’ووٹ کو عزت دو‘ کا پس منظر (2)….کنور دلشاد
مجھے لگتا ہے کہ یہی پالیسی نواز شریف نے اپنائی ہوئی ہے، اور ووٹ کو عزت دو کے پس منظر میں سارا منظر یوں ہے کہ پانامہ لیکس میں ان کو سزا دی گئی ہے‘ اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا ہے‘ تو یہ دراصل اپنی نا اہلی کے خاتمہ کے لئے عدلیہ کو دبائو میں لانے کا ایک حربہ ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے اور عوام کو دھوکا دینے کے لئے بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کی اس سزا کے پیچھے اندھا انتقام ہے‘ جس کا مقصد انہیں انتخابات سے روکنا اور الیکشن فکس کرنا ہے۔ دراصل ‘الیکشن فکس ہونے‘ کے الفاظ ان کی زبان سے سلپ ہو گئے تھے۔یہی تھیوری انہوں نے 2013ء کے انتخابات کے دوران بھی اپنائی تھی۔ میں نے 2 مارچ 2013ء کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے قوم کو آگاہ کر دیا تھا کہ 11 مئی 2013ء کے انتخابات نواز شریف نے فکس کرا دئیے ہیں۔ 9 مئی 2013ء کو ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے کھلم کھلا کہہ دیا تھا کہ نواز شریف کو کامیاب کرانے کے لئے بھارتی فنڈز استعمال میں لائے جا رہے ہیں‘ اور را کے حامیوں سے نواز شریف کو کامیاب بنانے کے لئے غیر ملکی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔ اب مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے کہ نواز شریف 25 جولائی کے انتخابات کو متنازعہ بنانے کی راہ پر نکل آئے ہیں۔ ان کا مقصد پاکستان کو متاثر کرنا ہے، لیکن ان کی تمام سازشوں کو شہباز شریف کی حکمتِ عملی نے ناکام بنا دیا‘ اور لاہور ایئر پورٹ پر ان کے استقبال کے لئے ان کی پارٹی کا کوئی سابقہ وزیر یا راہنما نہیں پہنچا‘ جس سے بہرحال نواز شریف کو مایوسی ہوئی اور انہیں حقائق کا کافی حد تک علم ہو گیا ہو گا۔ اگر رکاوٹیں کھڑی تھیں تو شیخ رشید کی طرح موٹر سائیکل پر پہنچ جاتے‘ اس میں پریشانی کی کیا بات تھی‘ مجمع بعد میں آتا رہتا‘ لیکن پارٹی کے اہم عہدے دار تو اپنے قائد کے استقبال کے لئے پہنچتے۔
اب میں قارئین کو 15 دسمبر 1975ء کی طرف لے جا رہا ہوں ‘ جب مسٹر بھٹو نے آئین میں ترمیم کی تھی۔ 15 دسمبر 1975ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکر ٹری جنرل اور قومی اسمبلی کے ممبر ڈاکٹر مبشر حسن نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عزائم کو سامنے رکھتے ہوئے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا کہ وہ آئین میں پانچویں ترمیم کے لئے ایک بل پیش کرنے پر غور کر رہے ہیں‘ جس کے تحت ان تمام امور کے بارے میں اعلیٰ عدالتوں کا اختیارِ سماعت ختم کر دیا جائے گا‘ جن کا تعلق غریب عوام کو قانون کے تحت جائیداد دینے سے ہو۔ وزیر اعظم بھٹو نے 1973ء کا آئین 14 اگست کو منظور کرا کے نافذ کروایا تھا اور اس کے اگلے ہی دن آئین میں پہلی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا تھا۔ وزیر اعظم بھٹو نے 1973ء کا آئین اپوزیشن کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا اور اس کی منظوری کو اپنا کارنامۂ عظیم قرار دیا تھا، لیکن بار بار کی ترامیم سے اس کی روح کو خود ہی مسخ کر کے اپنے ہی کارنامے پر پانی پھیر دیا۔ آئین میں چوتھی ترمیم کے بارے میں ملک بھر میںاحتجاج اور اضطراب کی لہر دوڑ رہی تھی اور یہ بے چینی محسوس کی جا رہی تھی کہ جب ایک آئین متفقہ طور پر بنایا اور منظور کرکے نافذ کیا گیا ہے تو پھر اچانک اس میں ترامیم کی ضرورت کیوں محسوس کی جانے لگی ہے۔ اسی دوران ڈاکٹر مبشر حسن نے پانچویں ترمیم کی ‘نوید‘ سنا دی، جس کے نتیجے میں پہلے سے جاری اضطراب میں مزید اضافہ ہو گیا۔ میرے خیال میں پیپلز پارٹی کو ملکی آئین اور جماعتی منشور میں فرق ملحوظ رکھنا چاہئے تھا‘ لیکن ڈاکٹر مبشر حسن اپنے منشور کو ہی آئین بنانے پر بضد رہے تو اپوزیشن نے مطالبہ کر دیا کہ حکومت اب موجودہ آئین میں ترامیم کر کے اس کی روح کو مسخ کرنے کے بجائے اسے کالعدم قرار دے دے‘ اور نئے سرے سے جماعتی منشور کو مکمل آئین کے طور پر منظور کرا لے۔ اپوزیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایوان میں وزیر اعظم بھٹو کو بھاری اکثریت حاصل ہے اور وہ یہ امر بھی خوش اسلوبی اور آسانی کے ساتھ کر سکتی ہے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ اسی انداز سے نواز شریف اپنی ذاتی خواہشوں اور منصوبوں کو‘ جو پرویز رشید کی سر براہی میں جاتی امرا میں تیار ہوتے رہے ہیں‘ کو آئین کا حصہ بنانے کی مہم چلا رہے ہیں‘ اور ووٹ کو عزت دو کے پس منظر میں مسٹر بھٹو کی طرز پر عدالتی اختیارات کم کرنے، آئین کے آ رٹیکل 183(3)،62, 63, ،2A میں اپنی خواہش کے مطابق ترامیم کر کے اور آرمی ایکٹ میں تبدیلی کر کے آرمی چیف کے اختیارات پر قدغن لگانے کی سازشوں میں ملوث رہے ہیں۔ نواز شریف نے اپنی تقاریر میں آئین میں تیزی سے ترامیم کرانے کا اعلامیہ جاری کر کے عوام کے دلوں میں یہ شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں کہ آئین کوئی مقدس شے نہیں ہوتی اور جب جس طرح چاہو‘ اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح تو آئین نقاد کا مضمون بن کے رہ جائے گا کہ بار بار کی ترامیم سے آئین کی روح ویسے ہی پہلے جیسی نہیں رہی اور موجودہ آئین ترامیم والا آئین بن کر رہ گیا ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد گرفتاری تک کے تمام ارشادات کو ملا کر پڑھا جائے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آرمی اور عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ساتھ شاہد خاقان عباسی بھی دیتے رہے اور اب شہباز شریف ان کے مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم بھٹو نے اپوزیشن کی بھرپور مخالفت کے باوجود آئین میں یکے بعد دیگرے سات ترامیم کر کے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی روح کو مجروح کر دیا تھا‘ اسی کی کوکھ سے5 جولائی 1977ء کا سانحہ برآمد ہوا اور اب نواز شریف جس طرح آئین میں ترامیم کر کے جاتی امرا کی اشرافیہ کی حکومت تشکیل دینے نکلے تھے‘ تو 6 جولائی 2018ء کو عدالت نے ان کے بارے میں فیصلہ سنا دیا، اور وہ 13 جولائی کو اڈیالہ جیل منتقل ہو گئے۔ مستقبل کے کسی مہم جو نے ایسی ہی راہ اختیار کی تو اس کی منزل بھی بظاہر جیل ہی ہوگی، لیکن ملک و قوم، وحدتِ پاکستان پر آنچ نہیں آئے گی۔ اس طرح کی راہ جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو اختیار کی تھی‘ اور آج وہ ملک بدر ہیں، اور واپسی پر ان کو بھی جیل کی یاترا کرنی پڑے گی۔ میری یہ دلی خواہش ہے کہ آئندہ کے سیاستدان اور حکمران آئین کے تقدس کو برقرار رکھیں، اور اپنی جماعتی منشور کو آئین کی جگہ دینے کے فضول شوق ترک کر دیں۔ موجودہ حالات میں ایسی مضبوط‘ فعال اپوزیشن پارلیمنٹ میں پہنچے گی‘ اس طرح وزیر اعظم‘ چاہے وہ کوئی بھی بنے‘ من مانی خواہش کی تکمیل کے لئے آئین میں ترامیم کرانے سے گریز کرے گا۔ (ختم)
میری یہ دلی خواہش ہے کہ آئندہ کے سیاستدان اور حکمران آئین کے تقدس کو برقرار رکھیں، اور اپنی جماعتی منشور کو آئین کی جگہ دینے کے فضول شوق ترک کر دیں۔ موجودہ حالات میں ایسی مضبوط‘ فعال اپوزیشن پارلیمنٹ میں پہنچے گی‘ اس طرح وزیر اعظم‘ چاہے وہ کوئی بھی بنے‘ من مانی خواہش کی تکمیل کے لئے آئین میں ترامیم کرانے سے گریز کرے گا۔