منتخب کردہ کالم

ویسٹ انڈیز سے ایک خط … عامر بن علی

ویسٹ انڈیز سے ایک خط … عامر بن علی

عامر بن علی….مکتوب جاپان
ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم کو دیکھ کر بچپن سے ذہن میں یہی خیال آتاتھا کہ یہ یقینا افریقہ کاکوئی ملک ہے۔ اس کی وجہ شاید ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کا رنگ و روپ اور نین، نقش تھے۔ بعدازاں پتا چلا کہ یہ افریقہ نہیں بلکہ براعظم امریکہ میں وقوع پذیر ہے۔ یہ انکشاف تو میرے لیے بالکل ہی تازہ ہے کہ ویسٹ انڈیز نام کا سرے سے کوئی ملک ہی اس کرہ ارض پر وجود نہیں رکھتا۔ یہ براعظم شمالی اور جنوبی امریکہ کے چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل علاقے کو کہا جاتا ہے، امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحل سے لے کر جنوبی امریکہ تک پھیلا تین ہزار میل کا علاقہ جس میں تین درجن سے زیادہ جزائر پر مشتمل ممالک ہیں، ان جزائر کی مشترکہ کرکٹ ٹیم اور مرکزی کرکٹ بورڈ ہے۔ تاج برطانیہ نے اپنے زیراثر جزائر کو ملا کر ویسٹ انڈیز کے نام سے 1960ءمیں ایک ریاست تشکیل دی تھی، مگر برطانوی نو آبادیاتی عہد کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور بعدازاں اس ملک سے کئی نئے ممالک بن گئے، مگر اس کا تشکیل دیا ہوا کرکٹ بورڈ آج بھی قائم ہے، ویسٹ انڈیز کی مشترکہ کرکٹ ٹیم ہمیں نصف صدی پہلے بکھر جانے والی ریاست کی یاد بھی دلاتی ہے، اس کا کرکٹ بورڈ اور کرکٹ ٹیم ابھی تک بھرپور انداز میں قائم ہے۔ چار جزائر یہاں اب بھی برطانیہ کے قبضے میں ہیں۔ فرانس اور ہسپانیہ کے بھی بہت سارے جزائر تھے۔ بلکہ سب سے پہلے تو یہاں ہسپانوی ہی لنگرانداز ہوئے تھے۔ کرسٹو فرکولمبس جس نے امریکہ دریافت کرکے دائمی شہرت پائی ،وہ پہلے1492 ءمیں ویسٹ انڈیز کے جزیرے بھاماس پر ہی لنگرانداز ہوا تھا۔ جب ہم امریکہ کی دریافت کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد ریاست ہائے متحدہ امریکہ نہیں ہوتا، کولمبس وہ پہلا یورپی باشندہ تھا جس نے امریکی براعظم پر قدم رکھے اور یہ زمین ویسٹ انڈیز کی تھی۔ یہاں یہ تذکرہ کرتا چلوں کہ کولمبس کا تعلق سپین سے تھا۔ برطانیہ اور فرانس کے بعد ولندیزی اور ڈنمارک کے مہم جو اس سرزمین پر پہنچے تھے۔ ڈنمارک نے اپنے زیر تسلط جزائر 1916ءمیں پچیس ملین ڈالر کے قلیل سرمائے کے عوض امریکہ بہادر کو فروخت کردئیے تھے، جنہیں اب ہم ورجن آئی لینڈ کے نام سے پہچانتے ہیں۔ ہم سے نسبت یوں بھی خصوصی ہے کہ یورپ کے لوگوں نے ایسٹ انڈیا کے جنوبی ایشیا میں واقع جزائر اور ہندوستان سے تفریق پیدا کر نے کیلئے امریکہ کے ان جزائر کو ویسٹ انڈیز کا نام دیا تھا۔ ویسے اس خطے کو کیریبیا اور کیریبین بھی کہا جاتا ہے۔ سرسبز جزیروں کا جھرمٹ۔
