’ووٹ کو عزت دو‘ کا پس منظر …(1)…..کنور دلشاد
کروڑوں پائونڈ پر مبنی ایون فیلڈ ریفرنس میں طویل قید اور ایک کروڑ پائونڈ کے جرمانوں کی سزا پانے والے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم صفدر کی وطن واپسی کے بعد لاہور ایئر پورٹ پر قومی احتساب بیورو کی ٹیم کے ہاتھوں گرفتاری اور راتوں رات اڈیالہ جیل منتقلی سے سوا دو سال پہلے پانامہ لیکس سے شروع ہونے والا باب اختتام کو پہنچا۔ نواز شریف نے حالات و واقعات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا‘ اور جہاز میں اپنے مہمان صحافیوں کے رو برو بھی اپنے بیانیہ کی وضاحت کرتے اور انہیں یہ بتاتے رہے کہ ان کا مقصد قوم کو 70 سالہ قید سے نجات دلانا ہے جبکہ اس ستر سالہ دور میں قائد اعظم محمد علی جناح اور شہیدِ ملت لیاقت علی خان کا مثالی دور بھی شامل ہے۔ لاہور میں ان کی آمد پر ان کی پارٹی کے قائدین نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ ان کا ویسا والہانہ استقبال نہ کیا گیا جس کی انہیں یعنی نواز شریف کو توقع تھی۔ شہباز شریف اور ان کے ہم خیال ٹولے نے نگران وزیر اعلیٰ کی نا اہلی اور غیر منطقی حکمت عملی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا ملبہ نگران وزیر داخلہ پر ڈال دیا‘ جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کی سبکی ہوئی۔ مریم نواز کے حامی میڈیا گروپ نے بھی افراتفری مچانے اور واویلا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ اس واویلے کی لپیٹ میں ایک ٹی وی اینکر بھی آ گئے‘ جنہوں نے ویسا ہی ڈرامہ رچانا شروع کر دیا‘ جیسا انہوں نے 12 مئی 2009ء کو کراچی میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آمد پر فائرنگ کے واقعات کو سنسنی خیز انداز میں پیش کر کے رچانے کی کوشش کی تھی۔
حالات کا جائزہ لینے سے مجھے لگتا ہے کہ نگران حکومت کسی بھی صلاحیت سے محروم ہے۔ لاہور میں نواز شریف اور مریم نواز کی واپسی کے موقع پر انتظامی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے حوالے سے جس مکمل محرومی اور نااہلی کا ثبوت دیا گیا‘ اس سے اس کی تمام کمزوریاں اور درست فیصلوں کی صلاحیت کا فقدان کھل کر سامنے آ گیا۔ بلا وجہ کنٹینر لگا کر مخصوص جگہو ں سے شہر کو بند کر دینے سے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی دانشوری خاک میں مل گئی۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی سکیورٹی کے لئے 147 گاڑیوں کا لائو لشکر لے کر صوبے بھر میں گھومتے ہیں۔ اس سے ان کی احساسِ کمتری عیاں ہوتی ہے۔ بھلا ان جیسے شریف النفس اور بے ضرر شخص کو کیسے اور کون سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟ پولیس کی اتنی بڑی تعداد کو اپنا ذاتی جاہ و جلال دکھانے کے لئے استعمال کرنے کے بجائے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی پالیسی اختیار کرنا چاہئے تھی تاکہ وہ کھل کر انتخابی مہم میں حصہ لے سکتے‘ عوام تک اپنی بات اور اپنا مینی فیسٹو پہنچا سکتے‘ جس کے نتیجے میں لوگ ان کی بات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے اور یوں انہیں اپنے لئے بہتر نمائندے چننے کا موقع ملتا۔ ویسے بھی 26 جولائی کی دوپہر کو ان کی حکومت ختم ہو جائے گی، اور ان کی ساری سکیورٹی کامیاب پارٹی کے چیئرمین کو منتقل ہو جائے گی۔ عام انتخابات میں محض چند دن باقی رہ گئے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی ضرورت انتخابی عمل کو مکمل طور پر غیر جانبدارانہ، منصفانہ، شفاف اور پُرامن اور پوری طرح قابل اعتبار بنانے میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ ناکام محسوس ہوتی ہے۔ اب اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ معاملات کا گہرائی تک جائزہ لے تاکہ معاملات کو قابو میں رکھا جا سکے۔
