منتخب کردہ کالم

وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں ..وقارخان

وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں ..وقارخان

وہ حبس ہے صاحب کہ حبسِ بے جا کا گماں ہوتا ہے ۔ اس موسم پر تو حبس بے جا کا پرچہ ہونا چاہیے ۔ خدا معلوم ساون میں ہمارے شعرا ء کے رومانوی جذبات کیوں برانگیختہ ہو جاتے ہیں؟ انہیں تو نہری علاقوں میں پیدا ہونا چاہیے تاکہ سر سے اونچے سیلابی ریلوں میں ان کے جذبات کو افاقہ ہو سکے ۔ اس ” پانی ‘‘ میں ایسی تاثیر ہے کہ ڈوبتے گھروں کی چھتوں اور اونچے ٹیلوں پر بے یارومددگار امدادی ہیلی کاپٹر کے انتظار میں کھڑے اور اپنے مال و متاع کو بے بسی سے پانی میںبہتے دیکھ کر بندہ ” تیری دو ٹکیاں دی نوکری ، میرا لاکھوں کا ساون جائے ‘‘ جیسے واہیات خیالات سے تائب ہو جاتا ہے ۔ آزمائش شرط ہے ۔
دوسری جانب ہمارے پسماندہ بارانی اور شہری علاقوں کی زندگی بھی رومانوی جذبات کو لگام دینے کے لیے موزوں ہے ۔ ساون کی بارش میں گلیوں اور گھروں میں گھستا منہ زور پانی اور ٹپکتی چھتیں استقبال کرتی ہیں جبکہ خشکی کے دوران ہوا میں نمی کے تناسب میں اضافے سے دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے ۔ ہمہ وقت پسینے میں شرابور انسان ، جسے ایک تکلیف دہ ماحول میں سانس لینے میں بھی دشواری پیش آ رہی ہو ، اس کا دل تو رومانس کی بجائے کاٹ کھانے کو کرتا ہے ۔ ہم دیہاتیوں کو ایک اضافی سہولت یہ بھی حاصل ہے کہ بادل کی شکل دیکھتے ہی بجلی شرما کر غائب ہو جاتی ہے۔ پھر آئیسکو کے اہلکار دس بارہ گھنٹے تک اسے منا کر واپس نہیں لاتے ۔ اگر آپ کو یقین نہیں آیا تو آئیے ، آکر دیکھیے کہ ہم بارشوں کے موسم میں زندگی سے کیسے گھتم گتھا ہیں۔
حبس کی کثرت اور وسائل ، سہولتوں اور تعلیم کی قلت نے اس ملک کے باسیوں کو کنوئیں کے مینڈک جیسا بنا رکھا ہے ۔ وہ مینڈک کنوئیں کے اندر ہی پیدا ہوا تھا اور اس نے باہر کی دنیا نہیں دیکھی تھی ۔ جب باہر سے آ کر کنوئیں میں گرنے والے دوسرے مینڈک نے اسے بتایا کہ باہر کی دنیا اس کنوئیں سے کہیں زیادہ بڑی ہے تو جواب میں کنوئیں کے مینڈک نے اس کے موقف کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ میرے کنوئیں سے زیادہ وسیع چیز کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہم حرماں نصیب بھی اپنے کنوئیں میں پیدا ہوکر نسل در نسل یہیں رہ رہے ہیں ۔ ہم خود اس کنوئیں سے نکلنا چاہتے ہیں ، نہ ہمارے چارہ گر ہمیں باہر کی دنیا کی ہوا لگوانے کا رسک لینے پر آمادہ ہیں ۔
ساون کا حبس کچھ کم بلائے جان نہیں مگر چارہ گر سیاسی ماحول کی گھٹن میں اضافہ کر کے اس ” لطف‘‘ کو دو آتشہ کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے ایک معروف چارہ گر جناب پرویز مشرف کا تازہ فرمان ہے کہ آمروں نے اس ملک کو ٹھیک کیا مگر جب جب سویلینز آئے تو انہوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا۔ انہوں نے ڈکٹیٹر شپ اور سویلینز حکومت کا موازنہ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ملک نے ہمیشہ آمریت کے دور میں ترقی کی، پاکستان میں فوج ملک کو پٹڑی پر لاتی ہے اور سویلینز آ کر پھر اسے پٹڑی سے اتار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ملک میں چاہے جمہوریت ہو یا آمریت ، عوام یا ملک کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ عوام کو روزگار، خوشحالی اور سکیورٹی چاہیے ۔ ملک کے علاوہ علاقائی حبس میں اضافے کی خاطر ایک نکتے کی بات آپ نے یہ کہی کہ ایشیا کے سارے ممالک میں جہاں بھی ترقی ہوئی ، صرف ڈکٹیٹروں کی وجہ سے ہوئی ۔ گویا جہاں کنوئیں کے مینڈکوں کو بتایا جا رہا ہے کہ آمریت ہی ان کے درد کے درماں ہے ، وہاں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ :
سیاست ایک ہے افریقہ و ایشیا والی
کہ تاج و تخت ہے تو لشکرو سپاہ میں ہے