صبح کا سورج پاناما میں دیکھا اور شام ہونے کو تھی جب کرکٹ کے مرکز ترینی دار اور ٹوباگو پہنچا۔ پاکستان کے لوگ یہاں بغیر ویزے کے آ، جاسکتے ہیں ایئرپورٹ پر امیگریشن کا عملہ بڑے دوستانہ انداز میں پیش آتا ہے۔ میرے خیال میں چند منٹ سے زیادہ وقت سوال و جواب میں نہیں لگا اور میرے پاکستانی پاسپورٹ پر انہوں نے اپنے ملک کی انٹری کا ٹھپہ لگادیا تھا۔ لوگوں سے گلی، بازاروں میں بات کرنا بہت آسان ہے، برطانوی نو آبادی ہونے کے سبب سبھی لوگ انگریزی میں بات کرتے ہیں اور ہر شخص کرکٹ میں دلچسپی رکھتا ہے جس کے ساتھ بات شروع کرنے کا بہانہ نہ مل رہا ہو اس سے بے دھڑک کرکٹ پر بات شروع کردیں۔ مکالمہ شروع ہوجائیگا۔ ابھی ابھی ایک بوڑھا مجھ سے حنیف محمد اور حفیظ کاردار کی تعریف کررہا تھا ، ماجد خان کے کیرئیر کا بھی جائزہ اس نے تفصیلی پیش کیا، حالانکہ یہ میری پیدائش سے پہلے کے واقعات ہیں، مگر میں نے بوڑھے کادل نہیں توڑا او ر دلچسپی سے باتیں سنتا رہا۔ایک لطیفہ نما واقعہ یہ ہوا کہ ، میری میزبان کے چرب زبان خاوند سے جب کرکٹ کے موضوع پر بات ہو رہی تھی تو اس نے بتایا کہ میرے ہوٹل کے پچھواڑنے پہاڑی پر برائن لارا کا گھر ہے۔ میں نے اسے سچ مچ بتادیا کہ میں لارا کو بہت پسند کرتا ہوں۔ برائن لارا جیسے بلے باز دہائیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ میری بات سن کر یہ تازہ دوست کمال بے نیازی سے کہنے لگا کہ اگر ایسی بات ہے تو میں تمہاری اس سے ملاقات کروا دیتا ہوں۔ ظاہر ہے ‘ میں نے فوراً ہی آمادگی ظاہر کر دی۔ کولن کہنے لگا کہ آج تو دیر ہو گئی ہے‘ کل شام چھ بجے تیار رہنا۔ اگلے روز وقت مقررہ پر میں تیار ہو چکاتھا اور وہ بھی عین وقت کے مطابق مجھے لینے کیلئے ہوٹل کی لابی میں پہنچ گیا۔ گاڑی کی اگلی نشست پر میں اس کے برابر بیٹھا اور ایک دو منٹ بعد ہی ہم پچھلی سڑک کے کنارے واقع پہاڑی کی چوٹی پر برائن لارا کے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ گھر کیا تھا‘ بالکل قلعہ نما تھا۔ اپنے لاہور کے گورنر ہاﺅس سے ملتی جلتی عمارت ہے۔ کولن نامی یہ باتونی شاہ کالا بتانے لگا کہ برائن لارا اکثر یہاں پارٹی کرتا رہتا ہے اور اس کی پارٹی میں شرکت کی داخلہ فیس عموماً سات‘ آٹھ سو ڈالر ہوتی ہے مگرجتنے اچھے انتظامات اور انواع و اقسام کے مشروبات پیش کئے جاتے ہیں‘ یہ سات‘ آٹھ سو ڈالر بھی زیادہ محسوس نہیں ہوتے ہیں۔ اتنے میں سکیورٹی گارڈ کی گیٹ کے ساتھ نصب سپیکر سے آواز برآمد ہوئی کہ کیا چاہئے؟ کولن نے گول مول سی بات کی اور فوراً ہی گیٹ کھل گیا‘ گارڈ برآمد ہوا تو اس کے ساتھ نہ جانے کیا گٹ مٹ ہوئی‘ وہ ہم دونوں کو گھر کے ڈرائنگ روم میں لے گیا۔ ابھی ہم دونوں صوفے پر بیٹھے ہی تھے کہ ایک باکسر ٹائپ نوجوان سیاہ سوٹ‘ ٹائی میں ملبوس عقبی دروازے سے برآمد ہوا اور ہم سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر کہنے لگا کہ کیسے آنا ہوا؟
