منتخب کردہ کالم

وہ ہوم ورک کر کے گئی‘ ہم نے شروع نہیں کیا…وقارخان

وہ ہوم ورک کر کے گئی‘ ہم نے شروع نہیں کیا

وہ ہوم ورک کر کے گئی‘ ہم نے شروع نہیں کیا…وقارخان

زینب اپنا سکول کا ہوم ورک مکمل کر کے گئی ہے ۔ اس نے چار جنوری کو اپنے ننھے منے ہاتھوں سے کاپی پر لکھا:
میں ایک لڑکی ہوں… میرا نام زینب ہے… میرے والد کا نام امین ہے… میری عمر سات سال ہے… میں قصور میں رہتی ہوں… میں اول جماعت میں پڑھتی ہوں… مجھے آم پسند ہیں۔
البتہ زینب کے ہم وطنوں نے زندگی کے سکول کا اپنا ہوم ورک ابھی شروع نہیں کیا۔ ہم نے اپنے آہنی ہاتھوں سے پتھر پر لکیر کی صورت لکھنا ہے:
ہم ایک تعلیم یافتہ اور معتدل مزاج قوم ہیں… دنیا ہمیں روشن خیال، مہذب، وسیع النظر اور جمہوری پاکستان کے نام سے پہچانتی ہے… ہمارے بابا کا نام محمد علی جناحؒ ہے… انہوں نے ہمارے لیے سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی ریاست قائم کی… ہم پر بلا تفریق رنگ و نسل، علم و تحقیق اور سوچ کے در وَا ہیں… یہاں پر آئین اور قانون کی حکمرانی ہے… ہمیں انسان پسند ہیں۔
مگر فی الوقت تو ہم وہیں پر ہیں کہ جہاں… گالیوں سے ٹھنسا ہوا بستہ اور ٹفن… بھوک سے بھرا ہوا… زندگی، ہم ترے سکول میں ہیں۔
زینب کو درندگی کا نشانہ بنانے والا اکیلا نہیں، اس کے پیچھے ہوم ورک نہ کرنے والا ایک یرغمال اور جامد سماج ہے۔
آبادی کا بے ہنگم پھیلائو، گھٹن، سوچ پر پہرے، سوال اٹھانے پر پابندی، علم دشمنی، جعلی اخلاقیات، کھوکھلی اقدار، دیمک زدہ نظریات، غیر فطری ترجیحات، مقفل اذہان کا اجارہ اور جہالت کا راج جیسے بے شمار فطرت سے متصادم رویے اور اس پر مستزاد قانون کے نفاذ کی جنگل کے قانون سے مشابہت، انتظامیہ کا مکروہ کردار، غلیظ تفتیشی نظام اور انصاف کا طویل، بوسیدہ اور زنگ آلود سسٹم… یہ سارے عوامل باہم مل کر ایک ایسا ابنارمل سماج تشکیل دیتے ہیں جو جنگل کا منظر پیش کرتا ہے۔ وہاں اول تو درندے گرفتار ہی نہیں ہوتے یا بری ہو جاتے ہیں، یا پھر سزا سن کر وکٹری کے نشان بناتے ہیں اور مظلوم کے ورثا کو ناجائز ہتھکنڈوں کے ذریعے راضی نامے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں جب کوئی بائولا حیوان کسی انسان کی سات سالہ کلی پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ کر اسے مسل دیتا ہے تو ہنگامی بنیادوں پر غم و غصے اور جذبات کا عارضی طوفان بپا ہو جاتا ہے۔ ظلم کی ایسی بدترین شکل پر سیاست اور میڈیا کے اکابرین ایسی ہیجان انگیز صورتحال پیدا کرتے ہیں کہ مضبوط اعصاب کا مالک پُرامن اور قانون کی پاسداری کرنے والا شہری بھی نارمل نہیں رہتا اور بائولے حیوانوں کو ماورائے قانون اور ماورائے عدالت‘ موت مارنے کے مطالبات کرنے لگتا ہے؛ تاہم چند ہی دنوں میں جذبات کا یہ طوفان تھم جاتا ہے اور بے حس معاشرہ اپنی اصل شکل یعنی جامد حالت میں آجاتا ہے۔ حتیٰ کہ ایسا ہی ایک اور دلخراش سانحہ رونما ہوتا ہے اور لوگ تڑپ کر جاگ پڑتے ہیں۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور میڈیا گردی کا کھیل پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔
زینب کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی تو احتجاج کا طوفان برپا ہو گیا۔ حالات کنٹرول سے باہر ہوئے تو چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، آرمی چیف اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اندوہناک سانحے کا سخت نوٹس لیا۔ جے آئی ٹی کی تشکیل ہوئی اور ملزموں کو پکڑنے کے احکامات جاری ہوئے۔ اب وزیراعلیٰ نے بچوں کے تحفظ کے لیے رانا ثناء اللہ کی قیادت میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی بچوں کے حوالے سے حفاظتی تدابیر بارے ریسرچ مضامین نصاب میں شامل کرنے کی سفارشات پیش کرے گی۔ چائلڈ پروٹیکشن کے سلسلے میں قانون سازی بھی ہو گی۔ ڈی این اے ایکٹ بنا کر مفصل ڈی این اے ڈیٹا بھی مرتب کیا جائے گا۔ تاکہ بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی صورت میں ملزم کی فوراً نشاندہی ہو سکے۔ دو مزید کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں، جنہیں ایک ہفتہ کے اندر حتمی سفارشات تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر قانون کہتے ہیں کہ معصوم زینب کی قربانی کو بے ثمرنہیں ہونے دیا جائے گا… نہیں جناب والا! معصوم زینب نے کوئی قربانی نہیں دی، اسے بہیمانہ ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ اَن گھڑ سماج کے چیچک زدہ چہرے، سانحات پر پوائنٹ سکورنگ کی سیاست، سخت نوٹسز، جے آئی ٹیز، کمیٹیوں، ذیلی کمیٹیوں، ان کی سفارشات اور چائلڈ پروٹیکشن بارے قوانین کے گالوں پر کئی زناٹے دار طمانچے رسید کر کے رخصت ہوئی ہے۔
دنیا میں بچوں کے حوالے سے جنسی ہراسگی اور عصمت دری جیسے واقعات میں ہمارے ملک کا نمبر دسواں ہے۔ میری تحقیق کے مطابق سب سے بڑے صوبے میں گزشتہ سولہ سالوں کے دوران 67 معصوم بچوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ گزشتہ سے پیوستہ برس ایک شرمناک ویڈیو منظر پر آئی تھی کہ زینب کے اسی شہر میں درجنوں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی ویڈیوز بنائی گئی ہیں۔ تب بھی پر زور احتجاج ہوا تھا، سخت نوٹس لیے گئے تھے اور بھیڑیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم ہوئے تھے۔ پھر ملزمان کے کیس انکوائریوں، تفتیشوں اور عدالتی بھول بھلیوں میں کھو گئے تاکہ سانحۂ زینب کی صورت جامد معاشرے میں پھر سے ارتعاش پیدا کرنے کا ساماں ہو سکے۔ کبھی لاہور میں سو بچوں کا قاتل جاوید اقبال بھی پکڑا گیا تھا۔ ایک لمبی فہرست ہے، گھروں ، مدرسوں اور کام کی جگہوں پر معصوموں کے ساتھ مظالم کے رونگٹے کھڑے کر دینے والی واقعات کی۔ انہیں رشتہ داروں، اجنبیوں، استادوں اور پڑوسیوں نے بربریت کا نشانہ بنایا۔ ان سب بچوں نے قربانیاں نہیں دیں، وہ غیر انسانی ظلم کی بھینٹ چڑھے اور زینب کی طرح اَن گھڑ سماج کے کوڑھ زدہ چہرے پر طمانچے رسید کر کے گئے۔
ہماری سرحدوں کے اندر انسان نما مخلوق کے اس بیکراں ہجوم میں بچوں سے زیادتی کے لاکھوں اندوہناک واقعات ہوتے ہیں مگر دس فیصد بھی رپورٹ نہیں ہوتے۔ مہذب دنیا میں بچوں کو سکولوں میں جنسی معاملات اور جنسی تحفظ کے بارے میں تعلیم و تربیت دی جاتی ہے مگر ہماری اخلاقیات کو اس نام ہی سے ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ ہمارے بیمار رویے ہماری مثبت انسانی شناخت پر سوالیہ نشان ہیں، مگر ہم نیکوکار مغرب کی بن بیاہی مائیں گننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اپنے گریبان میں ہم جھانکتے نہیں لیکن ہم حیا دار غیروں کی جنسی بے راہ راوی اور ہم جنس پرستی پر ماتم کناں ہیں۔ ہمیں سخت نوٹسز، جے آئی ٹیز، کمیٹیوں، سفارشات، نئے نئے قوانین اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے احکامات کی نہیں، تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے تاکہ ہم مہذب انسان بن سکیں۔ ہم نے گھٹن، علم دشمنی، جعلی اخلاقیات، کھوکھلی اقدار، دیمک زدہ نظریات، غیر فطری ترجیحات اور مقفل اذہان سے جان چھڑا کر اپنا ہوم ورک شروع کرنا ہے کہ… ہم ایک تعلیم یافتہ اور معتدل مزاج قوم ہیں… دنیا ہمیں روشن خیال، مہذب، وسیع النظر اور جمہوری پاکستان کے نام سے پہچانتی ہے… ہمیں انسان پسند ہیں۔
یاد رہے کہ جن قوموں کی بچیوں کی مسخ شدہ لاشیں کوڑے کے ڈھیروں سے ملتی ہیں، تاریخ ان قوموں کے چہرے مسخ کر کے اپنے کوڑے دان میں پھینک دیتی ہے۔