منتخب کردہ کالم

یہ اندلس ہے یا پاکستان؟سہیل وڑائچ (فیض عام)

پاکستان برادرم فرخ سہیل گوئندی ثم سرگودھوی نے سٹینلے لین پول کی کتا ب ” دی مورز اِن سپین‘‘ (The Moors in Spain) کا ذکر کیا تو یادوں کا ایک الائوروشن ہو گیا۔ گزشتہ سال کے انہی دنوں کا قصہ ہے کہ میں سپین کے شہر غرناطہ کی اس بلند پہاڑی پر کھڑا تھا جسے عرف عام میں ” مُور کی آخری آہ ‘‘ کہتے ہیں۔ عین اسی جگہ پر غرناطہ کے آخری مسلم حکمران بوعبدل (ابوعبداللہ ) نے وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے مڑ کر الحمراء کے خوبصورت محلات اور جنت العارف کے شاندار باغات کو دیکھ کر ایک لمبی آہ بھری اور زارو قطار رونا شروع کر دیا‘ تاریخ نویس لین پول کے مطابق ابو عبدل کی بوڑھی ماں چپ نہ رہ سکی اور کہا ”اب تم جس کے لیے عورتوں کی طرح رو رہے ہو‘ مردوں کی طرح اس کی حفاظت نہ کرسکے‘‘۔
اسی پہاڑی پر کھڑے کھڑے میرے دماغ میں ایک طرف پروفیسر رائن ہارٹ ڈوزی کی کتاب ”عبرت نامۂ اندلس‘‘ کے مختلف ابواب فلم کی طرح گھوم رہے تھے اور دوسری طرف مجھے پاکستان کے سیاسی اتار چڑھائو کانوں میں سرگوشیاں کرتے سنائی دے رہے تھے۔ ناظم دارالترجمہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن‘ مولوی عنایت اللہ دہلوی نے جب تقریباً سو سال پہلے ڈوزی کی اس تاریخی کتاب کا ترجمہ کیا تھا تو انہیں اندازہ تک نہیں ہوگا کہ مسلم سپین یا اندلس کے مسلمانوں کی باہمی لڑائیوں‘ عصبیتوں‘ شاہی محافظوں کی طرف سے بند کمروں میں بیٹھ کر حکمرانی کے فیصلے،اس زمانے کے عسکری خانوں‘ عدالت خانوں‘ مذہبی خانوں کی کہانیاں‘ انتہاپسند مذہبی گروہوں کی چیرہ دستیوں‘ توہین مذہب کے قوانین اور سب سے بڑھ کر خود اندلس کے عوام کی بے صبری پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ سب کچھ کبھی پاکستان پر بھی صادق آئے گا۔
جس طرح ہم پاکستانی ہر سال سقوط ڈھاکہ کی برسی پر آنسو بہاتے ہیں‘ اسی طرح دنیا بھر کے مسلمان سقوط غرناطہ پر آج تک رنجیدہ ہوتے ہیں۔ افسوس کہ دونوں سقوط میں مسلم کمانڈرز نے باقاعدہ لکھے ہوئے معاہدے کے تحت اپنے ملکوں کو خود پلیٹ میں رکھ کر دشمنوں کو پیش کیا۔ غرناطہ کے بادشاہ ابو عبداللہ (بو عبدل) نے سپین کے عیسائی بادشاہ فرڈینینڈ کے سامنے 25 نومبر 1491ء کو اپنے ملک کی خودمختاری قربان کردی اور اپنی جان بخشی کے بدلے اندلس کے مسلمانوں کے تاریک مستقبل پر مہر لگا دی۔ سقوط غرناطہ کے ٹھیک 480 سال ایک ماہ بعد 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں پاکستانی کمانڈر نے جان و مال کے تحفظ کے نام پر مشرقی پاکستان‘ دشمن کے حوالے کردیا۔ یہ قدرت کا انتقام تھا کہ ستم ظریفی‘ یا پھر محض ایک اتفاق۔ غرناطہ اور ڈھاکہ دونوں جگہ سرنڈر کرنے والے ابو عبداللہ اور امیر عبداللہ (خان نیازی) ہم نام تھے۔ ابو عبداللہ اپنے زوال کا ذمہ دار اپنی بدقسمتی کو سمجھتا تھا جبکہ امیر عبداللہ کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان نے دھوکہ دیا۔
