منتخب کردہ کالم

پار درختاں دُھپ سویرے … (آخری حصہ)…وقارخان

ار درختاں دُھپ سویرے

پار درختاں دُھپ سویرے … (آخری حصہ)…وقارخان

مالک حقیقی ہی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ سو سال بعد جب پہلی اور گناہ گار دنیا نظام شمسی پر اپنا سکہ جما چکی ہو گی، تب دوسری اور پارسا دنیا ماضی کی روایات کو سینے سے لگائے تاریخ کے پچھواڑے رینگ رہی ہو گی۔ وہ جدید علوم کی بنا پر خلائوں کو مسخّر کر یں گے اور یہ ماضی کے التباسات سے سند یافتہ احساس برتری کے سہارے خیالی فتوحات کے پھریرے لہرائیں گے۔ جب وہ نظام شمسی عبور کر کے اگلی دنیائوں پر بھی اپنے جھنڈے لہرا رہے ہوں گے ، یہ تب بھی وائٹ ہائوس پر اپنا پرچم لہرانے کی بڑھکیں مار رہے ہوں گے ۔ جب پہلی دنیا اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کے زور پر خلا میں بستیاں بسائے گی ، علم و عمل سے تہی دوسری دنیا اپنی حماقت کی طاقت سے خلائی قلعے تعمیر کرے گی ۔ وہ خلائی جہازوں میں بیٹھ کر مریخ پر اپنے گھر بنانے جائیں گے اور یہ جہالت کے خچروں پر سوار پتھر کے دور کی دہلیز پر پہنچ چکے ہوں گے ۔ وہ اپنے بچوں کو سائنس کی نئی نئی جہات سے روشناس کرائیں گے اور یہ اپنے بچوں کو سائنس پر اپنے بزرگوں کے فرضی احسانات رٹائیں گے ۔ جب گمراہوں کے ناپاک پائوں ماہ و مشتری کی دھول اڑائیں گے، ماضی کے مسافروں کی زبانیں دانش کے نام پر زمین کی خاک اڑا کر اپنے سروں میں ڈال رہی ہوں گی۔
مالک حقیقی ہی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ سو سال بعد جب پہلی دنیا اپنی دور بینوں کی مدد سے اربوں سے بڑھ کر کھربوں سیاروں کو شمار کر رہی ہوں گی ، تب دوسری دنیا اپنی خورد بینوں
سے پہلی دنیا کی بن بیاہی مائوں کی تعداد نوٹ کر رہی ہو گی ۔ وہ چاند پر آباد کاری میں مصروف ہوں گے اور یہ زمین پر باہم دست و گریباں ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے کی بحث میں الجھے تین تین عیدیں منا رہے ہوں گے۔ اگلی صدی میں جب گناہگار زیر آب ”ببل سٹی‘‘ تعمیر کرنے کے لیے سمندر کی گہرائیوں میں اتر رہے ہوں گے ، تب نام نہاد نیکو کار اخلاقی پستیوں میں بہت دور تک اتر چکے ہوں گے ۔ وہاں ذاتی زندگی میں عدم مداخلت اور پرائیویسی کی حرمت عروج پر ہو گی، یہاں دخل در معقولات کے ذریعے معاشرے کو سدھارنے کا خود اختیاری فریضہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ انہیں پلوٹو پر بھی زندگی کے شواہد مل جائیں گے اور یہ ابھی تک اپنی آستینوں کی بجائے دہشت گردی میں ملوث بیرونی ہاتھ تلاش کر رہے ہوں گے ۔ وہ موجودہ دور سے کہیں زیادہ فلک بوس عمارتوں کو حقیقت کر دکھائیں گے ، یہ انہیں جہاز ٹکرا کر زمین بوس کرنے کو سچ کر دکھائیں گے ۔ وہ خلا میں جانے کے لیے کمرشل فلائٹس روانہ کریں گے یہ ان فلائٹس میں بیٹھ کر خلا سے ایک آدھ ستارہ چوری کر لائیں گے۔ ان کے عالم نئی نئی کہکشائوں کی تصاویر جاری کریں گے ، اِن کے لوگ مغویوں کو قتل کرنے کی نئی نئی تکنیکس کی ویڈیوز جاری کریں گے ۔ وہ خلائی سٹیشن سے بھی زمین پر اپنے کروڑوں طالب علموں کو جدید تعلیم سے آراستہ کر رہے ہوں گے اور یہ سو سال بعد بھی تعلیمی مدارس کے نصاب پر اختلافات کا شکار ہوں گے۔ وہ فلاح انسانیت کے لیے اپنے اثاثے عطیہ کریں گے، یہ اپنے ”علم کے گہواروں‘‘ کے لیے عطیات اور چرم ہائے قربانی جمع فرمایا کریں گے ۔ اُدھر جان لیوا بیماریاں جڑ سے اکھاڑ پھینکی جائیں گی ، اِدھر پارسائی اور خود ستائی کے بخار کا علاج بھی ممکن نہ ہو گا۔ وہ جدید روایات کے بانی کہلائیں گے ، یہ اپنی ”مستحکم تہذیبی روایات ‘‘ کے دامن سے لٹک رہے ہوں گے۔ وہ علم پرستی کے داعی ہوں گے تو یہ شخصیت پرستی کے خوگر۔ وہ ووٹ کی طاقت سے اپنے کھرے اور دیانتدار حکمران منتخب کریں گے اور یہ کمر سے تیغ آب دار لٹکائے کسی نسیم حجازی کے منتظر ہوں گے ۔ وہ شخصی آزادیوں سے زندگی کا لطف اٹھایا
