ووٹ کی شرعی حیثیت….مفتی منیب الرحمٰن
عہد رسالت ﷺ ‘عہد خلافتِ راشدہ اور قرونِ اُولیٰ میں ووٹ یااس کے ہم معنی کوئی اصطلاح رائج نہیں ہوئی ۔ یہ جدید جمہوری دور کی اصطلاح ہے۔ آکسفرڈ ڈکشنری میں ووٹ کے معنی یہ ہیں ”کسی منصب کے لیے ایک سے زیادہ امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ‘خواہ بیلٹ کے ذریعے یا ہاتھ اٹھاکر ہو‘‘۔عہد رسالتﷺ‘ عہدخلافت راشدہ اور بعد کے ادوار میں ہمیں ”بیعت‘‘کی اصطلاح ملتی ہے ‘جو قرآن وحدیث میں بھی مذکور ہے۔عہد رسالت میں مختلف مواقع پر بیعت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہمیں ملتی ہیں:(1)قبولِ اسلام کے لیے ”بیعت علی الاسلام ‘‘ (۲)ہجرت کے موقع پر”بیعت علی الہجرۃ‘‘(۳) جہاد کے موقع پر ”بیعت علی الجہاد ‘‘۔سلمہ بن اکوع سے نبی اکرم ﷺ نے دو مرتبہ جہاد پر بیعت لی۔یزید بن ابی عبید کہتے ہیں :” میں نے سلمہ سے کہا: آپ کس چیز پر بیعت کرتے تھ؟انہوں نے کہا: موت پر‘‘(بخاری:4169)۔ (۴)ایک بیعت مُنکَرات کے ترک کرنے اور مامورات پر عمل کرنے کے بارے میں تھی ‘قرآنِ کریم میں ہے ”اے نبی!جب آپ کے پاس مومنات اس پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی ‘ وہ نہ چوری کریں گی ‘ نہ بدکاری کریں گی‘ نہ اپنی اولاد کوقتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کے درمیان کوئی بہتان تراشی کریں گی اور نہ ہی کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی کریں گی ‘ تو اُن سے بیعت لے لیں‘‘ (الممتحنہ: 12) اسے ”بیعتِ مومنات‘‘بھی کہا جاتا ہے‘ مگر یہ مومنات کے ساتھ خاص نہیں ‘ عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں : ”ہم نے بیعتِ عقبۂ اُولیٰ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے عورتوں والی بیعت کی ‘کیونکہ اس وقت تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا‘‘ ۔
رسول اکرمﷺ کے بعد بیعتِ امارت یا بیعتِ خلافت تھی‘جوکئی صدیوں تک رائج رہی ۔خلفائے راشدین بیعتِ عام مسجد نبوی میں لیتے تھے ‘اُس کی حیثیت آج کے Vote of Confidence کی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بیعت غیر مشروط تھی ‘انبیائے کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے چنیدہ ہوتے ہیں اور اُن کے علم کا منبع وحیِ ربّانی ہوتا ہے ‘لہٰذا اُن کے فرامین کو رد کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ‘ جبکہ حاکمِ وقت کی اطاعت قرآن وسنت کی موافقت کے ساتھ مشروط ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”پس اگر تمہارا ان سے کسی چیز میں اختلاف ہوجائے ‘ تو اُس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹادو‘‘(النسائ:59) اللہ تعالیٰ کی منشا قرآن سے اور رسول اللہ ﷺ کی منشا حدیث سے معلوم ہوگی ‘یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی منشا ایک دوسرے کی ضدنہیں ‘ بلکہ ایک ہی ہیں۔قرآنِ کریم میں ہے ”اور جس نے رسول کی اطاعت کی‘ اُس نے (درحقیقت ) اللہ (ہی) کی اطاعت کی‘‘ (النسائ: 80)۔
ہمارے موجودہ دستوری نظام میں بھی‘ اگرکوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف ہو‘ تو اُسے عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور جس کا موقف آئین وقانون کے مطابق ہوگا ‘ عدالت اُس کی توثیق کرے گی‘لیکن ہمارے ہاں ایسے معاملات کو معرضِ التوا میں ڈال دیا جاتا ہے یاوہ لوگ فیصلہ کرتے ہیں ‘جنہیں قرآن وسنت اور فقہِ اسلامی میں مہارت نہیں ہے۔
