منتخب کردہ کالم

وہ کدھر جائیں! (زبان خلق) امجد بخاری

پارٹیاں بدلنے کیلئے تیار بیٹھے سیاسی پنچھیوں نے اپنے پروں کو پھر سے سمیٹ لیا ہے سب ہوا کا رخ دیکھنا چاہتے ہیں، عادی بھی اور باغی بھی، سب ایک منزل کے مسافر ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُڑان اونچی بھی ہو اور حکومتی مچان پر جا بٹھائے مبادا ہوا کا غلط رُخ تھپیڑے دیتا اپوزیشن کے گھونسلے میں جا گرائے، اب تو وہ زمانے بھی گئے جب حکومت بھی آدھے ٹینیور کی ہوتی تھی اور اپوزیشن کی سختیاں بھی دو اڑھائی سال میں کاٹ لی جاتی تھیں پانچ سال اپوزیشن سہنا بلکہ بھگتنا ہمارے جمہوریت پسندوں کی مزاج اور شان کے خلاف ہے، پارٹیاں بدلنے کا موسم آیا ہے لیکن پانامہ کیس نے اچانک بریکیں لگوا دی ہیں بے یقینی کا شکار سیاستدانوں کی اکثریت نجی محفلوں میں کھل کھلا کر اور عوامی مقامات پر ایک دوسرے کے کانوں میں کُھسر پُھسر کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اکثریت ایک دوسرے سے سرگوشی میں پوچھ رہی ہوتی ہے کیا اطلاعات ہیں پانامہ لیگیوں کو کدھر لے جائے گا (ن) میں شامل ہونے کے لئے پانامہ فیصلے کا انتظار نہ کر لیا جائے! آپ کا کیا خیال ہے! حکومت پانامہ کیس سے بچ جائے گی؟ ایک دوسرے سے راز و نیاز اور مشاورت کے بعد دل کا فیصلہ سناتے ہیں کہ پانامہ کا فیصلہ آنے کو ہے اس لئے ہم تو بھئی تیل دیکھیں گے اور تیل کی دھار دیکھیں گے پھر نئی پارٹی کا فیصلہ کریں گے۔ یہ نہ ہو جلدبازی میں ڈوبتی کشتی میں جا بیٹھیں اور پھر 5 برس عوام سے چھپتے پھریں ہماری قوم کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی 5 سالہ جمہوریت سے نئے نئے روشناس ہوئے ہیں ورنہ تو انہیں مستقل اور دس سالہ عافیت صرف فوجی ادوار اور آمریت کی چھتری تلے بننے والی سیاسی جماعت میں ملتی رہی ہے کہ اس کا حصہ بنے اور پھر ایک دہائی اقتدار کے مزے لوٹے، ہماری دیہی علاقوں کی سیاست تو تھانہ کچہری سے جڑی ہے جہاں اپوزیشن کرنا تو خود کو جیتے جی مار دینا ہے اب بھلا ایسی سیاست سے گھر بیٹھ جانا اچھا جہاں نہ تھانیدار آپ کی بات سنے نہ پٹواری آپ کی بات مانے دیہات کی سیاست کرنے والوں کی اکثریت تو برملا کہتی ہے کہ ہم اپوزیشن کی کاٹھ نہیں کاٹ سکتے، اب ہر طرف اٹھنے والے الزامات کی بوچھاڑ اور چور چور کی پکار خود پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ انتخابات سر پر آ پہنچے ہیں ٹکٹوں کی تقسیم کا موسم آ چلا ہے وہی موسم جس میں رستے سیدھے کئے جاتے ہیں جیت کیلئے محفوظ حلقے ڈھونڈے جاتے ہیں اور اقتدار کیلئے محفوظ سیاسی جماعت کا انتخاب کیا جاتا ہے اصولی سیاست کے نام پر نئے نئے اختلافات بنائے جاتے ہیں بہانے تراشے جاتے ہیں اور رنجشوں کو اختلافات میں بدل کر راتوں رات پارٹیاں بدلی جاتی ہیں لیکن ایسے وقت میں پانامہ کا ایسا بکھیڑا آیا ہے کہ معلوم ہی نہیں ہو پا رہا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور کیا یہ بیٹھے گا بھی سہی یا اپنے ساتھ سب کو اسی طرح کھڑا رکھے گا بالکل لائن حاضر۔
سیانے دور کی کوڑی لاتے ہیں اور انہی سیانوں کے ہاتھوں خجل ہوئے سیاستدان پہلے تو ٹامک ٹوئیوں کا شکار ہوئے اورکبھی ایک د ر کے چکر لگائے تو کبھی دوسرے در کی نیازمندی چاہی لیکن کیس کی طوالت کے باعث تھک ہار کر انتظار کے موڈ (Mode) میں چلے گئے ہیں انہی سیانوں نے انہیں بتایا کہ ایک ہنگامہ برپا ہونے والا ہے کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو یہ تو برپا ہو کر ہی رہے گا اگر حکومت سرخرو ہوئی تو اپوزیشن نے آسمان سر پر اٹھا لینا ہے اور اگر اپوزیشن کی سنی گئی تو حکومت والوں نے طوفان لے آنا ہے یہی سیانے کہتے ہیں کہ پانامہ کے فیصلے سے کہیں زیادہ اہم اس کے بعد از اثرات ہیں اور اگر کامیاب سیاست کرنی ہے تو