نامور تاریخ دان سٹینلے لین پول کے مطابق سپین میں 8 صدیوں تک جاری مسلم حکومت پورے یورپ کے لیے روشن مثال کی طرح تھی۔ یہ مہذب اور روشن خیال ریاست تھی‘ ایک طرف اندلس کی زرخیز زمین اور دوسری طرف مسلم فاتحین کی انجینئرنگ اور انڈسٹری میں مہارت نے ترقی کو چارچاند لگا دیے۔ آرٹ‘ ادب اور سائنس نے اس قدر ترقی کی کہ پورے یورپ میں سپین کا کوئی ثانی نہ رہا۔ احساسِ کمتری اور خود ترحمی کے جذبات سے نکلیں تو پاکستان نے صرف 70 سال میں دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن کر دکھایا ہے۔ ہماری فوج دنیا کی چھ بڑی پروفیشنل افواج میں شمار ہوتی ہے ۔ ہمارے ڈاکٹر اور انجینئر دنیا بھر میں بہترین تنخواہیں وصول کرتے اور اپنی مہارت کی داد پاتے ہیں۔ پاکستان اسلامی دنیا کا واحد اور پہلا ملک ہے جس نے اسلام اور جمہوریت کی بنیاد پر اپنا آئین تشکیل دیا‘ جہاں سیاسی آزادیوں اور اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ گویا پاکستان ترقی و تعمیر‘ ادب و فن اور پروفیشنل مہارت کی وجہ سے ایک نیا اندلس ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اندلس کی ساری خرابیاں بھی پاکستان میں در آئی ہیں۔
لین پول اور ڈوزی اندلس کے زوال کا سب سے بڑا سبب عصبیت کو قرار دیتے ہیں‘ یعنی اپنے قبیلے‘ خاندان‘ فرقے یا سوچ سے ایسی محبت جس کی بنا پر آپ دوسروں کو حقیر جانیں اور ان سے نفرت کریں۔ اندلس میں یمانیہ اور معدیہ‘ کلبی اور قیسی‘ عربی اور بر بر تعصبات ملی و حدت کو کمزور کرتے تھے تو یہاں شیعہ اور سنی‘ وہابی اور سنی‘ بریلوی اور دیوبندی‘ لسانی اختلافات اور صوبائی تعصبات پاکستان کی وحدت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
اندلس میں مسلم عیسائی مناقشت کے نتیجے میں توہین مذہب کا قانون نافذ تھا۔عیسائیوں نے سرعام اس جرم کا ارتکاب کیا اور کلیسا نے انہیں ”ولی‘‘ کا درجہ دے ڈالا‘ ہمارے ہاں بھی اقلیتوں میں اس قانون کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں۔ اندلس کے عاقل بادشاہ امیر عبدالرحمن نے اس مسئلے کے حل کے لیے اقلیتوں کی ایک کانفرنس بلوائی اور پھر ان سے یہ قرارداد منظور کروائی کہ آئندہ عیسائی اس جرم سے باز رہیں۔ یوں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان اس حوالے سے معاہدہ طے پایا اور بقائے باہمی کے اصولوں پر ریاست چلتی رہی۔ کیا ہم اس مسلم امیر عبدالرحمن سے رہنمائی نہیں لے سکتے‘ جس نے اپنے عیسائی مشیر قومس سے یہ تاریخی کام لیا تھا۔ پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارا چنار میں اقلیتوں کو برابر کا پاکستانی قرار دے کر قائداعظمؒ کی یاد تازہ کردی ہے۔ استحکام پاکستان کے لیے ضرورت ہے کہ اس معاملے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔
اندلس کے زوال کا سب سے بڑا سبب وہاں کے عوام تھے جو ہمیشہ غیرمطمئن رہتے تھے۔ ہر غلطی کا ذمہ دار حکمران کو قرار دیتے تھے‘ حالانکہ اکثر غلطیاں ان کی اپنی ہوتی تھیں۔ کیا پاکستان میں ایسا ہی نہیں ہے؟
