منتخب کردہ کالم

ٹرمپ کی دھمکی اور پاکستان کا مضبوط موقف…زمرد نقوی

ٹرمپ کی دھمکی اور پاکستان کا مضبوط موقف…زمرد نقوی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان مخالف ٹویٹ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ مسلسل پاکستان مخالف بیانات دے رہی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ دھمکانے والے سن لیں کہ میں ایسی فوج کا سربراہ ہوں جس کے جوان ہر دم وطن کے لیے جان دینے کو تیار رہتے ہیں۔ کوئی بھی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔

ہمارے شہدا کی قربانیاں ہی ہمیں پرامن اور مستحکم پاکستان کی جانب لے جارہی ہیں جب کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے زیر صدارت پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن سے وابستہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ قومی سلامتی کے معاملے اور عزت و وقار پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

امریکی صدر کی دھمکی کے جواب میں حکومت اپوزیشن ‘ فوج اور عوام کے ہر طبقے قومی یکجہتی کا شاندار مظاہرہ کرکے امریکا سمیت پوری دنیا پر ثابت کیا ہے کہ وہ قومی سلامتی خود مختاری کے معاملے پر کسی بھی طرح جھکنے کے لیے تیار نہیں۔

امریکی صدر نے اپنے ٹویٹ میں پاکستان کو دھوکہ باز اور جھوٹا قرار دیا کہ اسی نے امریکی لیڈروں کو بے وقوف بناکر گزشتہ پندرہ سال میں 33 ارب ڈالر کی امداد حاصل کی جب کہ پاکستان نے کہا کہ یہ کوئی امداد نہیں تھی بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا خرچہ تھا۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان کو اس جنگ میں 130 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ جب کہ ستر ہزار سے زائد سویلین اور فوجی اس جنگ میں کام آچکے ہیں اور خود امریکا کا یہ حال ہے کہ افغانستان میں اپنی تمام تر جنگی مشینری اور ایک ہزار ارب ڈالر ضایع کرنے کے باوجود مکمل طور پر ناکام ہے اور اپنی تمام تر ناکامیوں کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرا رہا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی کے حکمران طبقوں نے پاکستان کے لیے نہیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے امریکا کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں ہم بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ اسی چیز کو پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بیان کیا کہ یہ جنگ امریکا اور سوویت یونین کے درمیان تھی جب کہ ہماری سوویت یونین سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ اس کے باوجود ہم نے امریکا کا ساتھ دینے کے لیے اس جنگ کو جہادی رنگ دیا۔ وہ جہادی جو کبھی امریکا کی آنکھ کا تارہ تھے لاکھوں کی تعداد میں انھیں استعمال کرنے کے بعد امریکا نے انھیں دہشت گرد قرار دے دیا۔

اب ہمارے وزیر خارجہ صاحب ہی بتا رہے ہیں کہ سوویت یونین کے خلاف یہ کوئی جہاد نہیں تھا بلکہ امریکی مفادات کی خاطر پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے پاکستانی عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا گیا۔ کس قیمت پر کہ آج پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی اور ملک میں ایسے حکمران ہوں گے جنھوں نے اپنے ہی عوام کو اتنا بڑا دھوکا دیا ہو۔

چنانچہ آج یہ صورت حال ہے کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر مک کہتے ہیں کہ دہشت گردی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے اور پاکستان بعض دہشت گرد گروپوں کو اپنی خارجہ پالیسی کے ایک جزو کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کی 225 ملین ڈالر کی سیکیورٹی معاونت معطل اور فوجی سازوسامان روکنے کا اعلان کیا ہے اور سونے پر سہاگہ امریکا نے پاکستان کو مذہبی آزادی کی مبینہ سنگین خلاف ورزی کرنے والے ممالک سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں بھی شامل کردیا ہے۔ یہ ابھی ابتدا ہے۔ پورا سال ابھی باقی ہے۔

امریکا ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتا ہے۔ بظاہر وہ الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں مدد نہیں دے رہا لیکن اصل معاملہ پاکستان کا ایران کے خلاف استعمال ہونے سے ان کار ہے۔ امریکی صدر ایران کے خلاف فیصلہ کن جنگ کرکے ایران کے اس اثرو رسوخ کا خاتمہ چاہتے ہیں جو اسرائیل کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ آپ کو گزشتہ سال کے آخر میں پاکستانی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا تین روزہ دورہ ایران یاد رکھنا چاہیے۔ یہ اہم ترین دورہ جس کے اسٹرٹیجک مقاصد تھے۔

امریکی عزائم کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ روس پہلے سے ایران کا اہم اتحادی ہے۔ چین ایران کو سی پیک میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی سرمایہ کاری ایران میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف ترکی اور ایران کی دوستی ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہورہی ہے۔ روس اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ ویسے بھی روس کو 70 سال بعد یہ موقعہ ملا ہے وہ اس موقع کو کبھی گنوانا نہیں چاہے گا جو امریکا نے پاکستان کو استعمال کرکے اس سے چھین لیا تھا۔ تو جب کسی دوست کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجائے تو دوست ہی مدد کو آیا کرتے ہیں۔

پاکستان اس وقت ایک بہت بڑی سازش میں پھنس گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کے ایٹمی اثاثے اور سی پیک کا خاتمہ ہوسکتا ہے جس پر اس کی زندگی کا دارومدار ہے۔ ایک طرف امریکا پاکستانی فوج پر دباؤ بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف نواز شریف۔ نتیجے میں ریلیف ملنا شروع ہوگیا ہے۔ کیا کمال کی بات ہے۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ امریکا اسرائیل پاکستان اور ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔

دوسری طرف روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں بڑی بے شرمی سے مداخلت کررہا ہے۔ ایران کی صورت حال سلامتی کونسل میں لانے پر روس نے امریکا پر کڑی تنقید کی ہے۔ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے اس بحران پر قابو پالیا ہے۔

بہرحال ایرانی حکومت کے خلاف جتنے بھی مظاہرین تھے ایرانی تھے، باہر سے نہیں آئے تھے۔ ایرانی حکومت پر نقادوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ایران میں مذہبی آمریت ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے گزشتہ انتخابات میں قدامت پسندوں پر اسی لیے بالادستی حاصل کی کہ ایرانی عوام مزید سول آزادیاں چاہتے ہیں۔ ایرانی حکمران ایرانی انتخابی نظام میں لچک پیدا کریں تاکہ عام ایرانی بھی انتخابات میں حصہ لے سکے۔۔۔ رد انقلاب کا ڈر آخرکب تک کام آئے گا؟

٭… ایرانی انقلاب 2018ء اور 2019ء میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