کریں گے اور یہ ویلنٹائن ڈے کے خلاف رفیع الشان جلوس نکالا کریں گے ۔ وہ ہر شعبے میں اپنی عورتوں کو برابری کی سطح پر شمار کریں گے اور یہ اپنی مستورات پر تشدد کے احکامات کی تشریح کر رہے ہوں گے۔ پہلی دنیا ان کی عاصمہ جہانگیروں اور ملالہ یوسفزئیوں کو خراج عقیدت پیش کرے گی اور خود یہ ان پر تبرے ارسال کریں گے۔ ان کے ہیرو سٹیفن ہاکنگز ہوں گے اور ان کے لال بجھکڑ۔ اُن کی پہچان علم و تحقیق ٹھہرے گی اور ان کی جنوں۔ سو سال بعد جب پہلی دنیا خاموشی سے باہم متحد ہو کر اس گلوبل ولیج پر قابض ہو گی تو اس وقت دوسری دنیا اس ”ولیج‘‘ سے دور اپنی کچی ڈھوک پر بیٹھی اتحاد اُمہ کے پھٹے ڈھول بجاتے ساری دنیا کو فتح کرنے کی قوالی کر رہی ہو گی۔
مالک حقیقی ہی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ سو سال بعد جب پہلی دنیا پر سچ کی مکمل حکمرانی ہو گی ، دوسری دنیا جھوٹ کی راجدھانی ہو گی۔ وہاں قانون کی عملداری ہو گی، یہاں حماقتوں کی اجارہ داری ہو گی ۔ وہاں اہل علم کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا، یہاں انگوٹھا چھاپ راج کریں گے۔ جب وہ کرپشن پروف نظام سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے ، یہ تب بھی حیا پروف نظام میں کسی پانامہ لیکس سکینڈل پر ایک دوسرے کو ننگا کر رہے ہوں گے۔ وہاں جمہوریت اور جمہوری رویے پختہ ہوں گے ، یہاں ہر پنج سالے بعد نظریہ ضرورت کی زنگ آلود صندوقچی سے دیمک زدہ ”نسخہ کیمیا‘‘ برآمد ہو گا۔ وہاں متواتر انتخابات منعقد ہوا کریں گے ، یہ برابر ریفرنڈم کرایا کریں گے ۔ وہ جمہوری رہنمائوں کی برسیاں منائیں گے ، یہ آمروں کے عرس منائیں گے ۔ وہاں منتخب عوامی نمائندوں کی چلے گی اور یہاں ریموٹ کنٹرول سے نمائندوں کو گائیڈ کرنے والوں کی ۔ جب پہلی دنیا میں سیاحت سب سے بڑی انڈسٹری بن چکی ہو گی ، یہاں سیاحوں سے نکاح نامے طلب کیے جا رہے ہوں گے۔ وہ فطرت کی قوتوں کو زیرِ پا کریں گے، یہ مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے نت نئے حربے آزمائیں گے۔ وہ ابرو کے اشاروں سے چلنے والی گاڑی کی نمائش کریں گے، یہ مائیکرو خود کش جیکٹس اور جدید ترین کمپیوٹرز کو بھی پچھاڑنے والے جعلی پاسپورٹس اور ویزے متعارف کرائیں گے ۔ جب اول الذکر دنیا یقین کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت ثابت کر کے ہر نا ممکن کو ممکن کر دکھائے گی ، تب موخرالذکر دنیا تشکیک، تذبذب ، فکری الجھائو ،جذباتی ہیجان اور ڈھلمل یقین کی آخری حدوں کو چھو رہی ہو گی۔
مالک حقیقی ہی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کی اگلی صدی میں جب وہاں کی فضائوں میں روشنیاں پھوٹ رہی ہوں گی ، یہاں بحرانوں کے اندر سے بحران پھوٹ رہے ہوں گے ۔ اُن کے گھروں کی دیواریں ایل ای ڈی سکرینز پر مشتمل ہوں گی اور اِ ن کے گھروں کی دیواروں پر اندھیرے ہی راج کریں گے ۔ اِدھر اندھیروں سے گھبرا کرکوئی اہل دل حسرت سے پکارے گا:
پار درختاں دُھپ سویرے
کندھاں اونہاں گراواں تے
پار درختاں دُھونی دُھخدی
وسدیاں ہوئیاں تھانواں تے
پار درختاں راہ کوئی جاندی
وچوں راہواں ساریاں دے
پار درختاں بتی بلدی
اوہدے گھر دیاں باریاں تے