منتخب کردہ کالم

پاناما کیس کا فیصلہ غلط ہے…..ظفر اقبال

پاناما کیس کا فیصلہ غلط ہے‘ واپس لیا جائے : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ”پاناما کیس کا فیصلہ غلط ہے‘ واپس لیا جائے‘‘ اور اس کے خلاف تقریریں کر کر کے میرا جو گلا بیٹھ گیا ہے‘ اس کا ذمہ دار کون ہے اور میں ایک بار پھر پوچھتا ہوں کہ مجھے کیوں نکالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ”کیا کسی درخواست گزار نے دبئی کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر میری نااہلی کی درخواست کی تھی؟‘‘ اور مجھے سب سے زیادہ غصہ بھی اسی بات پر ہے کہ میرے خلاف جب منی لانڈرنگ‘ جعل سازی‘ ٹیکس چوری اور اثاثے چھپانے کے بڑے بڑے الزامات تھے تو مجھے اس معمولی سی حرکت پر کیوں نکالا گیا؟ کیا اس سے زیادہ توہین آمیز کوئی بات ہو سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ”کیا کوئی عدالت کسی مطلب کے معانی تلاش کرنے کے لیے ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے؟‘‘ کیونکہ ڈکشنری عام آدمیوں کے لیے ہوتی ہے اور عدالت کو سارے مطلب زبانی معلوم ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ”کیا کوئی عدالت نیب کو اپنے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کام کرنے کے لیے کوئی ہدایت دے سکتی ہے؟ ‘‘کیونکہ یہ نیب کے ریگولیٹر کا کام ہے جس کی ہدایات کے تحت وہ کام کرتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”کیا آج تک اس طرح کے الزامات کی تصدیق کے لیے کبھی اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی؟‘‘ جبکہ اس طرح کے الزامات کی تصدیق ویسے ہی جمہوریت کے خلاف ہے اور جس سے جمہوریت کو سخت خطرات لاحق ہو گئے ہیں جو میری حالت سے ہی صاف ظاہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ایسا فیصلہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا‘‘ اور اب تو میں نے اسے ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بے توقیرفیصلوں کی الماری میں چلا گیا ہے‘‘ جس پر حکومت کا کافی خرچہ آیا ہے اور ایک غریب ملک پر اتنا بوجھ ڈالنا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”پہلے بھٹو کی حکومت ختم کی گئی پھر اُنہیں ختم کیا گیا‘ البتہ اس کا ایک زبردست فائدہ یہ ضرور ہوا کہ میرا چانس نکل آیا حالانکہ پشت ہا پشت سے ہمارا سیاست کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں تھا‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر شر میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جنرل صاحب کو اجر عظیم عطا کرے‘ آمین‘ ثم آمین۔ انہوں نے کہا کہ ” اسی طرح بے نظیر کی حکومت ختم کی گئی‘‘ لیکن جب وہ دوبارہ برسراقتدار آئیں تو میں نے اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد ان کے خلاف تحریک نجات چلائی تھی کیونکہ موجودہ فیصلے کی طرح ان کا اقتدار بھی غلط تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”تاریخ کا رُخ موڑنا ہو گا ورنہ ملک کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے‘‘ جبکہ پہلا حادثہ میری نااہلی کا ہے جس سے ملک کے درودیوار ہل گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”میرے سمیت کسی وزیراعظم کو اس کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی‘‘ لیکن شکر ہے کہ ان سوا چار سالوں میں کچھ دال دلیا کر ہی لیا ہے اور میں پاناما لیکس والوں کا انتہائی شکرگزار ہوں کیونکہ یہی کام اگر وہ چار سال پہلے کر دیتے تو بڑا نقصان ہو جاتا ملک کا بھی اور میرا بھی۔ انہوں نے کہا کہ ”اس کیس میں سرے سے انصاف ہوا ہی نہیں‘‘ کیونکہ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ اصل مقدمات کو
