تین چار عشرے پہلے میں کبھی کبھار ”ٹوٹے‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا کرتا تھا۔ بعد میں بہت سے کالم نویسوں نے ”ٹوٹے‘‘ لکھنا شروع کر دیئے۔ خاطر جمع رکھئے۔ آج میں ”ٹوٹے‘‘ نہیں لکھ رہا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ ایک نئی چیز ‘ سوشل میڈیا کے نام سے برآمد ہوئی ہے۔ میرے پاس تو اتنا وقت ہوتا نہیں کہ ٹیلیفون لے کے بیٹھا رہوں اور طرح طرح کے فرمودات سے لطف اندوز ہوا کروں۔ میرے گھر میں بیٹوں سے شروع ہو کر‘ پوتے پوتیوں تک سب ‘ سوشل میڈیا سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ وہی کبھی کبھار میری فرمائش پر ایک آدھ ٹوٹا سنادیتے ہیں۔ آج انہی میں سے چند ٹوٹے پیش خدمت ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے۔
————–
جناب وزیراعظم کے قریبی مشیر جو محبت اور قربانیوں کے جذبے سے بھرپور بیانات جاری کرتے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے۔
”جنرل مشرف کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نوازشریف کی حکومت ہے۔ دیکھتے ہیں تم کیسے بھاگتے ہو؟‘‘خواجہ سعد رفیق
”پاکستانی جمہوریت میں جتنا دم تھا‘ اتنی دیر پرویزمشرف کو روکے رکھا۔‘‘ خواجہ سعد رفیق
————–
ساتھیوں کی وفاداری اور محبت کا ثبوت دیکھنا ہو تو محمود خان اچکزئی کا یہ عہد وفا ہے کہ ”اگر حکومت نے جنرل مشرف کو ملک سے باہر جانے دیا‘ تومیں استعفیٰ دے دوں گا۔‘‘ عوام استعفے کو ترس رہے ہیں لیکن محمود خان اچکزئی کو لکھنے کی فرصت نہیں ملی۔ بیچارے ‘ وزیراعظم نوازشریف کی مہربانیاں سمیٹتے سمیٹتے تھک جاتے ہیں۔
————–
”ہماری پولیس بہت اچھی اور فرض شناس ہے۔ ہمیشہ چوروں کو دائیں بائیں‘ آگے پیچھے گھیرے رکھتی ہے۔ پتہ نہیں اسے پروٹوکول کیوں کہتے ہیں؟‘‘یہی وہ راز ہے جو آج تک مجھ پر نہیں کھلا۔ پاکستان میں تو ایک بھی پولیس والا اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کر سکا۔ ورنہ بے نظیر بھٹو آج بھی زندہ ہوتیں۔
————–
چنگیز خان سے کسی نے پوچھا کہ” آپ نے کبھی کسی پر رحم کھایا؟ ‘‘
اس کا جواب تھا ”سندھ میں ایک شخص قائم علی شاہ کو میں نے بزرگ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔‘‘
————–
پاکستان کی موجودہ حکومت سے پاناما پیپرز کے بارے میں پوچھاگیا”آپ کے ملک میں کرپشن کرنے والے حکمران کون ہیں؟‘‘
”کونسے حکمران؟‘‘
”جنہوں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد اقتدار سنبھالا تھا!‘‘
”وہ تو قائد اعظمؒ تھے۔‘‘
”شرم کرو‘ حیا کرو‘ بانی پاکستان کے بارے میں ایسی گستاخانہ باتیں کرتے ہو؟‘‘
اگر آپ‘ ہمارے محبوب وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں ایسی باتیں کر سکتے ہیں‘ تو میں کیوں نہیں کر سکتا؟‘‘
”آپ کا اسم گرامی؟‘‘
”میرا کوئی نام نہیں‘ میں وزیراطلاعات ہوں!‘‘
————–
ایک ستم ظریف نے حضرت مولانا فضل الرحمن کی ایک دلکش تصویر کے ساتھ لکھا
”سبق تو پڑھ سیاست کا‘ شرارت کا‘ تجارت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام چوروں کی وکالت کا‘‘
شعر اسی طرح لکھ رہا ہوں‘ جیسے سوشل میڈیا میںپڑھا۔ جس شخص یا محترمہ نے یہ تبصرہ کیا‘ اس نے اپنی طرف سے شعر لکھا۔ لیکن اس میں جو مفہو م ہے‘ وہ معانی سے بھرپور ہے۔ میں اس سے بہتر کیا عرض کر سکتا ہوں؟
