پانچ جولائی سے چھ جولائی تک!….رؤف کلاسرا
یقینا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک دن سے کیا فرق پڑتا ہے ؟میں کالم لکھ رہا ہوں تو پانچ جولائی ہے‘ جب چالیس برس قبل بھٹو حکومت کا تختہ الٹا گیا‘ جب انہوں نے ان جاگیرداروںکو پارٹی میں شامل کر لیا جن کے خلاف عوام نے بغاوت کر کے انہیں وزیراعظم بنایا تھا ۔ آج جب آپ کالم پڑھ رہے ہیں تو چھ جولائی ہے‘ بہت ممکن ہے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنائی جاچکی ہوگی ۔
ہم جیسے صحافی‘ جو ہمیشہ سے جمہو ریت اور جمہوریت پسند لیڈروں پر یقین رکھتے تھے‘ اب بھی سوچ رہے ہوں گے اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے کہ کوئی وزیراعظم ٹک نہیں سکتا ۔ اقتدار سے اترتے ہی جیل‘ پھانسی گھاٹ‘ اٹک قلعے پہنچادیاجاتا ہے یا اس پر کرپشن کے مقدمات بن چکے ہوتے ہیں۔ اکثر فوجی آمروں کو سیاست اور جمہوریت کو تباہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ طالع آزما آتے ہیں ‘ حکومتوں کو الٹا کر خود اقتدار پر قابض ہوکر بیٹھ جاتے ہیں ‘ مارشل لاء ختم ہوجائے توبھی وہ پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلاتے ہیں۔ لیکن ان دس برسوں میں بہت لوگوں کی رائے تبدیل ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں عامر متین اور میں لاہور سے واپس آتے ہوئے یہی بات کررہے تھے کہ شاہین صہبائی ‘ ایم ضیاء الدین ‘ عامر متین اور دیگر صحافیوں سے زیادہ جنرل مشرف کی حکومت کے خلاف کس نے لکھا ہوگا۔ سزائیں بھگتیں لیکن سیاسی لوگوں نے ان دس برسوں میں جمہوریت اور پاکستان کا کیا حشر کردیا ہے۔ سیاسی لوگوں نے ماضی کے مارشل لاز سے کیا سیکھا ؟
نواز شریف کو جنرل مشرف کا مارشل لاء برا لگتا تھا لیکن جنرل ضیاء کا مارشل انہیں آج تک اچھا لگتا ہے۔ کبھی جنرل ضیاء کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی قوم سے معافی مانگی ۔ پیپلز پارٹی جنرل ضیاء مارشل لاء کو برا سمجھتی ہے لیکن جنرل مشرف کے مارشل لاء میں این آر او ڈیل کر لی ۔ ہمیں اس قابل نہیں چھوڑا کہ ان نام نہاد جمہوری لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوسکیں ۔ ان سیاسی لوگوں کے حق میں کچھ کہنے کی کوشش کریں تو شدید ردعمل آتا ہے۔ نوجوان نسل نے ان سیاسی ٹھگوں اورلٹیروں سے بھاگ کر عمران میں پناہ تلاش کی۔ عمران بائیس برس تک ایک نظریے اور اصول پر ڈٹا رہا اور پھر اس نے بھی نوجوانوں کو سمجھا دیا کہ نہیں زرداری اور شریف خاندان کے ٹھگ ہی آئیڈیل لوگ ہیں۔ اب یہ نوجوان عمران خان کے ساتھ کھڑے ان سیاسی ٹھگوں کا دفاع کرتے ہیں ۔ عمران خان حکومت میں نہیں آیا لہٰذا اسے شک کا فائدہ دیتے ہیں‘ لیکن جو پاکستانی سیاست کو تیس برسوں سے قریب سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اکیلے کپتان سے بھی میچ نہیں جیتے جاتے۔ اگر جیتے جاسکتے تو پھر میسی اور رونالڈو کی ٹیمیں ورلڈ کپ سے باہر نہ نکل جاتیں ۔