اس سے قطع نظر کہ مطلق جمہوریت کی شرعی حیثیت کیا ہے ‘ جدید دور میں مختلف سطح کے قانون ساز اداروں کے ارکان ‘ وزرائے اعظم اور صدور کا انتخاب ووٹ کے ذریعے ہی ہوتا ہے ۔بعض مناصب کے انتخابات بالواسطہ اور بعض کے بلاواسطہ ہوتے ہیںاور ووٹر کے لیے کم از کم عمر کی شرط ہوتی ہے‘ تعلیم یا صداقت و دیانت کی کوئی شرط نہیں ہوتی ‘ عام انتخابات میں ہر ادنیٰ واعلیٰ ‘ عالم وجاہل ‘امین اور خائن ‘یہاں تک کہ منصف اور قاتل کی رائے کا وزن برابر ہوتا ہے ۔
موجودہ دور کے علماء میں سے علامہ مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن‘‘ میں ووٹ کی شرعی حیثیت پر بحث کی ہے اور انہوں نے ووٹ کو شہادت کا درجہ دیا ہے؛‘چنانچہ وہ لکھتے ہیں:(۱)”خصوصاً اسمبلیوں اور کونسلوں میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے ‘جس میں ووٹ دینے والا اسی بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے نزدیک یہ امیدوار اپنی قابلیت اور دیانت وامانت کے اعتبار سے قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے ‘‘۔(۲)”اسی طرح امتحانات میں طلبا کے پرچوں پر نمبر لگانا بھی ایک شہادت ہے ‘اگر جان بوجھ کر یا بے پروائی سے نمبروں میں کمی بیشی کردی ‘ تو یہ جھوٹی شہادت ہے ‘ جوحرام اور سخت گناہ ہے ‘‘۔(۳)”قرآن کی رُو سے نمائندوں کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کی ایک اور حیثیت بھی ہے ‘جس کو سفارش کہا جاتا ہے ‘ گویاووٹ دینے والا یہ سفارش کرتاہے کہ فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے ‘اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”اور جو شخص اچھی سفارش کرے گا‘ تو( نیک کاموں میں)اس کا بھی حصہ ہوگا اور جو بری سفارش کرے گا‘تو( برے کاموں میں)اُس کا برابر کا حصہ ہوگا ‘‘ (النسائ:85)۔
ہماری رائے میں مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر ووٹ کی یہ حیثیتیں محلِ نظر ہیں:جس قضایا عدالت میں گواہی دی جاتی ہے‘ اُسے اُس کے ردوقبول کا اختیار ہوتا ہے ‘جبکہ جائز ووٹ کو الیکشن کا عملہ یا ریٹرننگ آفیسر رد نہیں کرسکتا‘اسی طرح کسی کے حق میں سفارش کی جائے ‘ تو جس کے پاس سفارش کی جارہی ہے ‘شریعت کی رُو سے اُسے اُس کے رد وقبول کا اختیار ہوتا ہے ‘جو حدیثِ پاک سے ثابت ہے‘لیکن پولنگ اسٹیشن کا پریذائڈنگ افسر یا عملہ یا ریٹرننگ افسر ازروئے قانون کسی جائز ووٹ کو رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے‘اسی طرح موکِّل اپنے وکیل کو معزول کرنے کا اختیار رکھتا ہے ‘جب کہ ووٹ دیتے ہی مؤثر ہوجاتا ہے ‘اس کے بعدووٹر نہ اپنے امیدوار کو معزول کرسکتا ہے اور نہ اپنے ووٹ کو منسوخ کرسکتا ہے ۔منتخب امیدوار کی نا اہلی کو جانچنے اور نا اہلی کی بنیاد پرمعزول کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن یا الیکشن ٹرائبونل یااعلیٰ عدالتوں کے پاس ہوتاہے ‘ ووٹر زکے پاس نہیں ہوتا۔
