پانی ہر سو پانی (پہلی قسط)…نذیر ناجی
آزادی یا تقسیم ہند سے پہلے کے زمانے کیسے تھے؟خصوصاً شدید گرمی کے دنوں میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں سے خوش حال افراد‘ انسانی رش کے مقامات پر مٹی کے پیالوں میں‘ ہجوم کے اندر گھرے لوگوں کو‘ مفت پانی پلایا کرتے تھے۔ فرق یہ تھا کہ جو پانی تقسیم کیا جاتا ان گھڑوں پر لکھا ہوتا”ہندو پانی۔ مسلمان پانی‘‘۔ آگے پانی پینے والے کا اپنا فیصلہ ہوتا کہ کون کدھر کا پانی پئے گا؟شکل و صورت اور لباس برملا اعلان کرر ہا ہوتا کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھنے والا ہے؟وہ خود ہی اپنے ہم مذہب کے پانی کی طرف چلا جاتا لیکن جو مشکل میں ہوتا یا رش زیادہ ہے‘ پیاسا اسی طرف کو جاتا جہاں رش کم ہوتا۔یہ حالات پر منحصر ہوتا کہ کہاں کا پانی ہندو ہے؟ اور کدھر کا مسلم؟جہاں بھی پانی آسانی سے اور صاف برتن میں مہیا ہو رہا ہوتا‘ اسی طرف پیاسا لپک کر جاتا اور دستیاب ہونے والا پانی لے کر اپنی پیاس بجھا لیتا۔ایک فرق ضرور تھا کہ مسلمان اگر ہندو پانی کی طرف جا نکلتا تو وہ خود ہی ہاتھ پھیلا کر اوک بنا لیتا۔ پانی بانٹنے والا فوراً سمجھ جاتا کہ یہ کس مذہب کا پانی ہے؟اس کے لئے مٹکے سے ڈبہ بھر کے نکال لیا جاتا اور جہاں جہاں لوگ اوک بنائے کھڑے ہوتے ‘وہاں اونچی دھار بنا کر ‘ ا نہیں پانی پلادیا جاتا۔چوراہوں میں جا بجا پانی کے نل لگے ہوتے۔ پمپ کے ہینڈل سے پانی نکال کر ضرورت مند ‘ اپنے برتن میں یا اوک سے پانی پی لیتے۔
پانی پینے یا لینے والوں میں زیادہ ترمرد ہوتے۔عورتوں کی علیحدہ جگہ ہوتی۔ وہ بلاتفریق مذہب پانی اپنے برتن میں لے لیتیں۔اس معاملے میں کوئی بدمزگی پیدا نہ ہوتی۔اگر خواتین پانی لینے یا پینے آتیں تو مرد حضرات فوراً راستہ چھوڑ دیتے۔اس معاملے میں مذہب کی کوئی تقسیم نہیں تھی۔ لیکن جہاں رش ہوتا وہاں عموماً نلکوں پر تقسیم رکھی جاتی۔عورتیں اپنے لئے بنے ہوئے علیحدہ پانی کی طرف چلی جاتیں۔ ہندو ناریاں اپنے نل کی طرف جا نکلتیں اور مسلمان خواتین اپنے نل کی طرف۔یہی صورت حال مردانہ نل کی طرف ہوتی۔شدید گرمی میں ہندو یا مسلم پانیوں کو ٹھنڈا کر کے پلایا جاتا۔ اس غرض سے یا تو پانی ٹب میں بھر لیا جاتا یا مٹکے میں۔امن و امان کے دن ہوتے تو مذہب کا زیادہ فرق بھی نہ کیا جاتا۔خصوصاً خواتین کا اگر ایک ہی نل ہوتا تو مذہب کا فرق مٹ جاتا اور خواتین یا ناریاں‘ اپنی اپنی باری پر امن و امان سے پانی پی کر یا لے کر چلی جاتیں اور پیچھے کھڑی اپنی ساتھی یا ساتھیوں کو برتن کی ”اوقات ‘‘کے مطابق پانی لے جا کر پلا دیتیں۔
جن دنوں ہندو مسلمانوں میں کشیدگی ہوتی تو پانی بھی تقسیم ہو جاتا۔ایسی صورت حال میں مسلمان مردوں اور عورتوں کو‘ اپنے مذہب کے مطابق‘ الگ الگ نلکے یامٹکے کی طرف جانا پڑتا۔ اگر جان پہچان والے ایک ہی محلے کے لوگ ہوتے تو بیشتر اوقات میں دونوں طرف کا پانی ہم مذہبوں کو پلا دیا جاتا۔ ہندو مسلم میں جھگڑا تازہ ہوتا تو پانی بھی دوسری طرف رخ کر لیتا اور امن کے دن اچھے گزر رہے ہوتے تو ہر مذہب کے پیاسے کو پانی مل جاتا۔ بیشتر اوقات میں بلاتفریق پانی پلایا جاتا اور اگر پیاسوں کی پہچان بہت نمایاں کردی گئی ہوتی‘ تو ہندو کوہندو پانی مل جاتا اور مسلمان کو مسلم پانی دستیاب ہو جاتا۔اگر کوئی بہت ہی پیاسی عورت جس کی گود میں بچہ بھی ہوتا تو پانی ہندو ہوتا یا مسلم‘ بلا تفریق پانی دے دیا جاتا۔”ہندو مسلم بھائی بھائی‘‘ کے نعرے لگ رہے ہوتے تو پانی بھی اپنا مذہب پہچان کر پیاسے کی طرف رخ کر لیتا۔ بیشتر اوقات ہندو پانی ‘ مسلم پانی کی طرف نہیں جاتا تھا اور نہ ہی اس کے الٹ ہوتا۔رش کے اوقات میں پانی ہندو ہو جاتا اور بعد میں مسلمانوں کا۔
ایک ساتھ پانی پینے والے ہندو اور مسلمان صلح صفائی کے ساتھ رہتے تو پانی بھی یہی گاتا ہوا پیاسے کے پاس پہنچتا ” تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا‘‘۔پانی پیار سے ہندو بن کے اس کی پیاس بجھا دیتا اور مسلمان اپنے ہم مذہب سے پانی پی لیتا۔برصغیر کو ”آزادی ‘‘ملی تو ہندو نقل مکانی کر کے ہندو ہو جاتے اور مسلمان‘ مسلمان۔میں بھارت کے اندر غریبوں کی بستیوں میں تو نہیں گیا لیکن دلی ریلوے سٹیشن پر میر ا مشاہدہ یہ ہے کہ ریل کے اندر بیٹھے ہوئے مسافروں کو‘ پٹڑی سے تھوڑی ہی دور‘بلا امتیازعورتیں اور مرد ایک ساتھ بیٹھے‘ نظام قدرت کی لڑی میں پروئے ہوئے نظر آتے۔کوئی کسی کی طرف دیکھتا نہیں تھا ۔ نہ ہی ریل گاڑی میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کی طرف۔ اور رفع حاجت کے لئے بے ترتیب بیٹھے بیٹھے ایک نظر فطرت کی طرف دیکھتے اور منہ موڑ لیتے۔کسی کو پتہ نہیں تھا کہ دکھائی دینے والا مسلم ہے یاغیر مسلم؟سوشلسٹ ہے یا دھارمک؟ انقلابی ہے یا تشدد پسند؟بھارت میں ہندو مسلم عموماً ایک جیسی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ البتہ تیز دانتوں کے ماحول میںایک دوسرے کو دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں کہ کون اپنے دانتوں سے کس کی گردن دبوچے گا؟