اس میں کس کا قصور ہے ؟ مجھ سے پوچھیں تو میں ان سیاستدانوں کو ہی قصور وار سمجھوں گا۔ ان کے پاس دو ہزار آٹھ کے بعد ایک نئی شروعات کا موقع تھا۔ سب ان کے سیاسی اور مالی گناہ معاف کرنے کو تیار تھے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہوا بدل چکی تھی۔ لوگ سمجھتے تھے بی بی کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی بدل جائے گی۔ وہ ایسی بدلی کہ اگر بینظیر بھٹو دوبارہ لوٹ آئیں تو وہ اپنی پارٹی کو نہ پہچان سکیں ۔ ڈاکٹر عاصم حسین‘ شرجیل میمن‘ عزیر بلوچ‘ ایان علی پیپلز پارٹی کے چہرے بن کر ابھرے ۔ دس سالوں میں کراچی کا حلیہ تباہ کر دیا گیا ۔ اندورن سندھ کی حالت یہ ہے کہ صرف لاڑکانہ میں نوے ارب روپے کھائے گئے۔ پورے سندھ کا بجٹ سندھ پر کیا خرچ ہوتا ‘ اس پیسے سے دبئی کے پلازے تعمیر ہوتے رہے۔ اس پیپلز پارٹی کے دور میں ہی سپیکر فہمیدہ مرزا نے تنِ تنہا چوراسی کروڑ روپے کا بینک قرضہ معاف کرالیا اور الٹا اپنی سیاسی مخالف یاسمین شاہ کو سپریم کورٹ سے نااہل قرار دلوا دیا ۔ فہمیدہ مرزا کو کسی نے نااہل نہ کیا حالانکہ بیس لاکھ روپے سے زائد قرضہ معافی یا ڈیفالٹ کی شکل میں آپ الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ وہ دو ہزار تیرہ کا الیکشن جیت چکیں اور اب بھی کاغذات قبول ہوچکے ہیں ۔
پیپلز پارٹی کو سمجھ آچکی ہے کہ لوگوں کی خدمت کرنے کی ضرورت نہیں۔ لوگوں کو جتنا پس ماندہ رکھ سکتے ہو رکھو ‘ اگر یہ پڑھ لکھ گئے تو پھر کل کو سوال کریں گے‘ حقوق مانگیں گے۔ اسی لیے سندھ میں آج پچاس سال بعد بھی پیپلز پارٹی کا نعرہ روٹی‘ کپڑا ‘ مکان ہی ہے۔ دوسر ی طرف نواز شریف نے زرداری سے ڈیل ماری‘ سندھ تمہارا پنجاب ہمارا۔ نواز شریف زیادہ سمجھدار نکلا کیونکہ پنجاب کی آبادی بارہ کروڑ ہے اور این ایف سی میں اسے پچاس فیصد بجٹ ملتا ہے‘سرکاری نوکریوں میں کوٹہ بھی پچاس فیصد ۔ لہٰذا ان کے پاس کھانے کو زیادہ تھا لیکن زرداری نے کہا‘ چلیں پانچ سو ارب روپے سندھ کو جو این ایف سی ملتا ہے وہ بھی اتنا برا نہیں ۔ باقی کا نقصان شوگر ملوں پر قبضے کر کے پورا کر لیں گے یا پھر سندھی گنے کے کسانوں کا حق مار کر ۔ نواز شریف اور شہباز نے نیا ماڈل دیا ‘ کھانا ہے تو لگانابھی ہے۔ لیکن زرداری صاحب بانٹ کر کھانے پر یقین نہیں رکھتے تھے لہٰذا وہ لاڑکانہ کا نوے ارب روپے کھا گئے‘ جس کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ نے کہا تھا : ڈائن بھی ایک گھر چھوڑ دیتی ہے لیکن پیپلز پارٹی نے تو لاڑکانہ تک نہ چھوڑا۔
یہ بات طے ہے کہ شریف خاندان اب بھی زرداری سے وارداتوں میں بہت آگے ہے۔ آپ یہ دیکھ لیں کہ نواز شریف نے انیس سو ترانوے میں ہی لندن میں فلیٹس خرید لیے تھے ‘ آف شور کمپنیاں بھی بنا لی تھیں اور اکنامک ریفامرز ایکٹ لا کر منی لانڈرنگ کو قانونی شکل دے دی تھی ۔ سب پیسہ باہر لے گئے۔ زرداری کو بڑی دیر بعد خیال آیا کہ اگر سیاست کرنی ہے تو نواز شریف ماڈل اپنانا ہوگا۔ اتنی دولت کمانی ہوگی جتنی نواز شریف کما چکے ہیں۔ یوں بینظیر بھٹو کو قائل کرتے ہی زرداری نے چوکے چھکے مارے اور لندن میں سرے محل خرید لیا گیا ۔ پھر جنیوا میں منی لانڈرنگ شروع کی گئی اور ساٹھ ملین ڈالرز وہاں بینک میں رکھوائے گئے۔ خود بی بی ایک نیکلس لیتے پکڑی گئیں۔
