ بعض وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کو کرسیاں نہ ملیں تو وہ ساڑھے تین گھنٹے کی کارروائی میں اس طرح کھڑے رہے کہ پائوں ہلانا بھی مشکل تھا۔ طارق فضل چودھری سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وفاقی دارالحکومت میں وہ مسلم لیگ کی سیاست کے سرگرم ترین کرداروں میں ایک ہیں۔ اسی دوران خبر آئی، نیب نے ان کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ میر حاصل بزنجو کو تشویش تھی کہ اس عالم میں جب پاکستان کے خلاف اندرونی و بیرونی سازشیں عروج پر ہیں، قوم کے سبھی طبقات کو پولرائزیشن کا شکار کر دیا گیا ہے اور ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف اور اس کا اقامہ ہے۔ محمود خاں اچکزئی اسے جمہوری اور غیر جمہوری کی جنگ قرار دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا، پاکستان رضاکارانہ فیڈریشن ہے، یہاں کوئی فاتح ہے، نہ کوئی مفتوح… 1970ء کا پاکستان آج سے زیادہ مضبوط تھا‘ لیکن عوام کا فیصلہ تسلیم نہ کرنے کے نتیجے میں دولخت ہو گیا۔ 1977ء کا بحران بھی عوامی مینیڈیٹ کو چرانے کا نتیجہ تھا۔ ہم اس ملک کو چلانا چاہتے ہیں، اسے بچانا چاہتے ہیں‘ لیکن یہ معاہدۂ عمرانی (آئین) پر حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد ہی سے ممکن ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا، ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں۔ سبھی ادارے ملک کی ضرورت ہیں، مسئلہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔
اے این پی کے اسفند یار ولی علالت کے باعث نہ آ سکے‘ اور یہاں ان کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے میلہ لوٹ لیا۔ ان کا کہنا تھا، ہم میاں صاحب کے اتحادی نہیں، لیکن ووٹ کی عزت کی تحریک میں ان کے شانہ بشانہ اور قدم بہ قدم ہیں۔ ان کا یہ نکتہ بھی اہم تھا کہ عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ سیاستدان ہی کامیابی سے لڑ سکتا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے، نواز شریف کو جتنا دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے ، اس کی عزت اور مقبولیت بھی اتنی ہی بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ اس کیلئے آزمائشیں بھی۔
”ووٹ کو عزت دو‘‘ تحریک کے قائد کا کہنا تھا کہ نوجوان اس تحریک کا ہراول دستہ بنیں گے اور اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کہ اب وہ کسی لوٹے کو ٹکٹ نہیں دیں گے۔ ”شیر‘‘ کے نشان پر ان کے کمزور اور غیر معروف امیدوار بھی نام نہاد Electables کو شکست فاش سے دوچار کریں گے۔ لودھراں کا ضمنی انتخاب ان کے اس دعوے کی دلیل تھا۔