نظرانداز کر کے ایک معمولی بات پر مجھے فارغ کر دیا گیا حالانکہ اگر میں چند ماہ مزید خدمت کر لیتا تو کسی کا کیا بگڑنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”عدالت اور طاقت کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہو گا‘‘ اور اب اس سے زیادہ کھلے الفاظ میں کیا عرض کیا جا سکتا ہے‘ ہیں جی؟ اور اگر کوئی وزیراعظم کرپشن یا منی لانڈرنگ کرتا ہے تو یہ اس کا اور عوام کا مسئلہ ہے جنہوں نے اسے منتخب کیا ہوتا ہے۔ عدالت کو دخل در معقولات کی کیا ضرورت ہے جبکہ عدالت نے اس سے بھی سبق حاصل نہیں کیا جو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں بھی اس پر گزر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ میں ہم نے پٹیشنز دائر کیں تو اُنہیں فضول اور بے معنی قرار دیا گیا۔ کیا اس فیصلے کو ایسا قرار نہیں دیا جا سکتا؟ انہوں نے کہا کہ ”ہر وزیراعظم کو اوسطاً دو سال ملے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ دو سال میں کس مقدار کی خدمت کی جا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ”قائداعظم نے کہا تھا کہ عوامی رائے کبھی غلط نہیں ہوتی‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ عوامی رائے سے منتخب ہونے والا وزیراعظم حکومت کے ساتھ ساتھ تجارت بھی کر سکتا ہے اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے روپے کو محفوظ بنانے کے لیے کہیں بھی بھیج سکتا ہے لیکن یہاں الٹی گنگا بہائی جا رہی ہے اور وزیراعظم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بے شک فاقہ کشی کا شکار ہو جائے لیکن روپے پیسے کو ہاتھ نہ لگائے حالانکہ کوئی وزیراعظم اتنا بے وقوف نہیں ہوتا کہ روپے پیسے کو خواہ مخواہ ہاتھ بھی لگاتا پھرے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اُمید ہے کہ ”آپ بڑے ڈائیلاگ کا حصہ بنیں گے‘‘ اور اگر اس دوران مجھے بحال کر دیا گیا تو پھر اس کی ضرورت نہیں۔ آپ اگلے روز اقبال اکیڈمی میں وکلا کے نواز لیگ ونگ سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب بطور خانہ پری یہ تازہ غزل :
سانچے میں کسی خواب کے ڈھلنے کا زمانہ
ایسا ہے تیرے پھولنے پھلنے کا زمانہ
کچھ کام بھی درکار ہے اے گلشن گفتار
اب وہ نہیں باتوں سے بہلنے کا زمانہ
اُس کی طرف اب کوئی بھی رستا نہیں جاتا
جس باغ میں آیا ہے ٹہلنے کا زمانہ
شاید یہی لے جائے ترے گھر کی گلی تک
رہ جائے ابھی نیند میں چلنے کا زمانہ
ٹھہرا ہوا جب سے بھی ہے یہ ہجر کا موسم
آنا ہے ابھی اس کے بدلنے کا زمانہ
ایسے ہے کہ دریا کو بھی رہتا ہے بہت یاد
وہ اپنے کناروں سے اُچھلنے کا زمانہ
بجھتے ہوئے دن رات‘ ٹھٹھرتی ہوئی شامیں
ہوتا ہے کسی آگ میں جلنے کا زمانہ
گرنا ہی مقدر ہے تو گر گر کے اُٹھیں گے
جب تک نہیں آتا ہے سنبھلنے کا زمانہ
پھر اُس میں‘ ظفرؔ کوئی رکاوٹ نہیں رہتی
آ جاتا ہے جب گھر سے نکلنے کا زمانہ
آج کا مطلع
کئی دن سے ترے ہونے کی سرشاری میں رہتا ہوں
میں کیا بتلائوں آسانی کہ دشواری میں رہتا ہوں

……………….
اگلا کالم
………………