منتخب کردہ کالم

ٹیکسلا یونیورسٹی میں ایک دن (جمہور نامہ) رئوف طاہر

پنجابی کے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش نے کہا ؎
لَے او یار حوالے رب دے ‘میلے چار دناں دے
اُس دِن عید مبارک ہو سی‘جس دِن فیر ملاں گے
ٹیکسلا کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (UET) میں واقعی عید کا سماں تھا۔ کبھی تعلیمی اداروں کی ”اولڈ بوائز ایسوسی ایشنز‘‘ ہوا کرتی تھیں (مخلوط تعلیمی اداروں کی ”گرلز‘‘ بھی اس کا حصہ ہوتیں) اب ان کی جگہ ”ایلومینائی ایسوسی ایشنز‘‘ نے لے لی ہے۔ ٹیکسلا یو ای ٹی ایلومینائی ایسوسی ایشن کے بانی صدر ہونے کا اعزاز ڈاکٹر ممتاز احمد کمال کی قسمت میں لکھا تھا (وہ اب بھی اس کے صدر ہیں) 2006ء میں قائم ہونے والی ایلومینائی کی یہ چھٹی ”ری یونین‘‘ تھی۔ اس سے پہلے اس میل ملاپ کا اہتمام ملتان اور لاہور کے ہوٹلوں میں ہوتا رہا۔ 2017ء کی اس ”ری یونین‘‘ کے لیے خود یو ای ٹی ٹیکسلا کے کیمپس کا انتخاب کیا گیا کہ جنہیں یہاں سے فارغ التحصیل ہوئے عشروں بیت چکے اور پھر وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات میں یوں الجھے کہ اِدھر آنے کی فرصت ہی نہ ملی‘ وہ آئیں اور دیکھیں کہ ان کی مادرِ علمی اس دوران ترقی و کامرانی کی کیا کیا منزلیں طے کر چکی!
جب اگلے سال یہی وقت آ رہا ہو گا
یہ کون جانتا ہے‘ کون کس جگہ ہو گا
ہم اپنے اپنے بکھیڑوں میں پھنس چکے ہوں گے
نہ تجھ کو میرا‘ نہ مجھ کو تیرا پتہ ہو گا
ایلومینائی کے فعال اور مستعد سیکرٹری انجینئر حافظ عبدالرئوف بتا رہے تھے کہ 2017ء کی اس ”ری یونین‘‘ کے لیے رجسٹریشن دو ہزار کا ہندسہ عبور کر گئی‘ انہیں امید تھی کہ اگلے سال یہ تعداد دس ہزار تک پہنچ جائے گی۔
ماضی کی ساری یادیں عذاب نہیں ہوتیں‘ بہت سی یادیں خوشگوار بھی ہوتی ہیں۔ وہ جو عشروں بعد اب پہلی بار یہاں آئے تھے‘ اپنے ماضی میں کھوئے ہوئے تھے۔ ”نا سٹلجیا‘‘ جس کا اپنا سحر‘ اپنا ٹرانس ہوتا ہے۔
ہمارے دوست حفیظ اللہ نیازی (عمران خان فیم) بھی اسی کیفیت سے دوچار (بلکہ سرشار) تھے۔ میانوالی کالج سے فارغ ہونے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی اس کا انتخاب تھی۔ لیڈری اس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ وہ یہاں کی اسٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری اور اسکے بعد صدر بھی منتخب ہو گیا۔ بھٹوصاحب کا دور تعلیمی اداروں میں بڑا ہنگامہ خیز تھا۔ تب کراچی اور لاہور کی طرح اسلام آباد میں بھی اسلامی جمعیت طلبہ کا راج تھا۔ اسلام آباد یونیورسٹی میں محترمہ کنیز فاطمہ وائس چانسلر ہوتی تھیں‘ ترقی پسند اور روشن خیال خاتون وائس چانسلر کے ساتھ سٹوڈنٹس یونین کی ورکنگ ریلیشن شپ کشیدگی کا شکار رہی۔ 1974ء کی اینٹی قادیانی موومنٹ میں اسلام آباد یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین بھی پیش پیش تھی۔ بالآخر حفیظ اللہ نیازی کو یونیورسٹی سے ”فارغ‘‘ کر دیا گیا۔ اِدھر لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلوں کا پریشر بڑھا تو ٹیکسلا میں یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ کے نام سے اس کے کیمپس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ 1975ء تھا‘ تین سال تک اس نے ساہیوال میں کام کیا اور 1978ء میں یہاں ٹیکسلا میں اپنے اصل اور مستقل ٹھکانے پر آ گیا۔ اکتوبر 1993ء میں اسے ایک مکمل یونیورسٹی کا چارٹر مل گیا۔ اس نے 1975ء میں مکینیکل‘ سول اور الیکٹریکل (کے تین) شعبوں میں تقریباً ڈیڑھ سو طلبہ کے ساتھ اپنا سفر کا آغاز کیا تھا آج یہاں درجن بھر شعبوں میں ساڑھے پانچ ہزار سے زائد طلبہ و
طالبات ہیں۔ ساڑھے تین سو فیکلٹی ممبرز اور سٹاف کے دیگر ارکان کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا کے مضافات میں‘ شہر سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر 163 ایکڑ پر محیط ہے۔ گندھارا تہذیب کے آثار کو اپنے دامن میں سمیٹے ٹیکسلا شہر‘ اسلام آباد اور راولپنڈی سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ واہ کینٹ اور دونوں جڑواں شہروں سے طلبہ و طالبات کو لانے کے لیے 22 بسوں کا فلیٹ دستیاب ہے۔ یونیورسٹی کے اندر تقریباً 3 ہزار طلبہ کے لیے ہاسٹل کی سہولت بھی موجود ہے (ان میں 200 غیر ملکی ہیں) طالبات کے ہاسٹل میں 100 کمروں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ریسرچ کے فروغ کے لیے 2017ء کو ”ریسرچ کا سال‘‘ قرار دیا گیا ۔ پی ایچ ڈی کے طلبہ کے لیے 60 ہزار روپے ماہانہ سکالر شپ ہے۔ ان میں پاکستان میں (غالباً) معمر ترین پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ عبدالقیوم بٹ بھی ہے۔ موصوف نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے فزکس میں ماسٹرز کرنے کے بعد امریکہ کا رخ کیا۔ الیکٹریکل انجینئرنگ میں ماسٹر کرنے کے بعد وہیں کے ہو رہے۔ 35 سال بعد وطن کی یاد ستائی تو لوٹ آئے‘ 66 سالہ عبدالقیوم بٹ اب ٹیکسلا میں پی ایچ ڈی کے سٹوڈنٹ ہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی سے اخراج کے بعد‘ حفیظ اللہ نیازی یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ ٹیکسلا کے سٹوڈنٹ ہو گئے ۔یہ 1975ء کا پہلا Batch تھا۔ اس لحاظ سے وہ یہاں کے سینئر ایلومینائی ممبرز میں شمار ہوتے ہیں۔ 2017ء کی اس ”ری یونین‘‘ کے مہمانِ خصوصی بھی وہی قرار پائے۔ یہاں کے فارغ التحصیل نوجوانوں نے ملک کے اندر اور باہر اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان میں مختلف سول اور عسکری اداروں کے علاوہ‘ کہوٹہ لیبارٹریز اور پاکستان اٹامک انرجی کمشن میں اعلی خدمات انجام دینے والے بھی شامل ہیں۔
ترقی اور منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے فارغ التحصیل ہیں (وہ یہاں اسٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی رہے) یہ بات پہلی بار ہمارے علم میں آئی کہ احسن اقبال نے شروع کے دو سال ٹیکسلا میں گزارے تھے۔ مختلف شعبوں میں غیر معمولی خدمات انجام دینے والوں کے لیے گولڈ میڈل بھی ایلومینائی ری یونین کی روایت ہے۔ یہاں احسن اقبال اور حفیظ اللہ نیازی کے علاوہ گولڈ میڈل پانے والوں میں ڈاکٹر نبیل حیات ملک‘ ڈاکٹر اظہر منیر‘ انجینئر شاہد اقبال‘ انجینئر سہیل احمد‘ انجینئر چوہدری محمد اکرم اور انجینئر عبدالقدیر شامل تھے۔(احسن اقبال اپنی سرکاری مصروفیات کے باعث موجود نہ تھے)۔
ٹیکسلا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر صاحبان کے لیے خصوصی شیلڈز کا اہتمام کیا گیا تھا‘ ان میں پروفیسر ڈاکٹر سلیم اقبال علوی‘ ڈاکٹر محمد شریف بھٹی‘ ڈاکٹر حبیب اللہ جمال‘ ڈاکٹر محمد عباس، چوہدری ڈاکٹر محمد ظفر اللہ اور ڈاکٹر محمد اکرم جاوید موجود تھے۔
اوپن ہائوس اینڈ جاب فیئر 2017ء بھی اس روز کا اہم ایونٹ تھا۔ طلبہ و طالبات کے تیار کردہ پراجیکٹس ان کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ چمکتی آنکھیں اور دمکتے چہرے بتا رہے تھے کہ انہیں ضروری وسائل فراہم کر دیئے جائیں تو یہ اپنے اپنے شعبے میں معجزے کر دکھائیں۔
سینئر ایلومینائی یہاں عشروں پہلے کی ”رف اینڈ ٹف لائف‘‘ کا ذکر کر رہے تھے‘ وہ جو فوجی اصطلاح میں ”ہارڈ ایریا‘‘ ہوتا ہے‘ تب یہاں بھی صورتحال ایسی ہی تھی۔ لیکن اس دور کی مشقت بعد کی عملی زندگی میں بہت کام آئی۔ ایک صاحب نے تو دلچسپ بات کی ”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ تب یہاں کیمپس کے اندر تو کجا علاقے میں بھی دور دور تک کہیں یہ ”رنگ‘‘ نظر نہ آتا تھا‘ ایک دن تو وہ اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ باقاعدہ تلاش میں نکلے اور مایوس لوٹے۔ اب خیر سے یونیورسٹی میں 300 طالبات ہیں‘ جاب فیئر میں جن کی کارکردگی‘ لڑکوں سے کم نہ تھی۔
پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر تین سال سے یہاں وائس چانسلر ہیں۔وہ پنجاب یونیورسٹی سے کیمیکل انجینئرنگ سے فارغ التحصیل ہوئے‘ ڈاکٹریٹ انگلینڈ کی لیڈز یونیورسٹی سے کی۔ اپنی مادر علمی (پنجاب یونیورسٹی) میں مختلف تدریسی و انتظامی ذمہ داریوں کے بعد‘ چھ سال ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد میں وائس چانسلر رہے۔اب ٹیکسلا یونیورسٹی میں ان کا دور‘ تیزرفتار ترقی کا دور ہے‘ لیکن وہ کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے پیشرو حضرات کے دور میں بھی بہت کام ہوا۔ ان تین برسوں کی تیزرفتاری کا کریڈٹ انہیں بھی جاتا ہے۔
لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی‘ ٹیکسلا یونیورسٹی کی ماں ہے‘ کہنے والوں نے یہاں ایک دلچسپ بات بھی کہی‘ بچہ (یا بچی) ماں سے آگے نکل جائے تو یہ ماں کیلئے فخر اور مسرت کی بات ہوتی ہے۔