پانامہ فیصلے پر ہی نہیں اس کے بعد ہونے والی ساری اٹھک بیٹھک پر نظر رکھو یہ جو کچھ بعد میں ہو گا اس نے طے کرنا ہے کہ آئندہ اقتدار کا ہُما کس کے سر بیٹھے گا یعنی پانامہ ریاستی عدالت سے پھر واپس عوامی عدالت میں آنے کو ہے انہی سیانوں نے پارٹیاں بدلنے والوں کو مشتری ہوشیار باش کی ایسی کال دی ہے کہ جو اُڑان کیلئے بالکل تیار بیٹھے تھے دم بخود اور دُبک کر جا بیٹھے ہیں، وہ اتھل پتھل جو بس ہونے ہی کو تھی باوجہ قرار آ جانے کے سبب ٹھہر گئی ہے صدر آصف علی زرداری نے بالائی اور جنوبی پنجاب میں جو رابطے کئے تھے اور جن جن کو پارٹی میں لانے کے لئے تگ و دو کی تھی یا کروائی تھی وہ فی الوقت برف پر لکھی گئی ہے، مسلم لیگ (ن) والے پی ٹی آئی کے جن لوگوں کو توڑے بیٹھے تھے اور انہیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ آئندہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے اور یہ نوشتۂ دیوار ہے پڑھ لو اب خالی کُنڈیاں لئے بیٹھے ہیں وہ جنہوں نے یہ نوشتہ دیوار پڑھ لیا تھا اب اسے ریت پر لکھا جانا ہے جو پانامہ کا ایک جھونکا سب اُڑا اور سب مٹا سکتا ہے حد تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) والوں نے جن ناراض لوگوں کو منا لیا تھا انہوں نے بھی واضح اطلاع بھجوا دی ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ آ لینے دیں اس کے بعد فیصلہ کریں گے اور تو اور وہ جنہیں اپنا کہتے تھے اور وہ اپنا کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے انہوں نے یوم پاکستان کے موقع پر ایوارڈ لینے سے معذرت کرتے ہوئے معاملے کو یوم آزادی تک مؤخر کر دیا ہے اور ایک بے اعتنائی سے پیغام بھجوایا ہے کہ اچھا دیکھتے ہیں حالانکہ مخالفوں نے دبنگ پیغام
بھجوایا ہے کہ اچھادیکھ لیتے ہیں، پانامہ فیصلے کا وقت جوں جوں قریب آ رہا ہے عوام کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی ہیں جبکہ سیاستدانوں کی صرف دھڑکنیں ہی نہیں بلڈپریشر بھی اوپر نیچے ہو رہا ہے اورسیانے اسے اعتدال میں آنے ہی نہیں دے رہے کبھی ہاتھ پیر ٹھنڈے کرواتے ہیں اور کبھی چہرہ سرخ، پارٹیاں بدلنے والے ہی نہیں وہ جو اپنی اپنی پارٹیوں میں بیٹھے خود کو محفوظ پناہ گاہوں میں تصور کر رہے تھے اچانک خود کو تھڑے پر ہوا کے تھپیڑوں کے سامنے بیٹھا محسوس کر رہے ہیں ہوا آئی نہیں لیکن ہوا کی شائیں شائیں سنائی دے رہی ہے اور اوسان خطا کئے جاتی ہے کہ آخر حکومت سے باہر آ جانا بھی دُنیا کی ان چند بڑی تکلیفوں میں شامل ہے جو حضرت انسان پاکستانی جمہوریت میں سہتا ہے، معاملہ صرف سیانوں پر ہی موقوف نہیں کچھ لااُبالی سیاستدان تو فالیں نکلوانے تک کی نوبت کو جا پہنچے لیکن جس نے بھی نکالی پیروں تلے سے زمین نکالی اور کچھ نے تو جیبوں میں بھی کچھ نہ چھوڑا، انہی فالیں نکالنے والوں کے سُرخیل نے پنڈی سے بیٹھ کر ہی کئی سیاستدانوں کے پاؤں تلے سے زمین نکال دی تو بھلا سامنے بیٹھے عاملوں نے کیا کیا گُل نہیں کھلائے ہوں گے طرفہ یہ ہے کہ اب لوہا گرم دیکھتے ہوئے سب کا چوٹ لگانے کو دل کر رہا ہے اور کئی جزوقتی تجزیہ نگار بھی میدان میں کود پڑے ہیں کچھ نے تو تمام حدیں بلکہ قانون کی دیواریں بھی پھلانگتے ہوئے پانامہ کیس کا فیصلہ تک سنا ڈالا کہ بے صبرے اب عدالت کا کتنا انتظار کریں اور کچھ تو بعد از فیصلے کی کوڑی لائے ہیں اور کئیوں کو انجام بلکہ منطقی انجام دکھانے کو تلے ہیں اب ایسے حالات میں بے چارے سیاستدان کیا کریں اور کدھر جائیں خاص طور پر پارٹیاں بدلنے کے شوقین اور مجبوروں کیلئے تو کوئی رستہ بھی نہیں چھوڑا، سب عادیوں کیلئے بھی اور باغیوں کیلئے بھی۔