ٹی وی کا درخشاں زمانہ اور آج کی گھٹن….مسعود اشر
یہ اسلام آباد میں پاک چائنا فرینڈ شپ کی عمارت کا بڑا ہال ہے۔ اسٹیج پر ذرا ذرا سے فاصلے پر دو میزیں رکھی ہوئی ہیں۔ ایک میز کے پیچھے تین اور دوسری میز کے پیچھے دو کرسیاں ہیں۔ پس منظر میں دو تصویریں نظر آ رہی ہیں۔ ایک حجاب امتیاز علی کی اور دوسری بانو قدسیہ کی۔ بظاہر تو یہ نیشنل بک فائونڈیشن کے قومی کتاب میلے کی دوسری تقریبات کی طرح ہی ایک تقریب نظر آ رہی ہے۔ اور ہال میں بیٹھے لوگ بھی یہی توقع کر رہے ہیں کہ خالی کرسیوں پر جو بالغ نظر مبصر بیٹھیں گے، وہ تصویروں والی خواتین کے بارے میں اپنی اپنی بات کریں گے۔ لیکن نہیں، یہاں بات کرنے والا ہے یوسف کامران۔ اور خود اپنے بارے میں باتیں کرنے والی ہیں حجاب اور بانو۔ یوسف کامران بھی کیا طرحدار آدمی تھا۔ خوش شکل اور ذہین و فطین۔ اس نے پاکستان ٹیلی وژن پر ’’سخن ور‘‘ اور ’’داستان گو‘‘ جیسے پروگراموں کی میزبانی کر کے صرف ان پروگراموں کو ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی زندہ جاوید کر لیا ہے۔ حجاب امتیاز علی اور بانو قدسیہ کی طرح وہ بھی آج ہمارے درمیان نہیں ہے، مگر ہم چند منٹ بعد ان تینوں کو اپنے سامنے اسکرین پر جیتا جاگتا دیکھنے والے ہیں۔ ان تاریخی پروگراموں کے پروڈیوسر خواجہ نجم الحسن ہمارے سامنے کھڑے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہ پروگرام کیسے تیار کئے جاتے تھے۔
کشور ناہید ہر شاعر اور ادیب کے بارے میں ریسرچ کرتیں اور یوسف کامران ان کے انٹرویو کرتے۔ یہ پروگرام پہل تھی اس قسم کے پروگراموں کی جو عام روایات سے ہٹ کر کئے جاتے ہیں۔ یہ انٹرویو کسی ایک جگہ بیٹھ کر نہیں بلکہ چلتے پھرتے کئے جاتے تھے۔ یہ بھی اپج تھی ان پروگراموں کے پروڈیوسر خواجہ نجم الحسن کے ذہن کی۔ خواجہ نجم الحسن ٹی وی کے ان پروڈیوسروں میں ہیں جنہوں نے پاکستان میں ادبی اور ثقافتی ٹیلی وژن کلچر کی بنیاد رکھی۔ اب چونکہ ہمارے سامنے حجاب اور بانو کی تصاویر ہیں اس لئے ہم سمجھ جاتے ہیں کہ اس وقت پی ٹی وی کے پروگرام ’’داستان گو‘‘ کی جھلکیاں دکھائی جائیں گی۔ پہلے ہم حجاب امتیاز علی کو دیکھتے ہیں۔ انہیں یاد کرنے اسٹیج پر آتی ہیں حجاب کی صاحب زادی یاسمین، ان کے داماد نعیم طاہر، ان کا نواسا فاران طاہر اور کشور ناہید۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ حجاب امتیاز علی تصویر کھنچوانے سے گھبراتی تھیں۔ انہوں نے ٹیلی وژن پر آنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس کا توڑ یہ نکالا گیا کہ انہیں باغ جناح لے جایا گیا کہ حجاب آپا پھول پودے اور جانور بہت پسند کرتی تھیں۔ کیمرہ جھاڑیوں کے پیچھے چھپا دیا گیا تاکہ انہیں علم نہ ہو کہ ان کی فلم بنائی جا رہی ہے۔ اب یوسف کامران نے ان کے ساتھ سیر شروع کی۔ اب سیر بھی ہو رہی ہے اور ان سے بات چیت بھی ہو رہی ہے۔ اس طرح حجاب آپا کا انٹرویو ہو گیا۔ یاسمین طاہر ریڈیو کی شیریں دہن براڈ کاسٹر ہیں۔ اب یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنی والدہ کو یاد کریں اور جلدی بات ختم کر دیں۔ وہ بول رہی ہیں اور اپنی یادوں میں ہمیں بھی شریک کر رہی ہیں۔ نعیم طاہر بتا رہے ہیں کہ یاسمین کے ساتھ ان کی شادی کیسے ہوئی۔ اور فاران اپنی نانی کا آخری وقت یاد کر رہے ہیں۔ کشور ناہید کو وہ دن یاد آرہے ہیں جب حجاب آپا آسمان پر پہلی تاریخ کا ابھرتا ہوا چاند دیکھنے سب کو اپنے گھر بلاتی تھیں۔ اور ہم حیران ہو رہے ہیں کہ وہ ہمارے زمانے کی خاتون تھیں یا اپنی کہانیوں کی طرح کوئی داستانی شخصیت؟