ہم اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے مشرف صاحب کو اس کے علاوہ اور کہا کہہ سکتے ہیں کہ ” کانواں دی کی قدر محمدؔ، لکھے کوئل بولے ‘‘ …یقینا آمریت کے ادوار میں ملک نے ترقی کی جبکہ سویلینز کی حکومت میں وطن عزیز کا بیڑہ غرق ہوا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جمہوریت میں بے وقعت آئین سازی اور ناقابل عمل قانون سازی ہوتی رہی جبکہ اس کے مقابلے میں ہر خود پرست آمر کے کنج لب سے پوٹھنے والے الفاظ مضبوط اور معتبر دستور ، قانو ن اور ضابطے بنتے رہے، جن سے ملک نے نہ صرف ترقی کی بلکہ دنیا میں اس کے وقار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ منتخب نمائندوں کے بنائے گئے آئین اور قوانین تو کاغذ کے ٹکڑے ہی رہے جنہیں جب چاہا کسی آمر نے پھاڑ کر پھینک دیا یا پائوں تلے روند ڈالا تاکہ وہ ترقی کے سفر میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ لا ریب !عوام کو روزگار ، خوشحالی اور سیکورٹی بھی لولی لنگڑی اور کوڑھ زدہ جمہوریت نے نہیں بلکہ ہمیشہ مضبوط اور صحت مند آمریت نے عطا کی ہے ۔ آمریت نے ہر دفعہ بیلٹ باکس کو ٹھوکر مار کر توپ و تفنگ کے بل بوتے پر ہمارے منتخب مگر نا اہل اور کرپٹ حکومتیں گرائیں اورہماری قبائے تار تار کی بخیہ گری کر کے ہمیں شکریہ کا موقع عطاکیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت گرا کر اور پرویز مشرف نے نواز شریف سرکار کا دھڑن تختہ کر کے ملک کو حقیقی استحکام کی راہ پر گامزن کیا تھا ۔ تاہم عجیب بات ہے کہ ملک کی لگ بھگ نصف تاریخ آمریت کی قیادت میں استحکام کے اس سفر میں گزری مگر صورتحال وہی رہی کہ :
کوئی بے فیض سفر پائوں سے لپٹا ہے کہ ہم
چلتے رہتے بھی ہیں اور نقل مکانی بھی نہیں
پرویز مشرف کے گراں قدر خیالات کے برعکس ہمارا جمہوریت پسند طبقہ سمجھتا ہے کہ آمریت نے یہاں حبس اور گھٹن کا ماحول پیدا کرنے کے سو ا کچھ نہیں کیا۔ ان کا خیال ہے کہ آمریت عوام کا حق حکمرانی غصب کر کے یہاں 33برس تک کبھی اسلام اور کبھی روشن خیالی کے ”اصلاحِ احوال‘‘ کے رنگا رنگ ایجنڈوں کے طوطے مینا اڑاتی رہی اور جب گئی تو ملک و قوم کو اجاڑ گئی ۔ ہم کئی دفعہ اپنا خون دے کر ڈکٹیٹر شپ کے حبس زدہ موسم سے نکلے مگر ہمیں کبھی بھی جمہوریت کی کھلی فضا میں سانس لینے کا زیادہ موقع نہیں دیا گیاورنہ ہم ایک معتبر اور خوشحال مملکت کے طور پر اپنی پہچان بنا سکتے تھے ۔ گویا ان کے خیال میں آمریت نے ہماری منزل کھوٹی کی اور ہمیں اس حبس زدہ کنوئیں سے نکلنے نہیں دیا۔
ہمارا جمہوریت کا شیدائی طبقہ جو ملک کی غالب اکثریت پر مشتمل ہے اور ہر دفعہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے نئے ولولے سے نکلتا ہے ، وہ آج کے حبس زدہ ماحول میں بے چین ہے ۔ کچھ حساس لوگ تو اتنے مضطرب ہیں کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں ۔ ایسے میں عدالت کی جانب سے نا اہل قرار دیئے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف نے پرویز مشرف کے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا کوئی عدالت ڈکٹیٹر کو بھی سزا دے گی ؟ اس کا جواب انہوں نے خو د ہی دے دیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے میں جانتا ہوں مگرفی الحال خاموش ہوں۔ ہمارے ناقص خیال میں جمہوریت پرست طبقے کی خاموشی نے بھی اس کنوئیں کے حبس میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے ۔ علامہ ققنس ؔ گنوری کے ان اشعار پر بات ختم کرتے ہیں :
حادثات ِ جہاں آئے ، آتے رہے
ہم تو قسمت کی کڑیاں ملاتے رہے
ہم سا سقراط پیدا ہوا ہے نہ ہو گا
زہر پیتے رہے ، مسکراتے رہے
جل بجھا طور پر ”نخل الفت‘‘ مگر
تم ہتھیلی پہ سرسوں جماتے رہے
لیلٰئی وقت ہم لوگ ہیں وضع دار
مار پڑتی رہی ، دُم ہلاتے رہے

آج کا اگلا کالم … مقبولیت کا فریب