اندلس میں بھی حکومتیں قومی مفاد کے تحت بدل جاتی تھیں۔ شاہی محل کے خواجہ سراء محافظ قومی مفاد کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ رائن ہارٹ ڈوزی نے لکھا ہے کہ ”خواجہ سراء ابوالمفرح بڑا دین دار شخص تھا۔ بیت اللہ کا حج بھی کرکے آیا ہوا تھا۔ اس نے خواجہ سراء محافظوں سے مخاطب ہو کر کہا ”اگر عبداللہ امیر ہوگیا تو ہمارے اختیارات سپین سے یک لخت اُٹھ جائیں گے‘ لوگ ہمیں گالیاں دیں گے اور کہیں گے کہ ان خواجہ سرائوں پر لعنت ہو‘ انتخاب جانشینی کے لیے بہتر سے بہتر شہزادے کے ہوتے ہوئے انہوں نے بدتر کا انتخاب کیا؛ چنانچہ خواجہ سرائوں نے محمد بن عبدالرحمن کو تخت پر بٹھا دیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو راتوں رات مسلم لیگ‘ ری پبلکن پارٹی بن گئی تھی۔ اندلس کے خواجہ سرائوں کی طرح یہ فیصلہ مرکز میں بیٹھے گورنر جنرل سکندر مرزا اور ان کے حواریوں کے اشارے پر ہوا تھا۔ جس طرح اسمبلیاں‘ ٹوٹتی اور بنتی رہیں‘ مارشل لاء آتے اور جاتے رہے‘ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چند سیاست خانوں‘ عسکری خانوں اور مذہب خانوں نے بند کمروں میں بیٹھ کر کروڑوں عوام کی قسمت کے فیصلے کیے‘ یہ فیصلے نام نہاد قومی مفاد میں کیے گئے مگر مقاصدہمیشہ ”ذاتی مفادات ‘‘ رہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب صدارتی محل میں صدر آصف زرداری فروکش ہوتے تھے تو وہاں ایک کوڈ نام سے زرداری صاحب کے بہترین دوست کو پکارا جاتا تھا۔ جب وہ آتے یا جاتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ ”MyBest Friend‘‘ آ رہے ہیں اور یہ صاحب آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا تھے جو صدر زرداری کو چین سے دوستی‘ عمران خان کی سیاست سے زرداری صاحب کو پہنچنے والے سیاسی فائدوں اور ملکی سیاست کے بارے میں مشورے دیا کرتے تھے۔ مگر میموگیٹ ہوا تو وہ ان کے خلاف سب سے آگے آگے تھے۔ وقت کی گرد دبی‘ زرداری اور پاشا دونوں اپنے عہدوں سے فارغ ہو کر دبئی جا بسے تو جنرل پاشا نے زرداری کو پیغام بھیجا ”میری آپ سے لڑائی نہیں ہے‘ میں آپ کا وہی فرینڈ ہوں‘ جو غلطی ہوئی اسے بھول جائیں‘‘ میں نے یہی بات ٹی وی پر دہرا دی تو میرے دوست شاہین صہبائی نے جنرل پاشا سے یہی بات پوچھ ڈالی تو انہوں نے تردید کی مگر زرداری صاحب اب بھی اپنی بات پر قائم ہیں کہ انہیں معافی کا پیغام آیا تھا ۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور گرفتاری، دونوں میں جنرل پاشا کا کردار تھا۔ پہلے قومی مفاد تھا کہ” امریکہ کو ہم نے پینٹ اتارے ہوئے سرعام پکڑ لیا ہے‘‘ اور پھر قومی مفاد یہ تھا کہ ”مقاصد پورے ہوگئے‘ اب چھوڑ دینا چاہیے‘‘۔ اسی لیے تو مجھے غرناطہ کی چوٹی پر یوں لگا تھا کہ آج کا پاکستان‘ ماضی کا اندلس ہے۔ انجام بہرحال ویسا نہیں ہونا چاہیے۔