اب منظر بدلتا ہے اور ہمارے سامنے بانو قدسیہ کی تصویر ابھرتی ہے۔ اب کرسیوں پر امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید اور یہ حقیر فقیر بیٹھا ہے۔ بانو سے بات کرنے والا بھی وہی خوش گفتار یوسف کامران ہے۔ بانو کتنی جوان نظر آ رہی ہیں؟ یہی تو تصویر اور فلم کا کمال ہے۔ وہ بوڑھا ہی نہیں ہونے دیتے کسی کو۔ یوسف کہتا ہے ’’آپ نے اپنے آپ کو اشفاق احمد کی شخصیت میں گم کر دیا ہے۔‘‘ بانو اس کی تردید کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ یہ افواہ ممتاز مفتی نے پھیلائی ہے۔ مگر ان کے بارے میں گفتگو کرنے والے ان کی اس بات پر حیران ہو رہے ہیں۔ انہوں نے تو اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی آخری عمر تک یہ دیکھا کہ بانو کے لئے خان صاحب ہی سب کچھ تھے۔ بانو نے تو اپنی ذات کی بالکل ہی نفی کر دی تھی۔ ہم اسٹیج پر بیٹھے یہ پروگرام دیکھ رہے ہیں اور اپنا اور ٹی وی کا ماضی یاد کر رہے ہیں۔ کیا روشن زمانہ تھاوہ بھی۔ عطاء الحق قاسمی پاکستان ٹیلی وژن کا یہی درخشاں دور تو واپس لانا چاہ رہے تھے۔ وہ دور جب ’’سخن ور‘‘ اور ’’داستان گو‘‘ جیسے ادبی اور ثقافتی پروگرام کئے جاتے تھے۔ جب نئے نئے تجربے کئے جا رہے تھے۔ عطاء الحق قاسمی نے پی ٹی وی کے اسٹوڈیوز کو نئی زندگی دینے کی کوشش ہی تو کی تھی۔ بھلا یہ بات ذہنی طور پر فالج زدہ لوگوں کو کیسے پسند آ سکتی تھی؟ لیجئے، یہاں ہم توثیق حیدر کو تو بھولے ہی جا رہے ہیں۔ توثیق بھی ٹی وی کے ماضی کی ہی نشانی ہیں۔ اگر کسی کو شائستہ، شستہ اور مہذب زبان سننا ہو تو توثیق حیدر کو بولتا ہوا سن لے۔ کیسا میٹھا اور کتنا دلکش لہجہ ہے ان کا۔ آج ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو اپنے بے شمار ٹی وی چینلوں پر ہمیں ایک بھی میزبان ایسا نظر نہیں آتا جو کسی ملاوٹ کے بغیر ڈھنگ کی زبان بولتا ہو۔ ہم نے پچھلے ہفتے اپنے کالم میں موجودہ معاشرے کے زوال کا جو رونا رویا تھا، کیا یہ بھی اس کا ایک حقیر سا نمونہ تو نہیں ہے؟ اب آپ یہ نہ کہہ دیجئے کہ تم اپنی اردو کو کب تک روتے رہو گے؟ یہ تمہاری اپنی پریشانی ہے، کسی اور کو اس سے کیا غرض۔ لیکن صاحب، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کوئی بھی زبان بولیں، میٹھے لہجے اور اس زبان کی مبادیات کا خیال تو رکھیں۔ یہاں ہمیں بس اتنا ہی کہنا ہے۔ ڈر لگ رہا ہے کہ پچھلے کالم کی طرح ہمارے بعض مہربان ہماری آج کی باتوں سے بھی کہیں ناخوش نہ ہو جائیں۔
مگر ہم جیسے سر پھرے تو اپنی باتوں سے ادھر ادھر ناخوش کرتے ہی رہتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی کو عمار علی جان جیسا استاد اس لئے پسند نہیں آیا کہ و ہ اپنے شاگردوں میں تنقیدی فکر پیدا کر رہا تھا۔ اس نے ایک ریڈنگ گروپ بنا رکھا تھا۔ وہ اپنے طلبہ میں نئی نئی تاریخی اور تحقیقی کتابیں پڑھنے اور بے باکی کے ساتھ کھل کر اپنے خیالات ظاہر کرنے کا رجحان پیدا کر رہا تھا۔ اسے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا کہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کر رہا تھا (آپ کو سقراط یاد آیا؟) عمار جان امریکہ کی ٹیکساس یونیورسٹی کا گریجویٹ، شکاگو یونیورسٹی کا ایم اے اور کیمبرج یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی ہے۔ ادھر کراچی کی ایک یونیورسٹی میں بھی اسی قسم کا واقعہ ہوا۔ وہاں وفاق پاکستان کی صورت حال پر ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اچانک وہ مذاکرہ منسوخ کر دیا گیا۔ اسی طرح لاہور میں ایک نجی یونیورسٹی میں مشال خاں کی تعزیت کے لئے جو اجتماع کیا جا رہا تھا، اسے بھی منسوخ کر دیا گیا۔
معاف کیجئے، ہم منسوخ کر دیا گیا لکھ رہے ہیں حالانکہ یہ اجتماع منسوخ کرائے گئے۔ کس نے منسوخ کرائے؟ اور کیوں منسوخ کرائے؟ یہ ان لوگوں سے پوچھئے جنہوں نے عمار علی جان کو یونیورسٹی سے نکلوایا۔ یا پھر ان اخباروں اور ٹی وی چینلز سے پو چھئے جنہیں ایسی ہی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تو کیا ہماری یہی علم دشمنی تو نہیں ہے جس کی وجہ سے آج تعلیمی معیار کے اعتبار سے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں مشکل سے ہی ہماری ایک آدھ یونیورسٹی کا نام آتا ہے؟ یہ ہے آج کی صورت حال۔ اب گھٹن پیدا نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا۔