میری میزبان کا خاوند اس سے مخاطب ہوا کہ جناب! میرے ساتھ جو صاحب تشریف لائے ہیں یہ سچن ٹنڈولکر کے کزن ہیں اور برائن لارا سے ملنا چاہتے ہیں۔ سوٹ کیس میں ملبوس آدمی نے کہا کہ میں لارا کا منیجر ہوں‘ وہ اس وقت تو گھر پر نہیں ہیں‘ اگر ہوتے تو آپ سے مل کر وہ خوش ہوتے‘ مگر انہوں نے آپ کی آمد کا ذکر نہیں کیا؟ میں گنگ بیٹھا‘ حیرت اور پریشانی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کوئی مناسب جواب ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کولن نے اپنی قینچی جیسی زبان چلائی‘ کہ دراصل یہ برائن لارا کو سرپرائز دینا چاہتے تھے۔ منیجر کہنے لگا کہ میں آپ کی ملاقات کا وقت طے کر دیتا ہوں‘ آپ کہاں ٹھہرے ہیں؟ کافی پی کر جایئے گا۔ اس دوران میں کولن سے آنکھوں ہی آنکھوں میں التجائیں کر رہا تھا کہ ”نکلو یہاں سے“ کافی کی دعوت میں نے فوراً ہی رد کرتے ہوئے کہا کہ ابھی میں کچھ دن یہاں قیام کروں گا‘ ہم دوبارہ حاضر ہوں گے‘ پھر آپ سے کافی پئیں گے‘ یہ ادھار رہا۔ تقریباً گھسیٹتے ہوئے میں نے کولن کو صوفے سے اٹھایا اور تیز قدموں کے ساتھ گھر سے باہر نکل گئے۔ باہر نکلتے ہی میں نے اس کی کلاس لینا شروع کر دی۔ کولن کہنے لگا یار! تمہاری شکل تو سچن ٹنڈولکر سے بہت ملتی ہے‘ اور سچن ٹنڈولکر کا برائن لارا بڑا گہرا دوست ہے‘ یقین کرو اگر وہ مل جاتا تو ہماری بڑی خاطر مدارت کرتا رہا۔ ویسٹ انڈیز میں برصغیر پاک و ہند اور افریقی نسل سے پیدا ہونے والی اولاد کو ”دوغلا“ کہتے ہیں۔ ترینی داد اور ٹوباگو کی آبادی کایہ دس فیصد ہیں۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہونے و الوں کی تعداد آبادی کا 35فیصد ہے اور یہی شرح افریقی نسل کے لوگوں کی ہے۔ دیگر نسلوں کے لوگ بیس فیصد ہوں گے۔ ویسٹ انڈیز کے زیادہ تر ممالک میں یہی شرح اور تناسب پایا جاتا ہے۔ لفظ ”دوغلا“ سن کر پہلی بار تو مجھے جھٹکا لگا‘ یقینا ہماری ثقافت میں یہ ایک منفی اظہاریہ ہے مگر جب میری ڈرائیور نے اپنے شوہر کے بالوں پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ میرا ”دوغلا“ ہے‘ چونکہ اس کے والدین ہندوستانی اور افریقی فکس نسل کے ہیں تو میرے نزدیک اس لفظ کے معنی ہی بدل گئے۔ یہاں کا مقبول میوزک ”چٹنی“ ہے‘ یہ وہ گیت ہے جس کا سازینہ اور گانے کا انداز تو برصغیر کی موسیقی جیسا ہو‘ ترنم اور سر اردو گانوں جیسا مگر بول انگریزی کے ہوتے ہیں۔ افریقی روایتی موسیقی ”سوکا“ بھی یہاں مقبول ہے اور آج کل چٹنی اور سو کا میوزک کا فیوژن بہت ہٹ چل رہا ہے۔