منتخب کردہ کالم

ٹرمپ کی جیت کا راز … کالم ابراہیم راجا

تعصب ذہنوں میں نہیں، دِلوں میں پلتا ہے، ذہن چاہے عقل و شعور کی معراج پا لیں، ذہن چاہے چاند ستاروں پر کمند ڈال لیں، ذہن چاہے سمندروں کی اندھیری تہہ کھوج ڈالیں، ذہن چاہے پوری کائنات ٹٹول لیں، دِلوں کا حال نہیں بدلتا، دِل دلیل پر نہیں، اپنے خمیر پر فیصلہ صادر کرتا ہے۔ ٹرمپ کو جتوانے والے سفید فاموں نے بھی اپنے خمیر پر فیصلہ سنا دیا، وہ خمیر جو تعصب سے اٹھا ہے۔
ٹرمپ کی جیت نے بہت سوں کو حیران کر ڈالا۔ الیکشن سے پہلے اگرچہ تمام اعداد و شمار ہلری کلنٹن کے حق میں تھے لیکن ایک نکتے پر غور کم ہی لوگوں نے کیا۔ شرمناک سکینڈلز کے ہنگام ٹرمپ کی مقبولیت گھٹتی بڑھتی رہی لیکن ایک بار بھی 40 فیصد سے نیچے نہ آئی۔ مطلب یہ کہ کم سے کم 40 فیصد قدامت پسند اور بنیاد پرست ووٹر ایسے تھے جنہیں ٹرمپ کے سیکنڈلز سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ شروع سے آخر تک کھل کر ٹرمپ کے ساتھ کھڑے رہے۔ وہ ٹرمپ کی متعصبانہ سوچ اور پالیسی سے پوری طرح متاثر تھے، ان کے دلوں میں پلتے تعصب اور خاموش نفرت کو ٹرمپ نے توانا آواز بخش دی تھی۔ وہ سیاسی گروہ نہیں کسی کٹر فرقے کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ ٹرمپ تعصب، خوف، انتشار اور عصبیت کے بیوپاری تھے۔ وہ جانتے تھے کہ امریکی معاشرے میں ان کا سودا خریدنے والے کم نہیں، اسی لیے شدید تنقید کے باوجود اپنی متعصبانہ پالیسیوں پر وہ ڈٹے رہے لیکن کیا ان کے چالیس فیصد کٹر حامیوں نے ہی انہیں الیکشن جتوایا؟ ہرگز نہیں۔ ٹرمپ کے لیے 10 سے 12 فیصد ایسے سفید فاموں نے بھی ووٹ ڈالا‘ جنہوں نے روشن خیالی کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، جو اندر سے بنیاد پرست اور متعصب تھے‘ لیکن اس کا اظہار نہیں کرنا چاہتے تھے، جو پڑھے لکھے اور بظاہر انسانی اقدار کے علمبردار تھے لیکن ان کے دلوں میں نفرتوں کی آگ بھڑک رہی تھی، یہ لوگ بظاہر ٹرمپ کا نام لیتے بھی شرماتے‘ لیکن پردوں کے پیچھے ان کے گن گاتے۔ انہیں ”Shy Trump Voters‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جن کی وجہ سے تمام پولز اور تجزیہ کاروں کے اندازے غلط ثابت ہو گئے۔
سوال یہ نہیں کہ ری پبلکنز کو 58 فیصد سفید فاموں نے ووٹ کیوں ڈالا، 2012ء کے الیکشن میں اسی جماعت کے مٹ رومنی کو 59 فیصد سفید فاموں کے ووٹ ملے تھے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ٹرمپ جیسے انتہائی متنازع، غیر ذمہ دار، اخلاقی اور مالی کرپشن میں لتھڑے امیدوار کو بھی اتنے سفید فاموں کے ووٹ کیسے مل گئے۔ انہیں امریکا کی انتخابی تاریخ کا سب سے غیرموزوں صدارتی امیدوار قرار دیا گیا۔ خواتین کے بارے میں ان کی سوچ کو اخلاقی پستی سے تعبیر کیا گیا۔ اقلیتوں کے خلاف ان کے بیانات انسانیت کی تذلیل قرار پائے۔ سستی جذباتیت بیچنے کے لیے کئی ملکوں کو انہوں نے زچ کر ڈالا۔ خود ان کی اپنی پارٹی کے مرکزی رہنما ان کے خلاف ہو گئے، یہاں تک کہا گیا کہ ٹرمپ اگر ذمہ داری سے ٹویٹر استعمال نہیں کر سکتے تو ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں احتیاط کیسے کریں گے؟ انہیں امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔ ان پر روسی اور چینی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا، ایسا ایجنٹ جو امریکا کو تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کے علمبرداروں نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ ڈالنے کی اپیلیں کیں، اس کے باوجود سفید فاموں کے دلوں میں موجود نفرت اور تعصب نے ٹرمپ کو جتوا دیا۔ امریکا کے سفید فاموں میں سے 58 فیصد نے ٹرمپ کو جبکہ صرف 37 فیصد نے ہلری کو ووٹ دیا۔ مرد ووٹرز میں سے 53 فیصد نے ٹرمپ کو جبکہ صرف 41 فیصد نے ہلری کو ووٹ ڈالا۔ یوں عورتوں کی عظمت کے گُن گانے والے نام نہاد روشن خیال معاشرے کا پول کھل گیا۔ ایسا
معاشرہ جو 240 برس میں پہلی بار کسی عورت کو صدر بنتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ کالج ڈگری نہ رکھنے والے ہر 10 میں سے 7 مردوں نے ٹرمپ کو منتخب کیا، صرف کم پڑھے لکھے لوگوں نے نہیں، اعلی تعلیم یافتہ سفید فاموں میں سے بھی 49 فیصد کے ووٹ ٹرمپ کے کھاتے میں آئے۔ پینتالیس سال سے اوپر کے تقریباً 53 فیصد ووٹرز نے ٹرمپ کو چُنا جبکہ ہلری کے حصے میں 44 فیصد ووٹ ہی آئے۔ صرف ادھیڑ عمر لوگ نہیں، نوجوان بھی ٹرمپ کے متعصبانہ نعروں سے متاثر نظر آئے۔ انہوں نے اوباما کے مقابلے میں ہلری کو 5 فیصد کم ووٹ دیے۔ ٹرمپ کی جیت میں اقلیتوں نے بھی نادانستہ طور پر اہم کردار ادا کیا۔ ہلری کو اوباما کی نسبت سیاہ فاموں نے5 فیصد، لاطینیوں نے 6 جبکہ ایشیائی باشندوں نے 8 فیصد کم ووٹ ڈالے۔ یہ اقلیتیں اسی غلط فہمی میں رہیں کہ ہلری کی جیت یقینی ہے۔
ٹرمپ نے بظاہر امیر ترین امریکی اشرافیہ کو چیلنج کرنے کا نعرہ لگایا، سرمایہ داری نظام کو بھی للکارا لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ خود اسی نظام کی پیداوار اور اس کا ناگزیر حصہ ہیں۔ انہیں ووٹ ان کی معیشت، خارجہ، صحت اور دفاع کے متعلق پالیسیوں پر نہیں بلکہ نفرت اور خوف کی بنیاد پر ملا۔ اس خوف کی بنیاد پر کہ امریکا میں بسنے والی اقلیتیں، مقامی سفید فاموں سے آگے نکل رہی ہیں، ان کے کاروبار پھیل رہے ہیں، انہیں زیادہ اچھی نوکریاں ملنے لگی ہیں۔ سو فیصد درست کہ امریکا میں رہنے والی اقلیتیں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں‘ لیکن صلاحیت اور انتھک محنت کی بنیاد پر۔ اقلیتوں نے ایسی ایسی نوکریاں بھی کیں جن کا تصور تک کبھی سفید فاموں نے نہیں کیا۔ کسی کا حق اقلیتوں نے مارا نہ امریکی قانون کے تحت وہ ایسا کر سکتی ہیں۔ امریکی معیشت کا پہیہ گھمانے میں بھی اقلیتوں کا بڑا کردار ہے، پھر بھی تعصب کی ایک لہر ہے کہ مقامی سفید فاموں کے سوا کسی کو امریکا میں رہنے کا حق نہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے امریکا کو صرف سفید فاموں کا عظیم ملک بنانے کا نعرہ لگایا ہیَ ایسا عظیم امریکا‘ جس میں چند دہائیوں پہلے تک نسلی امتیاز عروج پر تھا، بڑے شہروں میں سیاہ فاموں کے داخلے پر پابندی تھی، سیاہ فام سفید فاموں کی بسوں میں سفر نہیں کر سکتے تھے، سیاہ فاموں کے بچے سفید فاموں کے سکولوں میں داخلہ نہیں لے سکتے تھے، سیاہ فاموں کی حیثیت غلاموں سے زیادہ نہیں تھی۔
ٹرمپ کی جیت کے بعد جدید عظیم امریکا کا تصور بکھرنے لگا ہے، مشرقی معاشروں پر شدت پسندی کا الزام لگانے والا معاشرہ خود شدت پسندی کا شکار ہو چکا۔ وہ امریکا جو سپنوں کی دنیا کہلاتا تھا، اسی امریکا میں اب خواب مرنے لگے ہیں، امریکی فضاوں میں اب گھٹن ہے اور گھٹن زدہ معاشرے اکثر بکھر جایا کرتے ہیں۔