منتخب کردہ کالم

وہ‘‘ ضرور آئے گا اک عہد حسیں کی صورت

منگل کی سہ پہر‘ ملک کے سب سے بڑے منتخب ایوان میں میاں محمد نوازشریف پر ایک بار پھر اعتماد کا اظہار کیا گیا‘ چار روز قبل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جنہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔ فیض یاد آئے ؎
یہ ہمی تھے جن کے لباس پہ سرراہِ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزمِ یار چلے گئے
نااہل وزیراعظم نے شاہد خاقان عباسی کو اپنے جانشین کے طور پر نامزد کیا اور منگل کی سہ پہر اس کی توثیق کرنے والے اپنے ہاتھوں میں نوازشریف کی تصاویر لئے ایوان میں داخل ہوئے۔ نوازشریف اور ان کی مسلم لیگ کی دیرینہ وفادار تہمینہ دولتانہ نے وزیراعظم کی خالی کرسی پر اپنے قائد کی تصویر سجا دی۔
پیرزادہ قاسم کے بقول ؎
موسمِ خشک میں خوشبو کا تصور تو رہے
طاق میں پھول کی تصویر سجائے رکھنا
تب ایوان کے اندر اور گیلریوں میں ”وزیراعظم نوازشریف‘‘ کے نعروں کی گونج تھی۔ 221 ووٹوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہونے والے شاہد خاقان عباسی کو اس حقیقت کے اظہار میں کوئی عار نہ تھی کہ ملک کے اعلیٰ ترین منتخب ایوان کا یہ عظیم الشان مینڈیٹ اصل میں ان کے قائد نوازشریف کے لئے ہے۔ع
سرآئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
اپنی 30 سالہ سیاسی رفاقت کے حوالے سے ان کی گواہی تھی‘ اُنہوں نے کبھی خود بدعنوانی کی‘ نہ ہمیں کسی بدعنوانی کے لئے کہا۔ قدرے جذباتی انداز میں وہ کہہ رہے تھے‘ ابھی ایک اور عدالت لگے گی‘ عوام کی عدالت (2018ء کے عام انتخابات) جس میں کوئی جے آئی ٹی نہ ہو گی۔ اس عدالت سے سرخرو ہو کر نوازشریف پھر آئے گا۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا :
میں ضرور آئوں گا ایک عہد حسیں کی صورت
اسی شام ایوان صدر میں نومنتخب وزیراعظم کی تقریب حلف وفاداری تھی‘ خیال تھا ‘ نوازشریف بھی تشریف لائیں گے لیکن اس صورت میں میڈیا سمیت سبھی کے مرکز نگاہ وہی ہوتے اور یوں نومنتخب وزیراعظم ”اوورشیڈو‘‘ ہو جاتے۔
یہ سابق وزیراعظم کی حکومت اور انہی کی پالیسیوں کا تسلسل تھا تو یہ توقع بیجا نہ تھی کہ نومنتخب وزیراعظم کے ساتھ وہی پرانی کابینہ بھی‘ نئی کابینہ کے طور پر حلف اٹھا لے گی۔ اس حوالے سے غلام اسحاق خان کے مثال یاد آئی (اگرچہ موصوف کی یاد سے کئی تلخیاں بھی وابستہ ہیں) 17 اگست 1988ء کو صدر ضیاء الحق (اپنے بعض رفقا کے ساتھ) اس جہان سے رخصت ہوئے تو سینٹ کے چیئرمین کے طور پر وہی ان کے جانشین تھے‘ اس کے لئے انہیں کسی سے اجازت یا منظوری کی ضرورت نہ تھی‘ لیکن وہ طاقت کے اصل مرکز و منبع سے واقف تھے جس کے فیصلے کا انہیں انتظار تھا۔ آٹھویں ترمیم کے تحت مسلح افواج کے سربراہوں کا تقرر صدر مملکت کا اختیار تھا لیکن وائس آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے آرمی چیف کا منصب سنبھال لیا تھا۔ بہاولپور سے (آخری سفر پر) روانہ ہوتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے انہیں اپنے C-130 میں ساتھ چلنے کی دعوت دی تو جنرل بیگ نے بتایا کہ انہیں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت ملتان میں رکنا ہے۔ اپنے چیف کو رخصت کرنے کے بعد جنرل بیگ کا طیارہ فضا میں بلند ہوا تو دیکھا‘ صدر کا C-130 زمین پر شعلوں کی زد میں تھا۔ تب جنرل بیگ نے سیدھا پنڈی کا رخ کیا۔ جی ایچ کیو میں فوج کی اعلیٰ کمان سر جوڑ کے بیٹھی۔ کہا جاتا ہے کہ مارشل لاء کا آپشن بھی زیرغور آیا تھا لیکن اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ اس صورت میں C-130 کے حادثے کا الزام جنرل بیگ پر آ سکتا تھا۔ تب ملک و قوم (اور خود مسلح افواج) کے مفاد میں سیاسی نظام کے تسلسل کا فیصلہ کیا گیا۔ سینٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خاں کو بلا کر انہیں صدر مملکت کے طور پر Continue کرنے کا کہا گیا۔
جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد نئے انتخابات کے لئے 16 نومبر کی تاریخ کا اعلان خود جنرل ضیاء الحق کر گئے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے نگران کابینہ بھی تشکیل دیدی تھی جناب اسلم خٹک اس میں سینئر وزیر قرار پائے تھے۔
پارلیمانی نظام میں (وہ آٹھویں ترمیم کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو) وزیراعظم کے بغیر کابینہ کی آئینی حیثیت کا سوال پیدا ہوا تو ضیاء الحق کی نظر مرنجاں مرنج غلام مصطفی جتوئی پر گئی۔ جتوئی صاحب شیروانی کے ساتھ راولپنڈی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔ ایک آدھ دن میں انہیں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانا تھا کہ سترہ اگست کا سانحہ ہو گیا۔
قائم مقام صدر مملکت غلام اسحاق خاں کا کہنا تھا کہ ان کے پیشرو عام انتخابات کے لئے جو آئینی انتظام کر گئے تھے وہ اس میں ایک اینٹ کا ردوبدل بھی نہیں کریں گے۔ چنانچہ وہ نظام وزیراعظم کے بغیر ہی چلتا رہا۔
16 نومبر کے عام انتخابات کے جماعتی یا غیر جماعتی بنیاد پر ہونے کا فیصلہ ابھی ضیاء الحق نے کرنا تھا‘ یہ معاملہ سپریم کورٹ نے طے کر دیا‘ بیگم نصرت بھٹو کی پٹیشن پر ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا حکم جاری کر دیا تھا۔
جناب شاہد خاقان عباسی کی طرف سے کابینہ کی حلف برداری کے لئے بدھ ساڑھے پانچ بجے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ اس کے التوا سے افواہوں اور قیاس آرائیوں کا جنم لینا فطری تھا۔ حقیقت میں صورتحال کوئی ایسی تشویشناک نہ تھی۔ سابق کابینہ کے پورٹ فولیوز میں ردوبدل کے ساتھ اس میں توسیع کا خیال بھی ابھرا۔ الیکشن میں سال بھر کا عرصہ باقی رہ گیا تھا اور نوازشریف جنوبی پنجاب کے ساتھ چھوٹے صوبوں کی نمائندگی میں اضافے کا سوچ رہے تھے۔ اب کابینہ کی حلفِ وفاداری میں دو دن کی تاخیر اسی کا باعث تھی۔
عین اس وقت جب ٹی وی چینلز کی تمام تر توجہ نئے وزیراعظم کے انتخاب پر مرکوز تھی‘ عائشہ گلالئی سکرینوں پر چھا گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رکن قومی اسمبلی اپنے چیئرمین “And a gang around him” کے خلاف سنگین الزامات کے ساتھ ایک دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔
معاملہ اتنا سنگین ہے کہ خان کے مداح جنرل امجد شعیب بھی اس کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سوات سے پی ٹی آئی کی بزرگ خاتون ایم این اے مسرت زیب یہ مسئلہ خواتین پارلیمانی کاکس (WPC) کے سپرد کرنے کی تجویز دے رہی تھیں۔ اس حوالے سے دلچسپ معاملہ جماعت اسلامی کا ہے۔ جماعت کے یوتھ ونگ کے سربراہ شاہجہان آفریدی نے عائشہ گلالئی کو جماعت میں شمولیت کی دعوت دی ہے جبکہ جماعت کی خاتون رکن قومی اسمبلی محترمہ عائشہ سید اس کے لئے گلالئی سے ملاقات بھی کر چکی ہیں۔ تو کیا جماعت اسلامی‘ کے پی کے میں اپنی اتحادی جماعت کے سربراہ کے خلاف ان الزامات کو درست مان رہی ہے؟ ایسا ہے تو پھر اس کے ساتھ اتحاد جاری رکھنے کا جواز؟
پارلیمانی نظام میں (وہ آٹھویں ترمیم کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو) وزیراعظم کے بغیر کابینہ کی آئینی حیثیت کا سوال پیدا ہوا تو ضیاء الحق کی نظر مرنجاں مرنج غلام مصطفی جتوئی پر گئی۔ جتوئی صاحب شیروانی کے ساتھ راولپنڈی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔ ایک آدھ دن میں انہیں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانا تھا کہ سترہ اگست کا سانحہ ہو گیا۔