پس ہماری رائے میں ووٹ قضاہے ‘جس طرح ہمارے نظامِ عدالت میں ماتحت عدالتوں میں ایک جج فیصلہ کرتا ہے ‘ مگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فیصلہ کبھی ایک جج کرتا ہے ‘اسے Single Benchکہتے ہیں ‘کبھی دو یا تین جج کرتے ہیں ‘ اسے Small Benchکہتے ہیں ‘کبھی اس سے زیادہ جج کرتے ہیں ‘اسے Larger Benchکہتے ہیں اور کبھی عدالت کے تمام جج صاحبان کسی اہم پٹیشن کی سماعت کریں ‘تو اسے Full Courtکہتے ہیں ۔ دو ججوں کی رائے مختلف ہوجائے ‘تو ریفری جج مقرر کیا جاتا ہے‘ دو سے زیادہ ججوں پر مشتمل بنچ کی صورت میں اگر ان کے درمیان اتفاقِ رائے نہ ہوسکے‘ تو کثرتِ رائے سے فیصلہ ہوتا ہے ‘لہٰذا ایک حلقۂ انتخاب میں کل ووٹروں کی مثال ایک جیوری یا عدالت کی ہے ‘ اگر ووٹ ازروئے قانون درست ہے ‘ تو اُسے کوئی رد نہیں کرسکتا ‘ اگر کرے گا توعدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ملکی قانون میں انتخاب کے موقع پر جو ووٹر انتخاب میں حصہ نہیں لیتے ‘ وہ اپنے حقِ قضا سے محروم ہوجاتے ہیں اور جو حصہ لیتے ہیں ‘اُن کی رائے قضا میں شامل ہوتی ہے اورفل کورٹ کی طرح اکثریت کا فیصلہ جس امیدوار کے حق میں آئے‘ وہ منتخب ہوجاتا ہے ۔امیدوار کو کسی بھی درجے یاکسی منصب کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا بھی قضا ہے‘اسی طرح وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن یا سلیکشن بورڈ زکی حیثیت بھی قضا کی ہے؛ البتہ مفتی صاحب کی اس رائے سے ہمیں کامل اتفاق ہے :”پرائمری تا پی ایچ ڈی کسی بھی تعلیمی درجے میں کامیاب طالب علم کو سند دینااس امر کی شہادت ہے کہ وہ مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس علمی قابلیت کا حامل ہے ‘سو اگر کسی کو مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کیے بغیر سند دی گئی ہے ‘تو یہ شہادتِ کاذبہ ہے‘جیساکہ 2002کے انتخابات میں اس کی متعدد مثالیں سامنے آئیں ۔پس طالبعلم یا امیدوار کو اس درجے کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا قضا ہے اور اُس کی سند شہادت ہے‘اگر ووٹر اپنی قضا میں خیانت کرتا ہے‘ تو اس کے بارے میں شدید وعید ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اگرصاحبِ اختیار نے یہ جاننے کے باوجود کہ (منصب کے لیے ) کتاب اللہ اور سنت ِرسول کا زیادہ علم رکھنے والا بہتر شخص موجود ہے ‘ کسی( جاہل اور خائن)کوعامل بنایا‘ تو اس نے اللہ‘اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی:20364)۔آپ ﷺ نے فرمایا ”جس کو لوگوں پر قاضی بنایا گیا ‘اُس کوبغیر چھری کے ذبح کردیا گیا ‘‘ (سنن ترمذی:1325) چھری کے بغیرذبح کیے جانے سے مراد کسی ایسے کند آلے سے ذبح کرنا ہے‘ جس کی تکلیف ناقابلِ تصور ہے۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا: قاضیوں کی تین قسمیں ہیں؛ ایک جنت میں ہوگا اور دو جہنم میں ہوں گے ۔جنت میں وہ شخص ہوگا‘ جس کو حق کا علم ہواور وہ اس کے مطابق فیصلہ بھی کرے ‘ جس شخص کو حق کا علم ہے ‘مگر وہ فیصلے میں ظلم کرتاہے‘تو وہ جہنم میں ہوگا اور جو شخص بغیر علم کے لوگوں کے فیصلے کرے‘ وہ بھی جہنم میں ہوگا‘ ‘(ابودائود:3573)۔
پس جب ووٹرز کے پاس منصبِ قضا آئے اور وہ عدل پر مبنی فیصلے نہ کریں ‘ تو اُن کا یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ جس امیدوارکے بارے میں انہوں نے فیصلہ کرتے وقت اپنے آپ پر اور پوری قوم پر ظلم کیا ہے‘ وہ عدل کا علمبردار ہوگا‘ یہ ببول کا درخت لگاکر گلاب کے پھول یا انگور کے خوشوںکی تمنا کرنے کے مترادف ہے۔