منتخب کردہ کالم

ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اور بدقسمتی کا لمحہ…رئوف طاہر

ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اور بدقسمتی کا لمحہ…رئوف طاہر

خواجہ آصف کی اپیل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، خواجہ کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے لیے بھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا… جیسے خوشبوئے زلف بہار آ گئی… سپریم کورٹ کا ہر بڑا فیصلہ جمعہ کے دن آنے کی روایت سی بن گئی ہے۔ نواز شریف کے خلاف 28 جولائی کا فیصلہ بھی جمعہ کے دن آیا تھا۔ عمران خان کو اہل اور جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دینے کا فیصلہ بھی جمعہ کو آیا (ایک ہی دن اور تقریباً ایک ہی وقت)۔ ایک انگریزی اخبار نے اس پر ” The Balancing Act‘‘ کی سرخی جمائی تھی۔
اب رمضان المبارک کا تیسرا جمعہ خواجہ آصف (مسلم لیگ ن) کے لیے واقعی بہت مبارک ثابت ہوا۔ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے تحریک انصاف کے عثمان ڈار کی پٹیشن پر خواجہ آصف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا‘ جس کے خلاف خواجہ صاحب اپیل میں چلے گئے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی زیرِ قیادت سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ تاحیات نااہلی ختم ہوئی اور خواجہ صاحب 25 جولائی کے الیکشن کے لیے اہل ہو گئے۔
زیادہ دن نہیں ہوئے، عمران خان فاٹا انضمام بل کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں تشریف لائے تھے۔ خود انہیں بھی یاد نہ تھا کہ انہوں نے کتنے عرصے بعد منتخب ایوان کو اپنی آمد کا شرف بخشا ہے۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد نئے وزیر اعظم کے انتخاب میں خان نے فرزندِ لال حویلی کو اپنا امیدوار بنایا تھا‘ اور دلچسپ بات یہ کہ وہ خود بھی ووٹ ڈالنے نہیں آئے تھے۔ تب جہانگیر ترین نااہل نہیں ہوئے تھے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے بھی اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے پارلیمنٹ آمد کی زحمت نہیں کی تھی۔ اب مہینوں (یا برسوں بعد) بعد خان تشریف لائے تو خواجہ آصف کی نشست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، وہ شخص کہاں ہے جو دوسروں کو یاد دلایا کرتا تھا کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔ انہوں نے لہجے میں تکبر اور چہرے پر رعونت کو چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی تھی۔ سیاسی مخالف کے خلاف جنم جنم کی نفرت چھلکی پڑتی تھی۔ اپنے حق میں فیصلے پر خواجہ کا ٹوئٹ عجز و انکسار کا مرقع تھا، وہ اسے ایک عاجز اور گنہگار بندے پر رب کا رحم اور کرم قرار دے رہا تھا‘ جو ہمیشہ اس پر بہت مہربان رہا‘ اور جس کے ان گنت احسانات کا وہ کماحقہ شکر بھی ادا نہیں کر سکتا۔ ادھر تحریک انصاف اپنے پے در پے فیصلوں کے نتیجے میں ”لافنگ سٹاک‘‘ بنتی جا رہی ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ ”صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں‘‘۔ خیبر پختونخوا کی نگران وزارت اعلیٰ کے لیے منظور آفریدی پر وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور قائد حزب اختلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا لطف الرحمن میں جس آسانی سے اتفاق رائے ہوا، وہ اگرچہ بہت سوں کے لیے حیرت کا باعث تھا، ایسے بھی تھے جنہیں اس کو ”چمک‘‘ کا نتیجہ قرار دینے میں بھی عار نہ تھی، لیکن ایک آئینی تقاضا بہرحال پورا ہو گیا تھا۔ پرویز خٹک ”نگران وزیر اعلیٰ‘‘ کو بنی گالہ بھی لے گئے‘ اور خان نے مبارکباد کے ساتھ اشیرباد بھی دے دی۔ وہ جو کہتے ہیں، بہروپیا بھی بہروپ کا بھر م رکھتا ہے۔ ”نگران وزیر اعلیٰ‘‘ کی بنی گالہ حاضری میں اس احتیاط کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ ناقدین کے ہاتھ ایک اور ہتھیار آ گیا تھا، چنانچہ خان نے منظور آفریدی کی منظوری واپس لے کر نئی نامزدگی کی ہدایت کر دی۔
سب سے دلچسپ معاملہ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہوا۔ یہاں حزب اختلاف کی قیادت، پی ٹی آئی کے میاں محمودالرشید کے پاس تھی اور نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر جناب ناصر کھوسہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا نہیں، قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید کا ” انتخاب‘‘ تھے۔ محمودالرشید کے بقول کھوسہ صاحب کا نام خود پارٹی قیادت کی طرف سے آیا تھا۔ تقریباً دو دن تک پی ٹی آئی کی قیادت اپنے ”حسنِ انتخاب‘‘ پر خود کو داد دیتی رہی۔ سمری تیار ہو کر رسمی توثیق کے لیے گورنر ہائوس جا چکی تھی کہ پی ٹی آئی منحرف ہو گئی۔ کھوسہ صاحب اپنے 36 سالہ کیریئر میں ایک بااصول اور قاعدے قانون کے پابند بیوروکریٹ کی شہرت رکھتے تھے۔ آخری برسوں میں وہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے چیف سیکرٹری اور غالباً ایک سال سے بھی کم عرصہ وزیر اعظم نواز شریف کے سیکرٹری رہے (سادگی اور انکساری کے طور پر ”پرائم منسٹر سیکرٹریٹ‘‘ کو پرائم منسٹر آفس اور ”پرنسپل سیکرٹری‘‘ کو سیکرٹری قرار دے دیا گیا تھا)۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کھوسہ صاحب ورلڈ بینک میں چلے گئے۔
ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں جہانگیر ترین کی وزارت میں بھی کھوسہ صاحب سیکرٹری کے فرائض انجام دے چکے تھے۔ انہوں نے بھی انہیں قاعدے قانون کا پابند بیوروکریٹ پایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کی نگران وزارت اعلیٰ کے لئے ان کا نام بھی ترین نے ہی خان کو دیا تھا۔ شاہ محمود قریشی (اور ان کے گروپ) کو پارٹی کی داخلی سیاست میں مضبوط ترین حریف جہانگیر ترین پر وار کرنے کا ایک اور بہانہ مل گیا تھا اور پھر پی ٹی آئی نے خود اپنا ہی دیا ہوا نام واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ U Turnپی ٹی آئی کا برانڈ بن چکا ہے۔ اب اس میں ایک اور اضافہ ہو گیا۔ رندھے ہوئے لہجے میں محمودالرشید اپنے لیڈر سے احتجاج کئے بغیر نہ رہا، آپ نے مجھے برباد کر دیا… لہولہان کر دیا۔ خان نے اس گستاخی پر ڈانٹ پلانے کی بجائے نرمی کا لہجہ اپنایا، ”پارٹی نہیں مانتی‘‘… اس پر ہمیں نواب زادہ صاحب (مرحوم) یاد آ گئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابل حزب اختلاف کی صدارتی امیدوار مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے نو نکاتی پروگرام کا پہلا نکتہ قرآن و سنت کی بالا دستی تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے ”مولانا‘‘ عبدالحمید بھاشانی کی ایوب خان سے درپردہ سودے بازی ہو گئی تھی؛ چنانچہ متحدہ حزب اختلاف کے اجلاس میں انہوں نے قرآن و سنت والا نکتہ حذف کرنے کا مطالبہ کر دیا کہ سیکولر جماعت کے طور پر ان کی پارٹی کو یہ نکتہ قبول نہ تھا۔ سیاسی لحاظ سے ان کے لئے یہ تباہ کن ہوتا۔ نواب زادہ نے فائل سے نو نکات والا وہ کاغذ نکالا جس پر بھاشانی صاحب کے دستخط بھی تھے‘ لیکن ان کا استدلال تھا کہ ان کی جماعت اسے قبول کرنے پر تیار نہیں۔ نواب زادہ صاحب کا جواب تھا، اپنی پارٹی کو قائل کرنا آپ کا مسئلہ ہے، وہ نہیں مانتی تو آپ صدارت سے مستعفی ہو جائیں۔ لیکن محمودالرشید تو چیئرمین کے حضور رونا دھونا ہی کر سکتے تھے، یہ تو کہنے سے رہے کہ جناب مجھے یہ نام آپ نے دیا تھا‘ اب پارٹی کو منانا آپ کا کام ہے، وہ نہیں مانتی تو آپ مستعفی ہو جائیں۔
شریف آدمی نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ ناصر کھوسہ نے خود ہی دستبرداری اختیار کر لی۔ محمودالرشید نے کھوسہ صاحب کی جگہ اب ناصر درانی کا نام دے دیا (حالانکہ وہ بھی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی حکومت میں آئی جی پولیس رہے تھے) ظاہر ہے، یہ نام بھی بنی گالہ سے آیا تھا۔ وہاں کسی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد درانی صاحب ان دنوں پنجاب پبلک سروس کمشن کے ممبر ہیں۔ ناصر کھوسہ کی طرح انہوں نے بھی معذرت کر لی۔
تازہ ترین ایپی سوڈ فاروق بندیال کا ہے… 70 کی دہائی کے اواخر میں اداکارہ شبنم کے ساتھ گینگ ریپ اور ڈکیتی کا کردار… یہ ضیاء الحق کا مارشل تھا اور فاروق بندیال اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ سزائے موت کا مستحق قرار پایا تھا۔
فاروق بندیال کے بزرگ پنجاب حکومت میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ تمام تر سفارشوں کے باوجود ضیاء الحق نے سزائے موت کے مجرموں کے ساتھ نرمی سے انکار کر دیا (ورنہ بھٹو کی پھانسی کا کیا جواز رہتا؟) یہ خود اداکارہ شبنم تھی جس کی رضا مندی سے موت کی سزا، قید میں تبدیل ہو گئی۔
ابھی دو دن پہلے تحریک انصاف میں شمولیت پر عمران خان فاروق بندیال کو پارٹی کا مفلر پہنا رہے تھے۔ میڈیا میں ہاہاکار مچی تو نعیم الحق نے گینگ ریپ اور ڈکیتی کے سزا یافتہ مجرم کی شمولیت کو پی ٹی آئی کے لیے بدقسمتی کا لمحہ قرار دیتے ہوئے اس کے اخراج کا اعلان کر دیا۔
پی ٹی آئی کے ان پے در پے یُوٹرنز پر خود خان کے بے پناہ مداح ہمارے شاہ صاحب بھی یہ کہے بغیر نہیں رہے، ”کیا بیس سال گزرنے کے بعد بھی یہ جماعت عمران خان کا فین کلب ہے؟ سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے سے قاصر اور یُوٹرن لینے کی ماہر… جس کا ازالہ نہ ہوا تو مخالفین کے لیے آسان چارہ ہو گی، جو اسے تباہ کرنے کے لیے بے تاب ہیں‘‘۔