ووٹ کی عزت؟…ڈاکٹر لال خان
جب سے میاں صاحب کو اقتدار سے سبکدوش کیا گیا ہے ،ان کی غیر متوقع مزاحمتی تحریک کا بنیادی نعرہ ”ووٹ کو عزت دو‘‘ پیش کیا گیا ہے۔ ویسے ووٹ دینے والوں کی بھاری اکثریت کو تو کبھی اس نظام میں عزت ملی نہیں ،لیکن اس بارچونکہ ووٹ لینے والوں کی اپنی عزت خطرے میں ہے، اس لئے میاں صاحب کو اب احساس ہوا ہے کہ یہ نظام اور اس کی جابر حاکمیت جب عزت روندتی ہے‘تو اس سے ان لوگوں کے احساس اور دل ودماغ پر کیسی گہری ضربیں لگتی ہیں۔ میاں صاحب کی رسوائی تو ہوئی ہے لیکن اب ووٹ کی عزت کے نام پر وہ اپنی عزت اور قدرومرتبت کی بحالی کے خواہاں ہیں۔مگر ووٹ کو ہمیشہ ووٹ لینے والے کی عزت کیلئے استعمال کیا گیا۔سیاسی پارٹیوں نے ہر دفعہ عوام کے ووٹ کی مدد سے اقتدار کے مزے بھی لئے اور دولت کے انبار بھی لگائے۔ہر اقتدار خواہ وہ جس قسم کے ‘ فارمولے‘ کے تحت جمہوری بنایا گیا ہو، اس نے عوام اور ووٹ کی تحقیر میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔حکمران طبقے کے ہر حصے نے اسی نظام کے ساتھ لوگوں کی تقدیر کو وابستہ کیا اور پھر ان کے ساتھ ہونے والے کھلواڑکا کبھی انت نہیں ہوا۔ آمریتوں کے طویل اقتدار میں عوام کی امیدیں پھراسی جمہوری نظام کی طرف مبذول کرائی گئیں ۔ بہت سے بائیں بازو کے لیڈر بھی ان سرمایہ دار سیاست دانوں سے مل کر ایک مسترد شدہ مرحلہ وار نظریے کے تحت عوام کی نفسیات میں’ جمہوریت ہی میں ان کی نجات ہے ‘کی سوچ گہری کرتے رہے۔ ملک کی ترقی اور معاشرے کی خوشحالی کی خوش فہمیاں مسلط کرتے رہے ۔ پھر ایسے مرحلے بھی آئے جب کئی مذہبی پارٹیاں جن کو اس سرمایہ دارانہ سیاست کی لت لگی ہوئی ہے، جمہوریت کی بحالی کے لئے کوشاں رہیں ۔ گو کسی بھی آمرانہ یا خارجہ جارحیت کے خلاف متحدہ محاذوں کے ذریعے جدوجہد ایک درست پالیسی ہے، لیکن محنت کشوں کے نمائندوں اور پارٹیوں کا کسی طبقاتی متبادل اور تفریق کو قائم رکھنے کی پالیسی پر کاربند رہنا فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہوتا ہے کارل مارکس جب بیلجئم کی ڈیموکریٹک لیگ کے اتحاد میں فاسد قوتوںکے خلاف کچھ بورژوا اوراصلاح پسند پارٹیوں کے ساتھ ایک جدوجہد متحرک اور منظم کررہا تھا تو اس نے لکھا کہ”ہم جب کسی زیادہ بڑے جابر دشمن کے خلاف ایک تحریک میں برسرپیکار ہوتے ہیں تو ہمیں نہ صرف بڑے ہدف پر پوری نظر رکھنے اور بھرپور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ہمیں اپنے ان اتحادیوں کی جانب بھی کن اکھیوں سے مسلسل نظر رکھنی ہوتی ہے۔ وہ تحریک کے دوران بھی دھوکہ دے سکتے ہیں اور اس کے اختتام کے بعد ہونے والی فتح کے بعد یہ ہمیں ہی سب سے پہلے زچ کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔ اسی طرح انقلاب روس کے قائد ولادیمیر لینن نے”متحدہ محاذ‘‘ پر بہت تفصیل سے پالیسی لائحہ عمل اور طریقہ کار پر لکھا ہے۔
پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ایم آر ڈی سے لے کر اے آر ڈی تک فوجی آمریتوں کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں بائیں بازونے اس احتیاط اور لائحہ عمل کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ اس لئے جب آمریتیں منہدم ہوئیں تو اس کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں میں محنت کشوں کے مفادات کو ٹھیس ہی نہیں پہنچی ان کی زندگیاں مزید تلخ ہوتی گئیں۔ آج پھر محنت کشوں کی تحریک کو اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اتنی جدوجہد اور قربانیاںدینے اور آمریتوں کو گرانے کے لئے جان کی بازی لگانے والوں کو جمہوری حکومتیں میں رسوائیاں ہی ملی ہیں۔اس جمہوریت نے جمہور کی تذلیل اور تضحیک ہی کی ہے۔ جس نظامِ زر کی جمہوریت میں آبادی کے ایک فیصد کو ووٹ لینے کی آزادی ہو اور 99فیصد کو صرف ووٹ دینے کی آزادی ہوایسی جمہوریتوں میں معاشروں کے عذاب ختم نہیں ہوتے، سماجی ترقی نہیں ہوا کرتی اور آبادی کی بھاری اکثریت کی زندگیاں کبھی اذیتوں سے چھٹکارا حاصل نہیںکرسکتیں۔ کارپوریٹ سیاست میں ان کے مفادات اور آہ وبکا کی آواز سنائی اوردکھائی نہیں جاسکتی۔ اہلِ دانش ،بڑے بڑے تجزیہ کار اور مفکرین اس استحصال اور ظلم کے نظام کو حتمی اور ناقابلِ تبدیل ہونے کی سوچ رکھتے ہیں۔ اس نظام میں مختلف کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ سیاست شدید انتشار کا شکار ہے۔ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے علاوہ سیاست میں کچھ رہ نہیں گیا۔ ٹیلی ویژن کی سکرینوں سے لے کر عوامی جلسوں تک میں ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگانے والوں نے ایک بے ہودہ نورا کشتی کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔لیکن ان کے نظریات میں کوئی فرق ہے اور نہ ہی ان کی سیاست کے اغراض ومقاصد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایک دوسرے کو غدار کہنے والے بعد میں موقع پرستی کے بنیادی اصولوں کے تحت انہی غداروں کے ساتھ حکومتی الحاق میں مخلوط حکومتیں بناتے ہیں۔ بڑے بڑے غدار اقتدار میں آنے کے بعد سب سے بڑے محب وطن بننے کا ناٹک کرتے ہیں۔ اور ‘حب الوطنی کے پرانے چیمپئن ‘ جب حاکمیت سے ٹکرائو کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘توان کواچانک غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن مالیاتی سیاست کے ان ٹھیکیداروں کے باہمی سماجی وخاندانی رشتے بہت گہرے ہوتے ہیں۔ایک دوسرے کی شادیوں اور خوشیوں میں”بڑے سے بڑے‘‘ سیاسی دشمن سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔زیادہ تررشتے داریاں حاکمیت کے آقا سیاست دانوں‘سرمایہ داروں ‘جاگیرداروںکی اولادوں کے درمیان ہی ہوتی ہیں۔ چونکہ ان کے لئے ہررشتے کی استواری کا مقصد اپنی سیاسی اور مالیاتی اجارہ داری کو وسعت دینا ہوتا ہے۔ ان کی عزت ومرتبت ‘ ان کا جاہ وجلال اور ان کی سماجی ساکھ صرف اور صرف پیسے کے بل بوتے پر ہوتی ہے۔ اس معاشرے کی اقدار اوررائج اخلاقیات میں چونکہ انسانی شخصیت اور عزت کا تعین پیسہ کرتا ہے اس لئے یہاں محنت کش اور غریب کی عزت کا اس طبقاتی تقسیم اور ہولناک عدم مساوات میں حاصل ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔بڑے بڑے غنڈوں اور قاتلوں کو پیسے کے بل بوتے پر شرافت اور نیکی کے سر ٹیفکیٹ یہاں کی اخلاقیات کے ٹھیکیدار فوری جاری کردیتے ہیں۔ غریبوں کے لئے صرف حقارت اور تضحیک ہے اور امیروں کے لئے سیاست سے لے کر معاشرت تک ہر شعبے میںہر سماجی قدرومنزلت موجود ہے۔ ایسے میں ان90فیصد غریبوں کے ووٹ کی عزت کے کیا معنی ہیں؟لیکن میاں صاحب کی رسوائی سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جمہوریت اور اس کا اقتدار کتنا نحیف ‘ لاغر اور محدودیت کا شکار ہے۔ اب میاں صاحب اور ان کے اتحادی اسی نظام میں کسی گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے اس طاقت کے توازن کو درست کروانے کے لئے کوشاں ہیں ۔ اگر معاشرے میں اقتصادیات پختہ ہوتی اور نظام کا بحران اتنا شدید نہ ہوتاتو حکمران طبقات کے ان دھڑوں میںکوئی مصالحت یا معاہدہ ممکن تھا۔ اب گرینڈ ڈائیلاگ ایک بے معنی اور لاغر اصطلاح کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس گلے سڑے نظام کے پست سوچوں والے دانشور‘ اس اصطلاح کے ذریعے اپنی قابلیت کی نمائش کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ اگرچہ سب اداروں‘ پارٹیوں اور کارپوریٹ میڈیا کا اس نظام ِزر کے وجود اورتسلسل پر نظریاتی اتفاق ہے تو پھر ان کا یہ نفاق اور سنگین تصادم اس نظام کی ہی ناپائیداری کی غمازی کرتا رہا ہے۔ ظاہری طور پر اس نظام کی انقلابی تبدیلی نہ صرف افق پر واضح نہیں ہے بلکہ آج کے ‘اہل دانش‘ ان الفاظ کی تضحیک کرتے پائے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی یہ رعونت اور غرور ان کی طاقت نہیں بلکہ کسی انقلابی تبدیلی کے خوف کی غمازی کرتا ہے۔ حقائق اور واقعات سے انکار کردینے اوران کو تسلیم نہ کرنے سے وہ ختم نہیںہوتے۔اب تک تومحنت کش طبقہ ووٹ ڈال کر اپنی تضحیک ہی کراتا چلا آرہاہے۔ ووٹ دینے والے عام انسانوں کو عزت صرف اسی صورت حاصل ہوسکتی ہے جب ان کی محرومی اور محکومی ختم ہو۔ان کو بنیادی ضروریات زندگی میسر ہوں۔ روٹی روزگار تعلیم علاج اور سماجی انصاف معاشرے کو حاصل ہو۔ اس ظلم وجبر کے استحصالی نظام میں ان کو صرف ذلتیں اور رسوائیاں ہی ملی ہیں۔اب تک اپنے ہاتھ سے ووٹ ڈالنے والے ‘ ایک دن اپنی ذلتوں کا انتقام اپنے ”پیروں‘‘ سے ووٹ دے کر کریں گے۔ تاخیر کا شکار تحریکیں جب چل پڑیں او ر جب خلق نکل آئی تو پھر راستے میں آنے والے جبر اور ہر ظلم کو پاش پاش کردیں گی۔تب نسلوں سے ان کے دلوں اور روح میں جاگزین غم وغصے کا لاوا ایک آتش فشاں بن کر پھٹے گا۔