نواز شریف اب بھی پیپلز پارٹی سے آگے تھے۔وہ خود بھی منی لانڈرنگ کررہے تھے پھر بھی انہی الزامات پر بینظیر اور زرداری کو جسٹس ملک قیوم سے سزا بھی دلوا رہے تھے۔ ان کا خیال تھا وہ کبھی نہیں پکڑے جائیں گے۔ زرداری آئے تو انہوں نے ڈاکٹر عاصم حسین اور فیصل سخی بٹ جیسے چند فرنٹ مین مارکیٹ میں چھوڑ دیے۔ وزیراعظم گیلانی بھی خاندان سمیت چھوٹی موٹی چوری چکاریوں میں پڑ گئے ۔ پیپلز پارٹی غریبوں کو ہی لوٹنا شروع ہوگئی‘ کسی کو نوکری کے نام پر لوٹا تو کسی کو پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے نام پر۔ نواز ماڈل یہ تھا کہ لوگوں سے پوسٹنگ ٹرانسفر پر مال مت بنائو بلکہ بابوؤں کو استعمال کرو کہ وہ آپ کے لیے مال بنانے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈیں ۔ یوں نوجوان سرکاری بابوؤں کو ڈھونڈ کر انہیں go getters کا لقب عطا کر کے عہدے بانٹے گئے کہ چلو شروع ہوجائو‘ تمہاری تنخواہ ہوگی پندرہ لاکھ روپے اور ساٹھ لاکھ روپے کی گاڑی جو عوام کی جیب سے ملے گی‘ لیکن تم نے چین اور ترکی سے ہمیں اربوں روپے کی فرنٹ کمپنیاں بنا کر مال بنوانا ہے۔ پنجاب میں ساٹھ سے زیادہ بیوروکریٹس جو کلرک کا کام کرنے کے قابل نہ تھے‘ انہیں اربوں روپے کی کمپنیوں کا سربراہ بنا دیا گیا ۔ بابوؤں اور شریفوں نے کھل کر مال بنایا ۔ سب کی حیرت سے چیخیں اس وقت نکلیں جب چین نے انکشاف کیا۔ ایک چینی ٹھیکیدار یہاں دعویٰ کررہا ہے کہ اسے ملتان میٹرو پراجیکٹ میں ایک سب کنٹریکٹ ملا جو تین ارب پچھتر کروڑ روپے کا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ صرف پچھتر کروڑ روپے خرچ کر کے اس نے تین ارب روپے منافع کمایا ہے۔تو پھر آپ بتائیں جب ہر طرف لوٹ مار مچی ہو تو پھر پانچ جولائی یا چھ جولائی کیوں نہ ہوں؟
آج عمران خان نے بائیس برس بعد مان لیا کرپٹ سیاستدانوں اور بہت سارے پیسہ کے بغیر وہ بھی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ یہ وہی دلیل تھی جو90 کی دہائی میں زرداری نے بینظیر بھٹو کو قائل کرنے کے لیے دی تھی کہ بی بی اگر نواز شریف کو شکست دینی ہے تو کرپٹ سیاستدان اور بہت سارا پیسہ ضروری ہے۔ زرداری‘ بینظیر اور شریف خاندان کی اس بدنام زمانہ سیاسی فلاسفی کا جو انجام ہوا وہ آج ہمارے سامنے ہے۔ جو حشر اب عمران خان کی زرداری اور نواز شریف سے ادھار لی گئی اس پرانی فلاسفی کا ہوگا ‘وہ بھی کسی دن سامنے آجائے گا ۔ اپنے دوست کالم نگار حسن نثار کی پرانی بات یاد آگئی ‘ مشین میں ایک طرف سے حرام گوشت ڈالیں گے تو دوسری طرف سے حلال قیمہ نہیں نکلے گا ۔ چلیں پانچ اورچھ جولائی کے بعد مستقبل کی کسی سات جولائی کا انتظار کرتے ہیں !