جمہوری ممالک میں قوموں کے مستقبل کا انحصار انتخابات پر ہوتا ہے۔ یہ ملک کے لئے اگلی منزل کا تعین کرتے ہیں۔ انتخابی عمل درست طور پر انجام پائے تو قومی یکجہتی کا ذریعہ بنتا ہے اور شکوک و شبہات کا شکار ہو جائے تو انتشار جنم لیتا ہے، لہٰذا نگران حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے ساری ذمہ داری کلیدی ریاستی اداروں پر عائد ہو گئی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں تاکہ الیکشن کا انعقاد بہتر طریقے سے ہو سکے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد گزشتہ ہفتوں میں بلوچستان میں دہشت گردی کے خطرات کے حوالے سے اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے تھے اور ان کیمرہ میٹنگ میں تمام حالات پر بریفنگ دینا چاہتے تھے،لیکن نگران وزارت داخلہ نے ان کے خدشات و شبہات کو نظر انداز کر دیا لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ مستونگ سانحہ کی ذمہ داری نگران وزیر داخلہ پر عائد ہوتی ہے تو شاید یہ بے جا نہ ہو گا۔ یاد رہے کہ چند روز قبل بلوچستان کے ضلع مستونگ میں خود کش حملے کے نتیجے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 150 افراد کی شہادت کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سانحے کے بعد پورے ملک کی فضا سوگوار ہے اور حکومت بلوچستان کی جانب سے سانحہ مستونگ پر 2 روزہ سوگ منایا گیا۔ اس دوران تمام سرکاری عمارات پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ متعدد سیاسی جماعتوں نے سانحہ مستونگ کے شہدا کی یاد میں اپنی اپنی انتخابی مہمیں دو روز کے لئے ملتوی کر دیں۔ اس سے چند روز قبل پشاور میں اے این پی کی کارنر میٹنگ کے دوران ہونے والے خود کش حملے میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ہارون بلور سمیت 22 افراد شہید ہو گئے تھے۔ بنوں میں بھی دہشت گردی کی ایک واردات ہوئی‘ جہاں سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم درانی کے قافلے پر ہونے والے حملے میں 4 افراد شہید اور 35 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے میں اکرم درانی محفوظ رہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان خونیں واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے نگران وزارت داخلہ کے سیٹ اپ میں مناسب تبدیلی لائی جاتی تاکہ آنے والے دنوں میں ایسی کسی ہنگامی صورتحال سے بچا جا سکے‘ لیکن شاید ایسا نہیں کیا گیا۔ اس موقع پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کی دور اندیشی کو نہ سراہنا زیادتی ہو گی‘ کیونکہ انہوں نے بروقت خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اور تشویشناک صورتحال پیدا ہونے کے خدشات کے بارے میں بروقت آگاہ کر دیا تھا‘ لیکن نگران حکومت اپنے فرائض پورے کرنے میں ناکام رہی۔
اب آتے ہیں ایک اور معاملے کی طرف‘ جس کا ذکر میں نے اس کالم کے آغاز میں کیا تھا‘ یعنی ووٹ کو عزت دو والے معاملے کی طرف۔ میرا ذاتی اندازہ یہ ہے کہ نواز شریف نے جو ووٹ کی عزت کا سوالیہ نشان اٹھایا تھا‘ اس کے پس منظر میں انتہائی خطرناک حکمت عملی کارفرما ہے اور یہ دراصل ان کی نہیں بلکہ پرویز رشید کی تھیوری ہے، جو سابق وزیر اعظم پاکستان مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے حکومت کرنے کے طریقہ کار سے مکمل طور پر آگاہ اور واقف ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی عدلیہ اور اداروں کو کنٹرول کرنے کے لئے اور پیپلز پارٹی کے منشور کو آئین کا حصہ بنانے کے لئے کوشش کی تھی۔ (جاری)
میرا ذاتی اندازہ یہ ہے کہ نواز شریف نے جو ووٹ کی عزت کا سوالیہ نشان اٹھایا تھا‘ اس کے پس منظر میں انتہائی خطرناک حکمت عملی کارفرما ہے اور یہ دراصل ان کی نہیں بلکہ پرویز رشید کی تھیوری ہے، جو سابق وزیر اعظم پاکستان مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے حکومت کرنے کے طریقہ کار سے مکمل طور پر آگاہ اور واقف ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی عدلیہ اور اداروں کو کنٹرول کرنے کے لئے اور پیپلز پارٹی کے منشور کو آئین کا حصہ بنانے کے لئے کوشش کی تھی۔