منتخب کردہ کالم

پانامہ کیس …حقائق کا ادراک ضروری!رحمت خان وردگ

پانامہ لیکس دنیا بھر کے کئی حکمران اور طاقتور لوگوں کے متعلق انکشافات پر مبنی تھیں جسکے اثرات متعلقہ ممالک میں مختلف نوعیت کے ہوئے ۔
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں نے انکی تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن پانامہ لیکس کے متعلق سب سے پرزور آواز تحریک انصاف کی تھی اور تحریک انصاف نے پانامہ کی تحقیقات کیلئے پارلیمنٹ اور بات چیت کے فورم پر معاملہ حل کرنے کے بجائے اسلام آباد لاک ڈائون تک معاملہ پہنچادیا جس پر مجبوراً سپریم کورٹ نے کیس کا آغاز کرنا پڑا۔ تحریک انصاف نے ہمیشہ شریف فیملی سے مطالبہ کیا کہ خود کو تحقیقات کیلئے پیش کریں اور اب دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف خود‘ انکے کزن‘ بھائی‘ بیٹے‘ بیٹی سب جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوچکے ہیں اب صرف محترمہ کلثوم نواز اور وزیراعظم کی والدہ صاحبہ ہی رہ گئی ہیں‘ بہتر تو یہی ہے کہ انہیں بھی بلالیں تاکہ تاریخ میں یہ بات یاد رکھی جاسکے کہ وزیراعظم کے گھرانے کے ایک ایک فرد کو تحقیقات کیلئے بلایا گیا لیکن اپوزیشن کی جس جماعت کے مطالبے پر یہ سب کچھ ہورہا ہے ان کا رویہ بھی قوم کو دیکھنا چاہئے کہ عمران خان اپنے خلاف چلنے والے مقدمات میں نہ تو الیکشن کمیشن میں پیش ہوتے ہیں نہ سپریم کورٹ اور انسداد دہشتگردی کی عدالت میں۔ بلکہ ہر پیشی کے دن کبھی خود نہیں آتے تو کبھی ان کا وکیل اور کبھی کسی حیلے بہانے سے مزید وقت مانگا جاتا ہے۔ وزیراعظم اور انکی پوری فیملی کی تحقیقات میں مسلسل پیشی پر خوش ہونیوالوں کو اپنا رویہ ہر صورت درست کرنا چاہئے۔
پانامہ کیس پاکستان کے مستقبل کا رخ متعین کرے گا اور جنرل امجد جیسے فرشتہ صفت سابق چیئرمین نیب بھی جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے‘ یقیناً انہیں جس قدر معلومات تھیں‘ وہ انہوں نے فراہم کی ہوں گی۔ جنرل امجد کو فرشتہ صفت اسی لئے لکھا ہے کہ انہوں نے ایئرمارشل (ر) اصغر خان کو بتایا تھا کہ میں نے بطور چیئرمین نیب تقرری کے بعد ایک فہرست بنائی تھی لیکن جنرل مشرف اس فہرست کیخلاف کارروائی کی اجازت نہیں دے رہے تھے اسی لئے میں نے عہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا اور بعد میں جنرل امجد کو کورکمانڈر تعینات کردیا گیا اور جنرل مقبول کو چیئرمین نیب بنادیا گیا جنہوں نے جنرل مشرف کی ہدایات پر عملدرآمد کیا جس سے نیب سے کرپٹ لوگوں کو چھٹکارا ملنے کا آغاز ہوا۔
پانامہ کیس کی انکوائری کے دوران حکمران جماعت بار بار یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ اگر ہم پر کرپشن کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لایا جائے۔ اس معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی کو لازمی طور پر دیکھنا چاہئے کہ کیا وزیراعظم پر کرپشن ثابت ہوپاتی ہے؟ کیونکہ پانامہ پیپرز میں وزیراعظم کا اپنا نام نہیں تھا لیکن جے آئی ٹی نے انہیں بھی طلب کیا جبکہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے میں مریم نواز کا نام نہیں تھا لیکن پھر بھی جے آئی ٹی نے انہیں طلب کیا۔ مجھے پہلے سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے جیسے فیصلے کے دن قریب آئینگے تو پاکستان کے دشمن ممالک کے ایجنٹ لازمی طور پر پاکستان کی معیشت پر وار کریں گے اور ایسا ہی ہوا کہ مریم نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کے دن ملک دشمن عناصر نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ڈالرکی قیمت میں ہوشربا اضافہ کرکے پاکستان کی معیشت پر کاری وار کیا ہے۔
حکومتی جماعت کی جانب سے جے آئی ٹی کو یہ کہہ کر متنازعہ بنانا قطعی غلط ہے کہ قطری شہزادے کے گھر جاکر تحقیقات کی جائیں۔ قطری شہزادے کو چاہئے کہ وہ جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو اور اگر ایسا ممکن نہیں تو اسے قطر میں پاکستانی سفارتخانے میں جاکر اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہئے۔ اس طرح کا رویہ درست نہیں ہے کہ قطری شہزادے کے گھر جاکر جے آئی ٹی کو تحقیقات کیلئے مجبور کیا جائے اور حکومتی جماعت کے لوگوں کی جانب سے اس طرح کا مطالبہ نہیں دہرایا جانا چاہئے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے کی ہے اور اس بارے میں غیر ضروری الزام تراشیاں توہین عدالت کے مترادف ہی سمجھی جائینگی۔
پانامہ کیس میں جو بھی فیصلہ آئے۔ آئندہ الیکشن میں کیا کرپشن کرنیوالوں‘قرضے معاف کرانیوالوں اور لوٹ مار کرنیوالوں کو دوبارہ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی جائیگی؟ یہ سب سے اہم سوال ہے اور آرٹیکل 62-63 کے متعلق جن لوگوں نے یہ ریمارکس دیئے تھے کہ اگر اس پر سختی سے عملدرآمد کیا گیا تو شاید الیکشن لڑنے کیلئے آسمان سے فرشتے بلانے پڑیں‘ یہ سراسر مذاق ہے۔ کیا پاکستان کی 20 کروڑ عوام اور سینکڑوں جماعتوں میں کوئی بھی ایماندار‘ بلاصلاحیت اور محب وطن ایسے سینکڑوں افراد موجود نہیں جو پارلیمنٹ‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر براجمان ہوسکیں؟ ہر پارٹی‘ ہر حلقے میں آرٹیکل 62-63 پر پورا اترنے والے لوگ موجود ہیں جنہیں موقع ملنے سے یقیناً ملک کی تقدیر سنواری جاسکتی ہے۔ اگر اقتدار سے چمٹے اسی مافیا کو ہی اقتدار تک پہنچانا مقصد رہا تو پھر ملک کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ فرسودہ اور مخصوص لوگوں کے ہاتھوں یرغمال نظام کو ختم کرکے نیا نظام رائج کیا جائے اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر تاریخ کے شفاف ترین الیکشن منعقد کرائے جائیںاور آرٹیکل 62-63 پر پورا اترنے والوں کو ہی الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہئے۔