————–
چنگیز خان کے ایک درباری نے اس سے دریافت کیا کہ ”آپ احتساب کا سلسلہ کہاں سے شروع کریں گے؟‘‘
چنگیز خان نے اس سے پوچھ لیا ” میں دنیا فتح کرنے کے بعد میں کہاں پہنچوں گا؟‘‘
”آپ فاتح وقت ہیں ‘جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔‘‘
”میں سندھ فتح کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘
”آپ کے بزرگوں نے کوئی نام بتایا؟‘‘
”نام تو بہت سے بتائے۔‘‘
”لیکن ایک بزرگ کے نام سے مجھے ڈرایا گیا۔ بڑی مشکل پڑ گئی کہ میں اس عظیم شخصیت پر کیسے غالب آئوں گا؟‘‘
چنگیز خان سے پوچھا گیا کہ ” پھر آپ نے کیا فیصلہ کیا؟‘‘
چنگیز خان نے جواب دیا کہ ”میں سندھ فتح کروں گا ‘وہاں ایک 90 سالہ بزرگ کے بارے میں سنا ہے۔ اگر وہ میرے ہاتھ لگ گیاتو—-؟‘‘
”تو آپ کیا کریں گے؟‘‘
”یہ تو طاقت اور اختیار کی بات ہے۔ ‘‘
”طاقت کا کیا سوال؟‘‘
”اگر نوازشریف سے واسطہ پڑ گیا تو؟‘‘
”بھائی!بات چنگیز خان کی ہو رہی تھی‘ نوازشریف کی نہیں۔‘‘
————–
بی بی سی ڈاٹ کام میں وسعت اللہ خان کے تازہ کالم سے دو ٹوٹے۔
”ابن ِ انشا اردو کی آخری کتاب میں پوچھتے ہیں کہ پیارے بچو تم اَن پڑھ رہ کر اکبر بادشاہ بننا پسند کرو گے یا پڑھ لکھ کر اس کے نورتن؟آج کے بچوں سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ تم آئین توڑ کر پرویز مشرف کی طرح آزاد رہنا پسند کروگے یا عدالتی احکامات کی حرمت پر یقین رکھتے ہوئے ایان علی بنو گے ؟‘‘
وسعت اللہ خان کا دوسرا ٹوٹا یہ ہے۔
”غداری کیس میں جنرل راشد قریشی نے اپنے گھر کے ملکیتی کاغذات عدالت میں برائے ضمانت جمع کرا دئیے ہیں۔ پرویزمشرف ضمانت پر رہا ہوکر بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں۔ راشدقریشی کے گھر کے ملکیتی کاغذات تافیصلہ مقدمہ عدالتی تحویل میں ہی رہیں گے۔‘‘
————–
ایک شخص پاگل خانے سے ہو کر آیا۔ اس کے دوستوں نے پوچھا ”اب کیا حال ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا”میرا حال سب سے اچھا ہے۔‘‘
پوچھا گیا ”وہ کیسے؟‘‘
جواب ملا”کیونکہ میرے پاس دماغی صحت کا سرٹیفکیٹ موجود ہے۔‘‘
————–
ایک دوست نے دوسرے سے کہا ”میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔‘‘
دوسرا بولا ”میرے گلے میں درد ہو رہا ہے۔‘‘
”تم میرا سر دبائو ۔ میں تمہارا گلا دبا دیتا ہوں۔‘‘
————–
ایک وزیر سے کسی نے پوچھا ”آپ کی تعلیم کتنی ہے؟‘‘
وزیرنے جواب دیا ”ایم اے پاس کر چکا ہوں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ میٹرک پاس کر لوں۔‘‘
”وہ کیوں؟‘‘
”انتخابی امیدواروں سے میٹرک کا سرٹیفکیٹ بھی مانگا جا رہا ہے۔‘‘
————–
حضرت علیؓ نے فرمایا:
انسان بھی کیا شے ہے؟ دولت کمانے کے لئے اپنی صحت کھو دیتا ہے۔
صحت کو واپس پانے کے لئے اپنی دولت کھو دیتا ہے۔
مستقبل کوسوچ کے اپنا حال ضائع کرتا ہے۔
مستقبل میںاپنا ماضی یاد کر کے روتا ہے۔
جیتا ایسے ہے جیسے کبھی مرے گا ہی نہیں۔
اور مرتا ایسے ہے جیسے کبھی جیا ہی نہیں۔
—————
داڑھی اور خطبے کی سنت تو عام ہے۔ کیا آپ نے کسی عالم کا پیٹ بھی سنت کے مطابق دیکھا؟